متفرق شعراء
محترم عبدالکریم قدسی صاحب کی نذر
اک ادب کا ماہ پارہ چل دیا
فکر و فن کا استعارہ چل دیا
کر گیا ویراں سخن کی محفلیں
دے کے فرقت کا اشارا چل دیا
کیا کروں قابو میں اشک آتے نہیں
لے کے دل جیسے ہمارا چل دیا
کون بولے گا سنا زاہد میاں
وہ غزل اپنی دوبارہ چل دیا
کر گیا ہے وہ سبھی کو غمزدہ
کر کے دل کو پارہ پارہ چل دیا
اتنا ہی لکھا تھا اُس کا یہ سفر
دے کے کشتی کو کنارا چل دیا
اب کہاں دیکھیں گے وہ حسنِ غزل
اتنا وہ لکھتا تھا پیارا چل دیا
مانگتا تھا ہر کسی کی خیر جو
آج وہ قدسی ہمارا ، چل دیا
اس کی اے مولا خطائیں بخشنا
بندہ وہ عاجز تمہارا چل دیا
کیا کریں زاہدؔ یہی ہے زندگی
جس کو مولا نے پکارا چل دیا
(سید طاہر احمد زاہدؔ)