میرا سفر قادیان دارالامان
وہ دن میرے لیے انتہائی پُر مسرّت تھا جب مجھے معلوم ہوا کہ میں اس قافلہ میں شامل ہوں جوحضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بستی قادیان دار الامان جارہا ہے۔یہ بابرکت سفر خالصۃً دینی اغراض کے لیے تھا۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں کہ امام مہدی کو ضرور میرا سلام پہنچانا خواہ تمہیں برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے،خاکسارنےحضرت مسیح موعودؑ کے مزار پر حاضر ہو کر عالم تصورمیں آنحضورﷺ کا سلام پہنچایا۔
ہم دس مربیان تھے جنہوں نے اس قافلہ میںجانا تھا۔کچھ ایام جماعت احمدیہ گھانا کے مرکزیعنی اکرا میں رہے اور سفر کی تیاری کی۔بعد ازاں امیر صاحب گھانا کو الوداع کہہ کر۱۵؍فروری ۲۰۲۳ء کو گھانا سے روانہ ہوئے۔ ہم نے Ethiopian airline پر سفرکیاجو سوا پانچ گھنٹے کا تھا۔ پہلے Addis Ababa میں رک گئے اور وہاں سے پھر انڈیا کے دار لحکومت دہلی پہنچے۔ یہاں پہنچتے ہی ہندوستان کے بعض عہدیداران نے ہمارا استقبال کیا۔ ہم نے دہلی کے مشن ہاؤس میں رات گزاری اور اگلے دن وہاں سے ریل گاڑی پر امرتسر روانہ ہوئے۔ یہ چھ گھنٹے کا سفر تھا۔ خاکسار کے لیے انڈیا میں ریل گاڑی کے سفر کایہ پہلا تجربہ تھا۔ سو میں نے کوشش کی کہ کھڑکی کے ساتھ ہی بیٹھ سکوں، میری خواہش پوری ہوئی اور دوران سفرکھڑکی سے باہر کے نظارے کرتارہا۔ میں نے گندم کی فصلیں دیکھیں جو بہت ہی دلکش منظر تھا۔ گو یہ ایک دینی سفر تھا مگر اس میں مختلف مقامات کو exploreکرنےکا بھی موقع ملا۔
آخر کار ہم امرتسر پہنچے جہاں قادیان کے کچھ احباب ہمارے منتظر تھے۔امرتسر سے بذریعہ بس قادیان جاتے ہوئے تقریباًدو گھنٹے لگے۔راستے میں بٹالہ کی ایک sign post نظر آئی جس سے جماعت احمدیہ کے ایک شدید مخالف محمد حسین بٹالوی کی یاد آئی۔راستے میں گنے کا رس بھی پینے کا موقع ملا جوکہ بہت تازہ اور میٹھا تھا۔
قادیان پہنچے تو منارۃ المسیح اور وہاں کی عمارتیں دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا اور یہ ترانہ بے ساختہ دل سے نکلنا شروع ہو گیا کہ ؎
اے قادیاں دارالاماں، اونچا رہے تیرا نشاں
اللہ کی حمد کرتے ہوئے ہم بس سے اترے۔ یہ دوپہر کا وقت تھا۔ ہماری رہائش مہمان خانے میں تھی۔قادیان میں قیام کے دوران ہم لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ سے کھانا کھاتے رہے۔
ہمیں ان جگہوں پر نماز ادا کرنے کی توفیق ملی جہاں حضرت اقدسؑ نماز یں ادا فرماتے تھے۔خاکساربرکات سمیٹنے کی خاطر رات اٹھ کر مقامات مقدسہ جاکر نماز تہجد ادا کرتا جس میں بیت الدعا، بیت الفکر، بیت الریاضۃ اور سرخ چھینٹوں کے نشان والا کمرہ شامل ہیں۔ ایک ماہ کے قیام کے دوران میرا یہی معمول رہا۔
قادیان آنے سے پہلے میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ قادیان کے مقدس مقامات سے بھر پور فائدہ حاصل کرنے کے لیے کثرت سے درود شریف کا ورد کرنا چاہیے۔ میں نے اس نصیحت کو پلےباندھ لیا اور روزانہ اپنے لیے درود شریف پڑھنے کی ایک معین مقدار مقرر کر لی۔چنانچہ اللہ کے فضل سے قادیان کے قیام کے دوران کئی ہزار مرتبہ درود شریف پڑھا۔
بہشتی مقبرہ میں بھی اکثر درود شریف پڑھتا رہا۔جب میری نظر حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر پڑی تومیں جذبات سے مغلوب ہوگیا۔ بعض صحابہ کرامؓ اور دیگر بزرگان سلسلہ کے مزارات دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ہمارے گھانا کے سابق امیر مولانا عبد الوہاب بن آدم صاحب نیزگھانا سے تعلق رکھنے والے بعض دیگر بزرگان کے یادگار کتبے بھی یہاں دیکھے۔ بہشتی مقبرہ میں وقت گزارتے ہوئے انسان کو اتنا سکون ملتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔بہشتی مقبرہ کے اندرہی وہ جگہ بھی ہے جہاںحضرت مسیح موعودؑ بسا اوقات کچھ دیر کے لیے آرام فرماتے، یعنی شاہ نشین، وہ بھی دیکھنے کا موقع ملا۔
