وعدہ خلافی بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے
جھوٹ ایسی چھوٹی برائی نہیں ہے کہ کبھی کبھی بول لیا تو کوئی حرج نہیں۔ یہ ایک ایسی حرکت ہے جو منافقت کی طرف لے جانے والی ہے۔ ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو بڑی فکر کی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر بعض دفعہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یا مذاق میں یا کوئی چیز حاصل کرنے کے لئے جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں، غلط بیانی سے کام لے رہے ہوتے ہیں۔ پھر وعدہ خلافی ہے یہ بھی جھوٹ کی ہی ایک قسم ہے۔ قرض لے کر ٹال مٹول کر دیا وعدہ خلافی کرتے رہے، توفیق ہوتے ہوئے بھی واپس کرنے کی نیّت کیونکہ نہیں ہوتی اس لئے ٹالتے رہے۔ پھر اس کے علاوہ بھی روزمرہ کے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں انسان اپنے وعدوں کا پاس نہیں رکھتا۔ پھر میاں بیوی کے بعض جھگڑے صرف اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ بیوی کو یہ شکوہ ہوتا ہے کہ خاوند نے فلاں وعدہ کیا تھا پورا نہیں کیا۔ مثلاً یہ وعدہ کر لیا کہ جب میں اپنے کام سے واپس آ جاؤں تو فلاں جگہ جائیں گے۔ اس کو پورا نہیں کیا بلکہ واپس آ کے اپنے دوستوں کی مجلسوں میں گپیں مارنے کے لئے چلا گیا۔ یا اس نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آئندہ میرے ماں باپ سے حسن سلوک کرے گا یا کرے گی کیونکہ یہ عورت و مرد دونوں کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر اس کو پورا نہیں کیا۔ تو یہی چھوٹی چھوٹی وجہیں ہیں جو جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ جہاں تک اس کا تعلق ہے، ایک دوسرے کے رشتوں کا، ماں باپ کاخیال رکھنا، یہ تو چیز ایسی ہے کہ یہ تو رحمی رشتوں کے زمرے میں آتا ہے۔ ان سے تو ویسے ہی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ وعدہ نہ بھی کیا ہو تو حکم ہے کہ حسن سلوک کرو۔ پھر امانت میں خیانت کرنے والے ہیں کچھ عرصہ تو ایمانداری دکھا کے اپنی ایمانداری کا کسی پر رعب جما لیتے ہیں، اور اس کے بعد پھر خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ تمام باتیں جھوٹ ہی کی قسم ہیں۔… جھوٹ ایک ایسی لغو حرکت ہے جو جب عادت بن جائے تو ایسے شخص کا شمار اللہ کے نزدیک کذّاب کے طور پر ہوتا ہے۔ اور کاذب(جھوٹا) جو ہے وہ پھر کبھی ہدایت پانے والا نہیں ہوتا۔ وہ ہدایت سے دُور جانے والا ہوتا ہے۔ اور پھر اس کا ٹھکانہ بھی دوزخ ہے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اگست ۲۰۰۴ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۳؍ستمبر ۲۰۰۴ء)