بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے
اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ِظن سے پیدا ہوتا ہے ۔پس فرمایا کہ بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی گناہ کی طرف لے جاتی ہے، جو نہ صرف انسان کی اپنی ذات کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جو معاشرے کے امن کو بھی برباد کردیتا ہے۔ دلوں میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پس خداتعالیٰ نے اسے بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ایک ایسا گناہ جو انسان بعض اوقات اپنی اَنا کی تسکین کے لئے کررہا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ تجسس نہ کرو، تجسس بھی بعض اوقات بدظنی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور جب انسان کسی کے بارہ میں تجسس کررہا ہوتا ہے اس کے بعد بھی جب پوری معلومات نہیں ملتیں تو جو معلومات ملتی ہیں انہی کو بنیاد بنا کر پھر بدظنّیاں اَور بڑھ جاتی ہیں اور بدظنی میں بعض اوقات انسان اتنا اندھا ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی ہیں، خدمت کرنے والے بھی ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جاہل اجڈ عورتیں بھی نہیں کرتی ہوں گی۔ چھوٹے چھوٹے شکووں کو اتنا زیادہ اپنے اوپر سوار کر لیا جاتا ہے۔ بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری زندگی میں اس سے بڑی بات ہی کوئی نہیں ہے۔ اور اس سے نہ صرف اپنے کاموں میں حرج کر رہے ہوتے ہیں ۔ایسی سوچوں کے ساتھ اپنی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں بلکہ اِدھر اُدھر باتیں کرکے جس کے خلاف شکوہ ہوتا ہے اس کی زندگی بھی اجیرن کررہے ہوتے ہیں۔ اور بعض دفعہ ایسے معاملات میرے پاس بھی آجاتے ہیں اور جب تحقیق کرو تو کچھ بھی نہیں نکلتا۔ بڑی معمولی سی بات ہوتی ہے۔ پھر بعض معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا شکایت کرنے والے کے ساتھ براہ راست معاملہ بھی نہیں ہوتا۔ ادھر سے بات سنی ادھر سے بات سنی، تجسس والی طبیعت ہے شوق پیدا ہوا کہ مزید معلومات لو اور ادھ پچدی جو معلومات ملتی ہیں ان کو پھر فوراً اپنے پاس سے حاشیہ آرائی کرکے اُچھالا جاتا ہے۔ تو جب کسی کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں اور انہیں اچھالا جاتا ہے تو اس شخص بیچارے کی زندگی اجیرن ہوئی ہوتی ہے کیونکہ اس ماحول میں اس کو دیکھنے والا ہر شخص ایسی نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے وہ بہت بڑا گناہگار انسان ہے۔ وہ چھپتا پھرتا ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک ایسا گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ ہر احمدی کو اس سے بچنا چاہئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۵؍ فروری ۲۰۱۰ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍فروری ۲۰۱۰ء)