حقوقِ نسواں (حصہ سوم)
دینی اور معاشرتی کاموں میں مشورہ دینے کا حق:اسلام سے پہلے عربوں میں یہ تصوّر پایا جاتا تھا کہ عورت کو مردوں کے معاملے میں نہیں بولنا چاہیے اور اگر کبھی کوئی عورت ایسے کرلیتی تو اسے سخت ناپسند کیا جاتا۔مگر اسلام کی نعمت جب اس دنیا میں آئی تو عورت کو اس کی حیثیت اور مقام ملا۔
یہ مقام بھی آنحضورﷺ کے زمانے سے عورت کو ملا اور اس کی سب سے بڑی مثال حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جنہوں نے آنحضورﷺ کی آغازِ وحی میں بھر پور مدد کی۔ آپؐ کو تسلی دی اور آپؐ کی مدد کے لیے اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس بھی لے کر گئیں جنہوں نے آپؐ کے حالات سنتے ہی کہا کہ یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰؑ پر وحی لاتا تھا۔ اس کے علاوہ حضرت خدیجہؓ نے دینی کاموں میں مدد کرتے ہوئے اپنی ساری جائداد آنحضورؐ کو دے دی کہ آپؐ جہاں چاہیں خرچ کریں۔
اسی طرح اگر ہم صلح حدیبیہ کے واقعہ کو دیکھیں تو اس میں بھی ہمیں عظیم الشان مثال نظر آتی ہے۔ کس طرح اس وقت غم کی حالت میں ڈوبے ہوئے مسلمانوں اور آنحضورؐ کو ایک عورت کے مشورے نے غم سے نکالا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عمرہ نہ ہوسکا اور آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان یہاں پر ہی اپنی اپنی قربانی دے دیں۔مگرمسلمان جو کہ غم کی حالت میں تھے آپؐ کے اس ارشاد کی تعمیل نہ کی تو آپؐ اداس اور فکرمندی کی حالت میں اپنی زوجہ حضرت امّ سلمیٰؓ کے خیمہ میں داخل ہوئے تو آپؐ کی پریشانی سن کر اور دیکھ کر آپؐ کو مشورہ دیا: ’’یا رسول اللہؐ!آپ رنج نہ فرمائیں۔ آپؐ کے صحابہؓ نافرمان نہیں مگر اس صلح کی شرائط نے انہیں دیوانہ بنا رکھا ہے۔پس میرا مشورہ یہ ہے کہ آپؐ ان سے کچھ نہ فرمائیں بلکہ خاموشی کے ساتھ باہر جاکر اپنے قربانی کے جانور ذبح فرمائیں اور اپنے سر کے بالوں کو منڈوادیں۔ پھر آپؐ کے صحابہ خود بخود آپ کے پیچھے ہولیں گے۔‘‘ آنحضورؐ کو یہ تجویز پسند آئی اور آپؐ نے باہر تشریف لا کر بغیر کچھ کہے اپنی قربانی کے جانور کو ذبح کر کے اپنے سر کے بال منڈوانے شروع کردیے۔صحابہؓ نے یہ منظر دیکھا تو جس طرح سویا ہوا شخص کوئی شور وغیرہ سن کر اچانک بیدارا ہو تا ہے وہ چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے اور دیوانہ وار اپنے جانور وں کو ذبح کرنا شروع کردیا اور ایک دوسرے کے سر کے بال مونڈنے لگے۔(سیرت خاتم النبیین ؐصفحہ ۷۶۹-۷۷۰ ایڈیشن۱۹۹۶ء مصنفہ حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ ایم۔اے )
عورت سے حسنِ سلوک کی تعلیم:اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔(النساء:۲۰)ترجمہ: ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔
آنحضورﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو عورت کو مقام اور آزادی دلوائی اس کے ساتھ جو حسن سلوک کی تعلیم دی اس کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے یکم اگست ۱۹۸۷ء کے خطاب کے دوران فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ہمارا یہ حال ہوگیا تھا کہ ہم اپنے گھروں میں اپنی عورتوں سے بے تکلفی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈرنے لگے تھے کہ کہیں یہ شکایت نہ کردیں اور ہمارے خلاف کوئی آیت نہ نازل ہوجائے۔(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصاۃ با النساء)(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد ۲ صفحہ ۹۰)
اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ’’چاہیے کہ بیویوں سے خاوند وں کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔ انسان کے اخلاقِ فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہی تو یہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان سے ہی تعلقات اچھے نہیں ہیں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صُلح ہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایاخَیرُکُم خَیرُکُم لِاھلہتم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۰۰-۳۰۱، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
