نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۲۷؍ اکتوبر۲۰۱۷ء)
اللہ تعالیٰ مومنوں کو فرماتا ہے کہ تمہارا مطمح نظر ہمیشہ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (البقرۃ: 149) ہونا چاہئے یعنی تم نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اور پھر نیکیاں بجا لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرماتا ہے کہاِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ (البیّنۃ: 8) یعنی یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے یہی ہیں جو بہترین مخلوق ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے مختصراً ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’انسان کو چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرے اور اعمال صالحہ میں ترقی کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد 10صفحہ 15۔ ایڈیشن 1984ء)
اس آیت کے حوالے سے آپ نے فرمایا۔ پس اعمال صالحہ میں ترقی کرنا، نیک کام کرنا، نیکیاں بجا لانا ہی ایک مسلمان کو، ایک مومن کو حقیقی مومن بناتا ہے اور اس کے لئے ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے۔ ہماری رہنمائی کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑی وضاحت سے اس بارے میں ارشادات فرمائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ نیکی کیا چیز ہے؟ حقیقی نیکی کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے؟ نیکی بجا لانے کے لئے خدا تعالیٰ پر ایمان کیوں ضروری ہے؟ ایمان کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس ایمان کے معیار کو ہمیں کس طرح بڑھانا چاہئے؟ کن ذریعوں سے نیکی کی جاتی ہے؟ نیکی کے کون کون سے مختلف پہلو ہیں؟ کتنی قسم کی نیکیاں ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والے کو کس طرح نوازتا ہے؟ پھر یہ بھی آپ نے بیان فرمایا کہ جائز چیزوں کا بھی اعتدال کی حد تک کرنا نیکی ہے۔ اگر اس سے زیادہ کرو تو پھر نیکی میں کمی کر دیتا ہے۔ یہ بھی کہ ایک مومن کو اپنی نیکی کے دائرے کو کس قدر وسیع کرنا چاہئے؟ غرض کہ آپ نے نیکیوں کی حکمت، اس کی حقیقت اور اس کی روح کے مضمون کو مختلف موقعوں پر مختلف زاویوں سے کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اس وقت مَیں اس بارے میں آپؑ کے چند اقتباسات پیش کروں گا۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ نیکی کیا چیز ہے اور یہ بھی کہ بظاہر ایک چھوٹی سی نیکی اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بنا دیتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’نیکی ایک زینہ ہے اسلام اور خدا کی طرف چڑھنے کا۔‘‘ (اسلام کی حقیقت معلوم کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ اس کا قرب حاصل کرنا ہے تو نیکیاں اس کے لئے ایک زینہ ہیں۔) ’’لیکن یاد رکھو کہ نیکی کیا چیز ہے‘‘ فرمایا کہ’’شیطان ہر ایک راہ میں لوگوں کی راہ زنی کرتا ہے۔ اور ان کو راہ حق سے بہکاتا ہے۔ مثلاً رات کو روٹی زیادہ پک گئی‘‘۔ (امیر آدمی ہے یا کسی کے گھر میں رات کو کھانا زیادہ پک گیا۔ روٹی زیادہ پک گئی۔) ’’صبح کو باسی بچ رہی۔‘‘ (کھائی نہیں گئی۔ رات کو بچ گئی اور اگلے دن) فرمایا کہ ’’عین کھانے کے وقت کہ اس کے سامنے اچھے اچھے کھانے رکھے ہیں ابھی ایک لقمہ نہیں لیا کہ دروازے پر آ کر فقیر نے صدا کی اور روٹی مانگی‘‘ (تو اس کھانے والے نے) ’’کہا کہ باسی روٹی سائل کو دے دو۔‘‘ (کَل کی جو بچی ہوئی روٹی تھی وہ دے دو۔ حالانکہ اپنے سامنے تازہ کھانا پکا ہوا ہے۔) فرمایا کہ ’’کیا یہ نیکی ہو گی؟ باسی روٹی تو پڑی ہی رہنی تھی۔ تنعّم پسند اسے کیوں کھانے لگے؟‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِـیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر:9)‘‘ (فرمایا کہ) ’’یہ بھی معلوم رہے کہ طعام کہتے ہی پسندیدہ طعام کو ہیں۔ (یعنی اچھا طعام اس کو کہا جاتا ہے جو پسندیدہ کھانا ہو۔) ’’سڑا ہوا باسی طعام نہیں کہلاتا‘‘۔ (ایک دن کا پرانا کھانا ہے جس کو خود پسندنہیں کرتے وہ کھانا عربی میں طعام نہیں کہلاتا۔ فرمایا کہ ’’الغرض اس رکابی میں سے جس میں ابھی تازہ کھانا اور لذیذ اور پسندیدہ رکھا ہوا ہے۔‘‘ (پلیٹ میں کھا رہے ہو۔ تمہارے سامنے پڑا ہے رکھا ہوا ہے۔ )’’کھانا شروع نہیں کیا۔ فقیر کی صدا پر نکال دے تو یہ تو نیکی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 75۔ ایڈیشن 1984ء)
