قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے
حقیقت میں جوشخص جلدی رائے قائم کر لیتا ہے وہ دوسروں کو بھی ابتلا میں ڈالتا ہے۔ پس خلاف واقعہ رائے ظاہر کرنا خون کرنے کے برابر ہے۔ بہت باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جوں جوں انسان ان پر زیادہ غور کرتا ہے،اسی قدر نتیجہ عمدہ نظر آتا جاتا ہے۔
انسان کو سچائی تک پہنچنے کے واسطے دو باتوں کی ضرورت ہے۔اوّل خدا دادعقل اور فہم ہو۔ دوم خدا داد سمجھ اور سعادت ہو۔ جن لوگوں کو مناسبت نہیں ہوتی ان کے دلوں میں کراہت اور اعتراض ہی پیدا ہوتے جاتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ لوگوں میں سے اکثر لوگوں نے راستبازوں کا انکار کیا۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۴۲۵-۴۲۶، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے۔جیسا کہ فرمایا ہے فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج : ۳۱) دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے۔اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اَور کچھ بھی نہیںہوتا۔جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہان تک کم ہو جاتا ہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے،تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔مدّت تک ریاضت کریں تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔
(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۵۰، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)