خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۳؍ مارچ ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آپؑ [حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام] نے قرآنِ کریم کے مختلف پہلوؤں پر جس طرح گہرائی میں جاکر روشنی ڈالی ہے اور اس کے حسن سے آگاہ فرمایا ہے جیسا کہ مَیں نےوہ گذشتہ دو خطبات میں بیان کیا تھا۔آپؑ کے بیان کردہ علم و معرفت کے اس خزانے اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھنے کا یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی کافی مواد اس بارے میں بیان کرنے والا ہے۔ آج بھی اس سلسلےکو جاری رکھتے ہوئے مَیں قرآن کریم کی خصوصیات اور مقام اور اہمیت کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات و تحریرات کی روشنی میںکروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’قرآن خداکاکلام ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:لالہ بھیم سین کے نام ایک خط میں حضرت مسیح موعود ؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ابھی تھوڑے دن کی بات ہے کہ لیکھرام نامی ایک برہمن جو آریہ تھا، قادیان میں میرے پاس آیا اور کہا کہ وید خدا کا کلام ہے۔ قرآنِ شریف خدا کا کلام نہیں ہے۔ میں نے اُس کو کہا کہ چونکہ تمہارا دعویٰ ہے کہ وید خدا کا کلام ہے مگر میں اُس کو اُس کی موجودہ حیثیت کے لحاظ سے خدا کا کلام نہیں جانتا کیونکہ اُس میں شرک کی تعلیم ہے۔‘‘جس میں شرک کی تعلیم ہو وہ خدا کا کلام کس طرح ہو سکتا ہے! اور اس کے علاوہ ’’اور کئی اَور ناپاک تعلیمیں ہیں۔ مگر میں قرآنِ شریف کو خدا کا کلام جانتا ہوں کیونکہ نہ اس میں شرک کی تعلیم ہے اور نہ کوئی اَور ناپاک تعلیم ہے۔ اور اُس کی پیروی سے زندہ خدا کا چہرہ نظر آجاتا ہے اور معجزات ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘پس خدا تعالیٰ کے کلام ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ شرک سے پاک ہو اور اس پر عمل کرنے سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آئے۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآنی تعلیم اورآنحضرتﷺکی پاک صحبت کےصحابہ کرامؓ کی زندگیوں پراثرکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرتﷺ کا زمانہ جو صدرِ اسلام کا وقت تھا اس زمانہ پر ایک وسیع نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم نے کیونکر ایمان لانے والوں کو مذکورہ بالا ادنیٰ درجہ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیا کیونکہ ایمان لانے والے اپنی ابتدائی حالت میں اکثر ایسے تھے کہ جس حالت کو وہ ساتھ لے کر آئے تھے وہ حالت جنگلی وحشیوں سے بدتر تھی اور درندوں کی طرح اُن کی زندگی تھی اور اس قدر بد اعمال اور بد اخلاق میں وہ مبتلا تھے کہ انسانیت سے باہر ہوچکے تھے اور ایسے بےشعور ہو چکے تھے کہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہم بداعمال ہیں یعنی نیکی اور بدی کی شناخت کی حس بھی جاتی رہی تھی۔ پس قرآنی تعلیم اور آنحضرتﷺ کی صحبت نے جو پہلا اثر اُن پر کیا تووہ یہ تھا کہ اُن کو محسوس ہو گیا کہ ہم پاکیزگی کے جامہ سے بالکل برہنہ اور بداعمالی کے گند میں گرفتار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی پہلی حالت کی نسبت فرماتا ہے اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ(الاعراف:۱۸۰) یعنی یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ پھر جب آنحضرتﷺ کی پاک صحبت اور فرقانِ حمید کی دلکش تاثیر سے اُن کو محسوس ہو گیا کہ جس حالت میں ہم نے زندگی بسر کی ہے وہ ایک وحشیانہ زندگی ہے اور سراسر بد اعمالیوں سے ملوث ہے تو انہوں نے رُوح القدس سے قوت پا کر نیک اعمال کی طرف حرکت کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے وَاَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ(المجادلة:۲۳) یعنی خدا نے ایک پاک رُوح کے ساتھ ان کی تائید کی۔ وہ وہی غیبی طاقت تھی جو ایمان لانے کے بعد اور کسی قدر صبرکرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس طاقت کے حاصل ہونے کے بعد نہ صرف اس درجہ پر رہے کہ اپنے عیبوں اور گناہوں کو محسوس کرتے ہوں اور ان کی بدبو سے بیزار ہوں بلکہ اَب وہ نیکی کی طرف اس قدر قدم اٹھانے لگے کہ صلاحیت کے کمال کو نصف تک طے کر لیا اور کمزوریوں کے مقابل پر نیک اعمال کی بجاآوری میں طاقت بھی پیدا ہو گئی۔