احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
تاریخ وتحقیق کی ایک روشن کرن
اس باب کااصل موضوع اور مقصدتویہ تھا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی سوانح کاایک روشن ترین باب اور زرّیں عہداب شروع ہونے والاتھا۔ وہ عہد کہ جس کے افق پرمکالمہ ومخاطبہ کاسورج طلوع ہونے والاتھا۔اوراسی کاہی مختصرساذکراس باب میں مقصودتھا۔ البتہ اس سارے باب کوپڑھتے ہوئے ایک تحقیق وجستجورکھنے والے دل ودماغ کوایک نئی روشنی ملتی ہے۔ ایسی روشنی کہ جوحضرت اقدس علیہ السلام کی حیاتِ مطہرہ کی کئی کڑیوں کوزیادہ روشن اور واضح کرنے کاباعث بنتی ہے کہ جوخاکسارکی رائے میں تاریخ کے اس باب میں قدرے دھندلی سی نظرآتی تھیں۔ اور وہ یہ کہ اگر شرف مکالمہ ومخاطبہ کے اس باب کے راستہ سے منزل بہ منزل عہدرفتہ کی طرف تاریخ کاسفرشروع کیاجائے تو حضرت اقدس علیہ السلام کے والدماجدکی تاریخ وفات ۱۸۷۶ء کی بجائے یکم جون بروزہفتہ ۱۸۷۲ء نظرآتی ہے۔شرف مکالمہ ومخاطبہ سے آپؑ چالیس سال کی عمرمیں مشرف ہوئے اور اس کاسنہ ۱۸۷۲ء یا۱۸۷۳ء متعین ہوتاہے۔اور اس میں سے چالیس منفی کریں تو ۱۸۳۲ء یا۱۸۳۳ء بنتاہے جوکہ آپؑ کی تاریخ پیدائش ہونی چاہیے۔
یہ سب اموراسی ایک باب سے مستنبط ہوتے نظرآتے ہیں جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی متعدد تحریرات میں اسی مکالمہ ومخاطبہ اور خدائی وحی کو اپنی صداقت کے نشان اور دلیل کے طورپراس طرح پیش کیاہے کہ اتنے عرصہ سے مجھے اس کادعویٰ ہے یامیرا کہناہے کہ میراخدامجھ سے کلام کرتاہے۔اور اتنالمباعرصہ اس دعویٰ پرگزرگیا توکیاکسی کاذب کواتنی لمبی مہلت مل سکتی ہے ؟ حضورعلیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں دیکھاجائے تو یہ مدت ۱۸۷۲ء/۱۸۷۳ءبنتی ہے۔کیونکہ
۱۔ اپنی تصنیف سراج منیر میں آپؑ فرماتے ہیں : ’’ کیاکسی کویادہے کہ کاذب اورمفتری کوافتراؤں کے دن سے پچیس ۲۵ برس تک مہلت دی گئی جیسا کہ اس بندہ کو…‘‘(سراج منیر،روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۴) اب سراج منیرمئی ۱۸۹۷ء کی تصنیف ہے۔ ۲۵برس پہلے ۱۸۷۲ء کاسنہ بنتاہے۔
۲۔ ایک دوسری جگہ آپؑ اپنے والدماجدکی وفات کے بعد مکالمہ مخاطبہ بڑے زورشورسے ہونے کابیان فرماتے ہیں : ’’ایک طرف ان کا دنیا سے اٹھایا جانا تھا اور ایک طرف بڑے زور شور سے سلسلہ مکالمات الٰہیہ کا مجھ سے شروع ہوا۔‘‘(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ ۱۹۵حاشیہ)
۳۔ حقیقۃ الوحی میں جواقتباس ابھی گزراہے جس میں آپؑ ۱۲۹۰ھ میں مکالمہ ومخاطبہ سے مشرف ہونابیان فرماتے ہیں جوکہ ۱۸۷۳ء سن عیسوی بنتاہے۔ اور اس وحی والہام کوسات برس کے بعد براہین احمدیہ میں شائع کرنے کاذکرفرماتے ہیں جوکہ ۱۸۸۰ء کاسن بنتاہے۔
۴۔ اور اس میں سے چالیس منفی کریں تو ۱۸۳۳ء بنتاہے چنانچہ وہی آپ کی تاریخ پیدائش کاسنہ معلوم ہوتاہے۔اورخاکسارکی رائے میں آپؑ چاندکی چودہ تاریخ کوپھاگن کے مہینہ میں جمعہ کے روز ۱۷؍فروری ۱۸۳۳ء کوپیداہوئے۔واللہ اعلم بالصواب
سب سے پہلا الہام
اس باب میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکالمات ومخاطبات کی تفصیلات کاذکرہورہاہے تو مناسب معلوم ہوتاہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے پہلے شائع شدہ الہام کی بابت بھی کچھ بیان کردیاجائے۔ ان تفصیلات میں جانے سے قبل ایک وضاحت یہ بھی ضروری ہے کہ جوبھی پہلاالہام ہو اس کایہ مطلب ہرگزنہیں ہوسکتا کہ اس سے پہلے کبھی آپؑ کوالہام گویاہواہی نہیں تھا۔ نہ جانے حضرت اقدسؑ سے خدائے رحیم و کریم کے کلام والہام کاسلسلہ کب سے شروع ہواہوگا۔اس لیے اس سے بحث نہیں کہ پہلاالہام کب ہواہوگا۔ ہم صرف اس وقت اس تفصیل میں جارہے ہیں کہ حضرت اقدسؑ کی طرف سے بتایاجانے والا یاشائع کیاجانے والاپہلاالہام کون ساہے۔