ابھی تازہ کھانا سامنے پڑا ہے اور اگر کوئی مانگنے والا آتا ہے، غریب آدمی آتا ہے اور وہ اس کو دے دیتے ہو تو یہ نیکی ہے۔ نہ یہ کہ اچھا میں تو تازہ کھانا کھاتا ہوں اور گھر والوں کو کہہ دیا کہ کل کا جو بچا ہوا کھانا تھا وہ تم اس کو دے دو۔ تو اس حد تک گہرائی میں انسان جائے تو تبھی وہ حقیقی نیکی کو پا سکتا ہے۔ پس حقیقی نیکی کرنے کی کوشش ہونی چاہئے اور یہ نیکی کس طرح پیدا ہوتی ہے۔ یہ نیکی خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ’’حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان ہو کیونکہ مجازی حُکّام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پسِ پردہ کسی کا کیا فعل ہے‘‘۔ (اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان ہو اور ایمان یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ہر چیز پر نظر ہے۔ بظاہر جو حُکّام ہیں، بظاہر جو حکومت ہے، ادارے ہیں ان کو تو انسان کے اندر کا نہیں پتا کہ کیا چیز ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو پتا ہے اور یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پتا ہے۔ ہر چیز کا علم ہے۔ وہ غیب کا علم رکھتا ہے۔) فرمایا ’’اور اگرچہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے مگر اپنے دل کے اندر وہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لئے اس کو ہمارے مؤاخذہ کا خوف نہیں اور دنیا کی حکومتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات میں اور دن میں، اندھیرے میں اور اُجالے میں، خَلوت میں اور جَلوت میں، ویرانے میں اور آبادی میں، گھر میں اور بازار میں ہر حالت میں یکساں ہو۔‘‘ (بعض دفعہ انسان چُھپ کے کام کر رہا ہوتا ہے۔ مختلف جگہوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ مختلف حالتوں میں ہے اور اس کو پتا ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے بظاہر کوئی اس کو دیکھ نہیں رہا۔ اس کو ہر چیز کا پتا ہے اس لئے خوف بھی نہیں ہے اور اس خوف نہ ہونے کی وجہ سے وہ غلط کام کر جاتا ہے۔ اس لئے اگر حقیقی نیکی کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ پر ایمان بڑا ضروری ہے) فرمایا ’’پس درستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا ہونا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کے نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اس کے سینہ کے بھیدوں کی شاہد ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ 313۔ ایڈیشن 1984ء) اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں۔ پس یہ ایمان اگر ہو، اس معیار کا ایمان ہو، ہر وقت اللہ تعالیٰ یاد رہے تو تبھی انسان حقیقی نیکی کر سکتا ہے۔
پھر حقیقی نیکی کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ‘‘تقویٰ کے معنی ہیں بدی کی باریک راہوں سے پرہیز کرنا۔ مگر یاد رکھو نیکی اتنی نہیں ہے کہ ایک شخص کہے کہ مَیں نیک ہوں اس لئے کہ مَیں نے کسی کا مال نہیں لیا’’۔ چوری نہیں کی۔ غصب نہیں کیا۔ غلط طریقے سے کمائی نہیں کی۔ تو یہ کوئی نیکی نہیں ہے۔) فرمایا کہ ‘‘نقب زنی نہیں کی’’ (اگر کوئی کہتا ہے) ‘‘چوری نہیں کرتا۔ بدنظری اور زنا نہیں کرتا ایسی نیکی عارف کے نزدیک ہنسی کے قابل ہے کیونکہ اگر وہ ان بدیوں کا ارتکاب کرے اور چوری یا ڈاکہ زنی کرے تو وہ سزا پائے گا۔ پس یہ کوئی نیکی نہیں کہ جو عارف کی نگاہ میں قابلِ قدر ہو بلکہ اصلی اور حقیقی نیکی یہ ہے کہ نوع انسان کی خدمت کرے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں کامل صدق اور وفاداری دکھلائے اور اس کی راہ میں جان تک دے دینے کو تیار ہو… ‘‘(ملفوظات جلد 6صفحہ 241-242۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)