یہاں خاکسار اپنے ایک دلچسپ مشاہدے کا بھی تذکرہ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس سے قبل ایک تاریخی واقعہ بیان کرتا ہے کہ ایک دفعہ بچپن میں حضرت مصلح موعودؓ نے ایک طوطا شکار کیا۔اس پر حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ہر پرندہ کھانے کے لیے نہیں ہوتا، بعض خوبصورتی کے لیے بھی ہوتے ہیں۔
خاکسار نے قادیان کے ماحول میں خوبصورت طوطے بھی دیکھے۔ ان کو دیکھ کر حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ مبارکہ میں پیش آنے والا یہ واقعہ یاد آجاتا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ ایک باؤلے کتےنے عبد الکریم نامی شخص کو کاٹا اور ڈاکٹرز کہنے لگے کہ ’N’Nothing can be done for Abdul Karim‘m‘۔ قادیان جاکر حضرت عبد الکریم صاحبؓ کا وہ واقعہ یاد آگیا۔
ہمیں ہوشیارپور اور لدھیانہ کی زیارت کا موقع بھی ملا۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ میں بھی نماز پڑھنے کا موقع ملا خاص طور پر جہاں حضرت مسیح موعودؑ نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا تھا۔اس مقدس مسجد میں داخل ہوتے وقت میں بار بار راستہ بھول جاتا۔کیونکہ مسجد کے کافی زیادہ دروازےہیں تو بعض دفعہ اپنے خیال میں اوپر والی منزل میں جاتا لیکن معلوم ہوتا کہ میں نیچے والی منزل میں چلا گیاہوں۔ اتنی بڑی مسجد دیکھ کر حیران بھی ہوا۔
مسجد اقصیٰ کے صحن میں منارۃ المسیح واقع ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کے والد صاحب کی قبر کا تعویز بھی۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعض پڑ وسی ہندو اور سکھ تھے۔ قادیان جاکر راستوں، گلیوں اور بازاروں میں اب بھی کثرت سے ہندو اور سکھ ملتے ہیں۔ حتی کہ بعض اوقات نماز پڑھتے ہوئے ان کے مندروں اور گردواروں سے آوازیں سنائی دیتی تھیں۔لیکن مذہبی رواداری کا یہ ماحول مجھے اچھا لگا۔
بازار میں جاکر ہندوؤں سے ملاقات ہوتی رہتی تھی، اور جب انہیں پتا لگتا کہ میں احمدی ہوں اور اردو بھی بولتا ہوں تو وہ بہت خوش ہوتے اور جو بھی مجھے خریدنا ہوتا اس کی قیمت کم کردیتے۔ بعض دکانداروں نے مجھے کہا کہ احمدی فراخ دل ہیں۔ میں بسا اوقات بھول جاتا کہ میں کسی ہندو کے ساتھ بات کر رہا ہوں اور دوران گفتگو اسلامی اصطلاحات استعمال کرنے لگتا۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو میں نے جزاکم اللہ کہا یہ سن کر وہ مسکرا یا اور کہا: بڑھیا۔
قادیان میں بعض بزرگان سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے ہمارے ساتھ اپنے تجربات share کیے اور مختلف نصائح کیں۔مثلاًایک بزرگ کی یہ نصیحت مجھے بہت اچھی لگی کہ اگر کسی کی تربیت کرنی ہے تو ان تین چیزوں کومد نظررکھنا چاہے: محبت، استقامت یا مستقل مزاجی اور دعا۔ ہمیں واحد حیات درویش مکرم طیب علی صاحب سے ملنے کا موقع بھی ملا۔اللہ تعالیٰ ان کی عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے۔قادیان میں جامعہ احمدیہ کے طلبہ کے ساتھ ہماری ایک نشست بھی منعقد ہوئی۔
قادیان سے تمام تر روحانی برکات سمیٹتے ہوئے ہم بالآخر ۱۶؍مارچ ۲۰۳۳ء کو روانہ ہوئے اور بخیر و عافیت اپنے گھروں میں واپس پہنچ گئے۔ الحمد اللہ علیٰ ذالک۔