تاریخ وسیرت کی مختلف کتب میں حضرت اقدسؑ کے پہلے الہام کی بابت بیان ہوتاہے۔کہیں وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِ کوپہلاالہام لکھاگیااور کہیں بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور کہیں ثَمَانِیْنَ حَوْلًا کوپہلاالہام بیان کیاگیا۔
’’حیات طیبہ‘‘مؤلفہ شیخ عبد القادر صاحب مرحوم صفحہ۳۰ پر ’’موجودہ تحقیق کی رُو سے سب سے پہلا الہام‘‘ کے عنوان سے۱۸۶۸ء میں ہونے والے اس الہام کو سب سے پہلا الہام قرار دے رہے ہیں۔’’خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘۔یہ الہام براہین احمدیہ کے حوالہ سے درج کیا گیا ہے۔
جبکہ براہین احمدیہ میں کچھ اور بھی الہامات مذکورہیں۔ بلکہ یہ کہنا بھی درست ہو گاکہ حضرت اقدسؑ نے سب سے پہلے جس کتاب میں اپنے الہامات درج فرمائے وہ براہین احمدیہ ہی ہے۔
براہین احمدیہ میں ہی صفحہ نمبر ۶۵۹ پر ایک ا ور الہام کا بھی ذکر ہے۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:’’…اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہواکہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہو گیا۔ اور وہ یہ تھا ڈگری ہو گئی ہے مسلمان ہے۔‘‘ یہی الہام نزول المسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵۲۱ پر ۱۸۶۸ء کے سنہ کے ساتھ تحریر فرمایا ہے۔
نزول المسیح جلد ۱۸ صفحہ ۵۲۱ پرہی ۱۸۶۸ءکے ایک ا ور الہام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’عین سجدہ کے وقت میں مجھے الہام ہوا لا تخف انک انت الاعلٰی‘‘۔یہی الہام براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۵۸ پر بھی موجود ہے۔ ایک حساب سے یہ الہام ۱۸۶۷ء کا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ۱۸۷۹ء میں براہین احمدیہ میں اس کو درج کرتے ہوئے فرمایا:’’عرصہ تخمیناً بارہ برس کا ہوا ہے…‘‘(روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۲۷۷)۔ ۱۸۷۹ء میں سے ۱۲ سال منہا کریں تو یہ ۱۸۶۷ءکا الہام ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور الہام ’’و اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض‘‘ کی بابت ۴؍اگست ۱۹۰۲ء میں فرمایا’’تیس برس سے زیادہ عرصہ ہوا… مجھے الہام ہوا۔‘‘ (تذکرة صفحہ ۱۱)۔ اس حساب سے یہ الہام ۱۸۷۲ء سے بھی کئی سال پہلے کا الہام ہو سکتا ہے۔
اسی طرح حضور علیہ السلام اپنی تصنیف ’’ تریاق القلوب‘‘ میں اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بابت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’اور اسی بارہ میں ایک الہام بھی تھا جس کے الفاظ مجھے یاد نہیں رہے۔ غرض اس خواب ا ور الہام کے مطابق جو میری دعا کے قبول ہونے پر دلالت کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا بخشی اور اس کے بعد ۱۵ برس تک پوری تندرستی کے ساتھ وہ زندہ رہےاور پھر قضائے الٰہی سے فوت ہو گئے۔ میں نے اس الہام اور اس خواب کو بہت سے لوگوں کے پاس بیان کیا تھا۔‘(تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۲۱۱)حضرت مرزا غلام قادر صاحب کی تاریخ وفات ۹ جولائی ۱۸۸۳ء ہے۔ اس حساب سے یہ الہام بھی ۱۸۶۸ء کا بنتا ہے۔
روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۶۶ اور صفحہ ۴۱۹پر حضور علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’ثَمَانِیْنَ حَوْلًا اَوْ قَرِیْبًا مِنْ ذالک او تزید علیہ سنینًاو تریٰ نسلًا بعیدًا۔ یعنی تیری عمر ۸۰ برس کی ہو گی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ۔ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔‘‘