‘‘نہ صرف کمزوریاں دُور کیں بلکہ نیکیوں میں قدم بڑھتے گئے۔ ’’اور اس طرح پر درمیانی حالت اُن کو حاصل ہوگئی اور پھر وہ لوگ رُوح القدس کی طاقت سے بہرہ وَر ہوکر اُن مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آ جائیں۔ تب اُنہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے اُن مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں۔ انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کا خس و خاشاک کی طرح بھی قدر نہ کیا۔ آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے اُن کے دلوں کو گناہ سے بکلّی بیزار کر دیا اور نیکی کی محبت ڈال دی۔‘‘پس یہ ہے قرآن کریم کا اُن پر اثر کہ وہ زمین سےاٹھےاور آسمان کے چمکدار ستارے بن گئے جن کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک تمہارےلیے راہنما ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی چاراعجازی خوبیوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں) ’’قرآن شریف کی اعجازی خوبیوں میں سے ایک بلاغت فصاحت بھی ہے جو انسانی بلاغت فصاحت سے بالکل ممتاز اور الگ ہے کیونکہ انسانی بلاغت فصاحت کا میدان نہایت تنگ ہے اور جب تک کسی کلام میں مبالغہ یا جھوٹ یا غیر ضروری باتیں نہ ملائی جائیں تب تک کوئی انسان بلاغت فصاحت کے اعلیٰ درجہ پر قادر نہیں ہو سکتا۔‘‘اللہ تعالیٰ کا کلام اس سے بالکل پاک ہے، کوئی ملونی نہیں۔’’دوسرے قرآن شریف کی ایک معجزانہ خوبی یہ ہے کہ جس قدر اس نے قصے بیان کئے ہیں درحقیقت وہ تمام پیشگوئیاں ہیں جن کی طرف جابجا اشارہ بھی کیا ہے۔…تیسرے قرآنِ شریف میں یہ معجزانہ خوبی ہے کہ اس کی تعلیم انسانی فطرت کو اس کے کمال تک پہنچانے کے لئے پورا پورا سامان اپنے اندر رکھتی ہے اور مرتبہ یقین حاصل کرنے کے لئے جن دلائل اور نشانوں کی انسان کو ضرورت ہے سب اس میں موجود ہیں۔چوتھے ایک بڑی خوبی اس میں یہ ہے کہ وہ کامل پیروی کرنے والے کو خدا سے ایسا نزدیک کر دیتا ہے کہ وہ مکالمہ الٰہیہ کا شرف پالیتا ہے اور کھلے کھلے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں اور تزکیہ نفس اور ایمانی استقامت اس کو حاصل ہوتی ہے اور قرآن شریف کا یہ نکتہ نہایت ہی یادداشت کے لائق ہے کہ مومن کامل پر جو فیضان آسمانی نشانوں کا ہوتا ہے۔ وہ تو ایک خدا کا فعل ہے۔اس کی وجہ سے کوئی اپنی خوبی قرار نہیں دے سکتا۔ مومن کامل کی اپنی ذاتی خوبی تقویٰ طہارت اور قوت ایمان اور استقامت ہے مثلاً جیسےاگر کسی دیوار پر آفتاب کی روشنی پڑے تو وہ روشنی اس دیوار کی خوبیوں میں داخل نہیں کیونکہ وہ اس سے الگ بھی ہو سکتی ہے بلکہ دیوار کی خوبی یہ ہے کہ اس کی بنیاد ایک مضبوط پتھر پر ہو اور ایسی پختہ اور ریختہ کی عمارت ہو کہ گو کیسے ہی سیلاب آویں اور تُند ہوائیں چلیں اور طوفان کی طرح مینہ برسیں اس دیوارمیں جنبش نہ آوے۔‘‘
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی عالمگیرتعلیم اورآنحضرتﷺکےہاتھ میں عنان حکومت دیے جانے کی کیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ’’عرب کے مشرکوں کی طرح اس ملک کے اہل کتاب بھی جرائم پیشہ ہوگئے تھے عیسائیوں نے تو کفارہ کے مسئلہ پر زور دے کر اور اس پر بھروسہ کر کے یہ سمجھ لیا تھا کہ ہم پر سب جرائم حلال ہیں اور یہودی کہتے تھے کہ ہم ارتکاب جرائم کی وجہ سے صرف چند روز دوزخ میں پڑیں گے اس سے زیادہ نہیں جیساکہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ۪ وَغَرَّہُمۡ فِیۡ دِیۡنِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ (آل عمران:۲۵)…یہ دلیری اورجرأت اِ س سے اُن کو پیدا ہوئی کہ ان کا یہ قول ہے کہ’’دوزخ کی آگ اگر ہمیں چھوئے گی بھی تو صرف چند روز تک رہے گی اور جو افترا پردازیاں وہ کرتے ہیں انہیں پر مغرور ہوکر اُن کے یہ خیالات ہیں۔ پس جب کہ اہلِ کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہوچکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے توخداتعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنانِ حکومت دے کر اُن کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اِس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسرکرتا تھا اور چونکہ اُن کے لئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا اِس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے۔ پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے …آنحضرتﷺ کو اس ملک کے لئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآنِ شریف کوایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی فوجداری مالی سب ہدایتیں ہیں۔سو آنحضرتﷺ بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے تھے۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کےذریعہ توحیدکےقیام اورشرک سےنجات کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں’’جو کچھ قرآن شریف نے توحید کا تخم بلاد عرب، فارس، مصر، شام، ہند، چین، افغانستان ،کشمیر وغیرہ بلاد میں بو دیا ہے اور اکثر بلاد سے بُت پرستی اور دیگر اقسام کی مخلوق پرستی کا تخم جڑھ سے اُکھاڑ دیا ہے یہ ایک ایسی کارروائی ہے کہ اس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں پائی جاتی۔‘‘یہ جو اسلام شروع میں پھیلا ہے اور ان ملکوں میں شرک ختم ہوا ہے تو یہ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی وجہ سے تھا اور اسی لیے ہمارے آباءو اجداد نے اسلام قبول کیا لیکن اگر ہم اس پر عمل نہیں کر رہے تو پھر ہم واپس اسی جہالت میں جا رہے ہیں۔…’’ہاں جس زمانہ میں انسانی تجربہ نے ترقی کی اور نیز نوع انسان کئی قسم کی غلطیوں میں پڑ گئی تب باریک تعلیم کی حاجت پڑی۔ بالخصوص جب گمراہی کی تاریکی دنیا میں پھیل گئی اور انسانی نفوس کئی قسم کی علمی اور عملی ضلالت میں مبتلا ہو گئے تب ایک اعلیٰ اور اکمل تعلیم کی حاجت پڑی اور وہ قرآن شریف ہے۔ لیکن ابتدائے زمانہ کی کتاب کے لئے اعلیٰ درجہ کی تعلیم کی ضرورت نہ تھی کیونکہ ابھی انسانی نفوس سادہ تھے اور ہنوز ان میں کوئی ظلمت اور ضلالت جاگزیں نہیں ہوئی تھی۔ ہاں اس کتاب کے لئے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت تھی جو انتہائی درجہ کی ضلالت کے وقت ظاہر ہوئی اور ان لوگوں کی اصلاح کے لئے آئی جن کے دلوں میں عقائد فاسدہ راسخ ہو چکے تھے اور اعمال قبیحہ ایک عادت کے حکم میں ہو گئے تھے۔‘‘
سوال نمبر۷:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت کودعاکےحوالہ سےکیاتحریک فرمائی؟
جواب:فرمایا: بنگلہ دیش میں آج کل جلسہ سالانہ ہو رہا ہے۔ آج ہی ان کا پہلا دن تھا لیکن وہاں مخالفین نے حملہ کیا۔ جلسہ گاہ پر بھی حملہ کیا۔ کئی لوگ وہاں زخمی بھی ہوئے۔ میرا خیال ہے باہر سے کچھ اس طرح انہوں نے حملہ کیا کہ کچھ زخمی ہوئے ہیں۔ بعض شدید زخمی بھی ہیں۔پھر کچھ لوگوں کےجو وہاں اس علاقے میں احمدی تھے ان کے گھروں کو بھی جلا رہے ہیں۔ ابھی تک کی جو خبر آئی ہے یہ اس کے مطابق ہے۔اور کتنا نقصان ہوا ہے ابھی پورا اندازہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کو ان کے شر سے بھی محفوظ رکھے اور ان کی پکڑ کے بھی سامان کرے۔اب تو اِن کے لیے کوئی ہدایت کی دعا نہیں ہو سکتی۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّقْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَسَحِّقْہُمْ تَسْحِیْقًاوالی دعا ہی ہے جو ان کے لیے ہمارے منہ سے نکلتی ہے،دل سے نکلتی ہے۔اسی طرح پاکستان کے حالات کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں بھی احمدیوں کے حالات ٹھیک رکھے۔برکینافاسو میں بھی خطرات ابھی منڈلا رہے ہیں وہاں کے لیے دعا کریں۔اسی طرح الجزائر میں بھی احمدیوں پہ بعض مقدمات ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ہر جگہ احمدیوں کو محفوظ رکھے۔ بنگلہ دیش میں جیسا کہ میں نے کہا انتظامیہ نے ہمیں یہی کہا تھا کہ فکر نہ کرو۔ جلسہ کرو اور ہم پوری حفاظت کریں گے لیکن جب بلوائی اور دہشت گرد، شدت پسند ملاں اپنے ٹولوں کو لے کے آئے ہیں تو پولیس وہاں تماشائی بن کے بیٹھی ہوئی ہے اور کوئی اقدام نہیں کر رہی۔ بہرحال ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکناچاہیے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کی مشکلات کو جلد دُور فرمائے۔