آنحضورﷺ کا جو اپنی ازواجِ مطہرات سے حسنِ سلوک تھا وہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کا نمونہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح آپؑ اپنی شریکِ حیات حضرت اماں جانؓ کا خیال رکھتے تھے۔اگر ہر احمدی اس پر عمل کرے تو گھر جنتِ نظیر بن سکتے ہیں اورخدا کرے کہ ہماری نسلیں بھی اس تعلیم پر عمل کر کے اسلام میں داخل ہونے والی نئی قوموں کے لیے ایک روشنی کا مینار ہوں اور آنے والی قوموں کے رہبر ہوں اور قومیں ان سے فیض حاصل کریں۔آمین
معاویہ التقشیری فرماتے ہیں: ’’میں نے آنحضورﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ! بیوی کا حق ہم پر کیا ہے؟آپؐ نے فرمایا: جو خدا تمہیں کھانے کے لیے دے وہ اسے کھلاؤ اور خدا تمہیں پہننے کے لیے دے وہ اسے پہناؤ اور اس کو تھپڑ نہ مارو اور گالیاں نہ دو اور اسے گھر سے نہ نکالو‘‘۔ (ابو داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرا علی ٰ زوجھا ) (نبیوں کا سردار صفحہ ۲۹۸ مصنفہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ)
اسلامی تعلیم نے جو عورت کو مقام اور مرتبہ میں کردار ادا کیاہے وہ دنیا کے باقی تمام مذاہب سے بڑھ کر ہے جس کی نظیر ہمیں کسی دوسرے مذہب میں نظر نہیں آتی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۶ء کو مستورات سے خطاب کرتے ہوئے مغربی ممالک جو خود کو عورت کی آزادی کے سب سے زیادہ علمبردار سمجھتے ہیں کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا :’’ ۱۸۵۷ء سے پہلے عورتوں کو قانونی طور پر طلاق لینے کا کوئی حق نہ تھا۔
کیمبرج کے Examination Board نے لڑکیوں کو ۱۸۶۶ء میں پہلی دفعہ امتحان دینے کی اجازت دی۔۱۸۸۲ء میں پہلی دفعہ یورپ میں عورت کو اپنے نام پر جائداد رکھنے کا حق حاصل ہوا۔ ۱۸۹۰ء تک عورتوں کا اپنے خاوند کی جائداد پر کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ ۱۹۲۰ء سے پہلے آکسفورڈ یونیورسٹی میں کوئی عورت داخلہ ہی نہیں لے سکتی تھی۔۱۹۳۷ء سے پہلے تک انگلستان میں عورت مرد سے طلاق لینے کا حق نہیں رکھتی تھی۔۱۹۴۴ء سے پہلے عورتوں کو شادی کے بعد تعلیمی پروفیشن سے قانوناً خارج کردیا جاتا تھا، یعنی عورت کو شادی کے بعد کسی تعلیمی پروفیشن سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔۱۹۴۸ء سے پہلے کیمبرج یونیورسٹی میں کوئی عورت ڈگری حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ ۱۹۵۳ء سے پہلے…وومن ٹیچر کی تنخواہ اگرچہ مضمون ایک ہی پڑھاتی ہو، اور ایک ہی جیسا وقت دیتی ہو، مرد استاد سے بہت کم تھی۔
۱۹۶۷ء کے Matrimonial Homes Act سے پہلے قانونی طور پر عورت کو مرد کے گھر میں رہنے کا حق حاصل نہ تھا۔ یعنی اگر یہ ۱۹۶۷ء کی بات ہے ،آپ تصور کریں ذرا،یہ جو آزادی کی باتیں کرنے والی مغربی دنیا ہے، کل تک ان کا اپنا حال کیا تھا۔ (اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد۲ صفحہ ۴۶)
اس کے مقابلےپر اسلام کی تعلیم ایسی خوبصورت تعلیم ہے کہ اس نے معاشرے کی کایا ہی پلٹ دی۔
شادی کے موقع پر رضامندی کا حق:حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۰۰۳ء میں لجنہ اماءاللہ جرمنی سے خطاب کرتے ہوۓ فرمایا :’’ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابیؓ نے اپنی لڑکی کا نکاح ایک مال دار شخص سے کردیا جس کو لڑکی نا پسند کرتی تھی۔ وہ آنحضورﷺکی خدمت میں شکایت لے کر حاضر ہوئی اور کہا یا رسول اللہؐ! ایک تو مجھے آدمی پسند نہیں دوسرے میرے باپ کو دیکھیں کہ مال کی خاطر نکاح کر رہا ہے۔ میں بالکل پسند نہیں کرتی۔آپﷺ نے فرمایا تُو آزاد ہے کوئی تجھ پر جبر نہیں ہوسکتا۔جو چاہے کر۔عرض کیا ،یا رسول اللہؐ میں اپنے باپ کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتی اس سے بھی میرا تعلق ہے۔میں تو اس لیے حاضر ہوئی تھی کہ ہمیشہ کے لیے عورت کا حق تسلیم کر کے دکھاؤں تاکہ دنیا پر ثابت کر کے دکھاؤں کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف رخصت نہیں کر سکتا۔صحابیہ کہتی ہیں اب جب آپ نے حق قائم کر دیا ہے تو خواہ مجھے تکلیف پہنچے میں باپ کی خاطر اس قربانی کے لیے تیار ہوں ‘‘(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد سوم حصہ اول صفحہ ۴۱-۴۲)(باقی آئندہ)