اوراس کے ساتھ آپؑ تحریرفرماتے ہیں :’’یہ الہام قریباً پینتیس برس سے ہو چکا ہے۔‘‘حضور علیہ السلام کی یہ تصنیف۱۹۰۰ء کی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۱۸۶۵ء کا الہام ہو گا۔
الہامات کے سنہ ا ور تاریخوں کو معیّن کرنے کے لیے کوئی طالب علم جب حضور علیہ السلام کی تحریرات کو دیکھتا ہے تو اس کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان تحریرات میں سنہ اور سال ایک موٹے اندازے کے طور پر لکھے گئے ہیں اور جب تک کوئی ایسا قوی قرینہ موجود نہ ہو تب تک کسی سنہ یا سال یا تاریخ کو معین کرنا ایک مشکل امر ہو سکتا ہے۔ سنہ ا ور تاریخ کی تعیین کے لیے ایک پہلو یہ بھی پیش نظر رکھا جا سکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلی دفعہ باقاعدہ طور پر الہامات براہین احمدیہ میں شائع فرمائے ہیں۔ اور براہین احمدیہ کے بارے میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ ۱۸۷۹ء میں طباعت کے لیے پریس میں جا چکی تھی۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کا ایک حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا اور دوسرا ۱۸۸۲ء میں لیکن یہ تاخیر طباعت پریس کی طرف سے تھی نہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مسودہ کی تحریر کی وجہ سے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بعض جگہ ان امور کو بیان بھی فرما دیا ہے۔ مثلاًضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں براہین احمدیہ کے کچھ الہامات درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:’’اس قدر الہام تو ہم نے بطور نمونہ کے براہین احمدیہ میں سے لکھے ہیں۔ لیکن اس اکیس برس کے عرصہ میں براہین احمدیہ سے لے کر آج تک…‘‘(روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۶۶)ضمیمہ تحفہ گولڑویہ جولائی ۱۹۰۰ء کی تصنیف ہے اور اس میں سے ۲۱ سال منہا کیے جائیں تو ۱۸۷۹ء بنتا ہے جو کہ براہین احمدیہ کے مسودہ کی تصنیف اور پریس میں بغرض طباعت بھیجنے کی اصل تاریخ ہے۔
اسی طرح اگر کسی الہام کے سنہ اور تاریخ کی بابت تحقیق کرنا مقصود ہو اور وہ الہام براہین احمدیہ میں موجود ہو تو نہ صرف یہ کہ ہماری نظر ۱۸۷۹ ءکے اوپر مرکوز رہنی چاہیے بلکہ اس سے چند سال پہلے کی طرف بھی دھیان رہنا چاہیے۔ یعنی اگر کوئی الہام براہین احمدیہ میں موجود ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ۱۸۷۹ءکا ہی ہو بلکہ وہ اس سے کئی سال پہلے کا بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ حضورؑ اسی کتاب ضمیمہ تحفہ گولڑویہ میں فرماتے ہیں:’’اول میں براہین ا حمدیہ کے وہ مکالمات الٰہیہ لکھتا ہوں جو ۲۱ برس سے براہین احمدیہ میں چھپ کر شائع ہوئے اور ۷، ۸ برس پہلے زبانی طور پر شائع ہوتے رہے۔‘‘(روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحہ ۵۸)
اس مختصرسی بحث اور چندایک حوالہ جات کے پیش نظر یہ کہاجاسکتاہے کہ سب سے پہلا شائع شدہ الہام ۱۸۶۵ء میں ہونے والا الہام ہے : ’’ثَمَانِیْنَ حَولًا او قریبًا من ذالک او تزید علیہ سنینًاو تریٰ نسلًا بعیدًا۔ یعنی تیری عمر ۸۰ برس کی ہو گی یا دو چار کم یا چند سال زیادہ۔ اور تو اس قدر عمر پائے گا کہ ایک دُور کی نسل کو دیکھ لے گا۔ ‘‘
اور اس کے بعد پانچ الہامات وہ ہیں جو ۱۸۶۸ء کے قرار دیے جا سکتے ہیں اور ان میں سے بھی ایک الہام : لا تخف انک انت الاعلٰی ۱۸۶۷ء کا بھی ہو سکتا ہے، جبکہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ کا الہام براہین احمدیہ میں درج بیان کے مطابق ۱۸۶۹ء کا بھی ہو سکتا ہے۔کیونکہ حضور علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ’’۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا…‘‘(روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۲۱) واللہ اعلم بالصواب