ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (معدہ کے متعلق نمبر۷) (قسط ۵۰)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
کالچیکم
Colchicum
(Meadow saffron)
اس کے نمایاں اثرات میں شدید قسم کا گاؤٹ اور گاؤٹ کے دردوں کا جگہ بدلنا، کھانے کی بو سے سخت متلی اور انتڑیوں کا شدید تشنج ملتے ہیں۔ اس کے مریض کو سخت بدبودار اسہال بھی لگ جاتے ہیں۔ (صفحہ 319)
معدے کی تکلیفوں میں اکثر زبان جلتی ہے۔ دانتوں میں بھی درد ہوتا ہے۔ منہ خشک اور پیاس بہت لگتی ہے۔ کھانے کی بو سے خصوصاً مچھلی پکنے کی بو سے بعض دفعہ متلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔یا تو معدے میں سخت گرمی محسوس ہوتی ہے یا سخت سردی۔ (صفحہ319-320)
انتڑیوں کے تشنج کی وجہ سے پیٹ ہوا سے ایسا تن جاتا ہے کہ کم ہی ایسا تناؤ دوسری دواؤں میں دکھائی دے گا۔ یہ انتڑیوں کا تشنج اور اس کے نتیجہ میں ہوا کا بڑھتا ہوا دباؤ عرف عام میں اپھارا کہلاتا ہے۔ اس قسم کا اپھارا مویشیوں میں بھی ملتا ہے (اگر وہ ایسا چارہ استعمال کریں جس میں ہائیڈروسائینک ایسڈ (Hydrocyanic acid)پیدا ہوچکا ہو )اس قسم کے اپھارے میں خواہ گائے، بھینس، بھیڑ بکری، گھوڑاکو ہو، اس سے ملتا جلتا اپھارہ انسانوں میں بھی ملے تو کالچیکم کی چند گولیاں جادو کا اثردکھاتی ہیں۔ (صفحہ320)
کولو سنتھس
Colocynthis
کولو سنتھس روز مرہ کی اچانک پیدا ہونی والی بیماریوں مثلاً سخت پیٹ میں درد وغیرہ میں بہت مفید ہے۔ پیٹ کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ مریض ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا، درد کی شدت سے دہرا ہوتا ہے اور آگے جھکتا ہے۔چونکہ دباؤ سے آرام آتا ہے اس لیے مریض ماؤف حصہ کو دباتا ہے اور آگے جھکنے سے سکون محسوس کرتا ہے۔ دباؤ اور گرمی سے کچھ آرام ملتا ہے۔میگنیشیا فاس (Magnesia phos) کا بھی یہی مزاج ہے اس لیے میں کولو سنتھس اور میگنیشیا فاس کو ملا کر ہنگامی بیماریوں میں استعمال کرتا ہوں۔اللہ کے فضل سے جلد آرام آجاتا ہے۔(صفحہ323)
پیٹ کے درد میں انتڑیوں میں بل پڑتے ہیں۔ کولو سنتھس کا اعصاب کے چھوٹے خلیوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ انتڑیوں، کمر اور بازو وغیرہ کی درد اکثر انہی اعضاء تک محدود رہتے ہیں، سارے جسم کے اعضاء پر حملہ نہیں کرتے۔(صفحہ323)
اجابت کے دوران جب پیشاب آتا ہے تو پیشاب کی ساری نالی میں جلن محسوس ہوتی ہے اور اگر کبھی انڈے کی سفیدی کی طرح کا مادہ بھی خارج ہوتا ہے جس میں سے سخت بدبو آتی ہے اور پیشاب نکلتے ہوئے خارش ہوتی ہے۔ بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے کرسٹلز پیشاب کے ساتھ نکلتے ہیں جو کموڈ کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ کبھی پیشاب کے ساتھ سارے پیٹ میں تشنجی درد شروع ہوجاتا ہے۔ (صفحہ324)
کونیم میکولیٹم
Conium maculatum
(Poison hemlock)
معدے کے کینسر میں کونیم گو غیر معمولی اہمیت کی دوا ہے مگر وہاں بھی یہی مشکل پڑتی ہے کہ جب تک کینسر بن نہ جائے معدہ میں پیدا ہونے والا کوئی درد کونیم کی نشاندہی نہیں کرتا۔ اگر دیر ہوجائے تو کونیم وقتی آرام دیتی ہے۔ اس کے دینے سے زندگی نسبتاً آسان ہوجاتی ہے مگر اس وقت یہ کینسر کو جڑوں سے اکھیڑ نہیں سکتی۔ ہاں بعض دفعہ اتنا نمایا ں فرق پڑتا ہے کہ لگتا ہے جیسے کینسر غائب ہوگیا ہے لیکن وہ غائب نہیں ہوتا بلکہ کچھ دیر کے لیے دب جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تین سے چار سال تک آرام کے دوران پھر ظاہر ہوجاتا ہے اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے معدے کی علامتوں سے اس کی شناخت کی کوشش نہ کریں۔ ہاں اگر مریض میں کونیم کی عمومی علامتیں پائی جائیں مثلاً کونیم سے مشابہ چکر، تو اسے بلاتاخیر شروع کر دینا چاہیئے۔ اس کے نتیجہ میں کینسر کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا۔ (صفحہ326)
کروٹیلس ہری ڈس
Crotalus horridus
(Rattle snake)
کروٹیلس کا مریض معدہ کے گرد کسی قسم کاکپڑا برداشت نہیں کرسکتا۔ کوئی چیز اس کے معدے میں نہیں ٹکتی بلکہ شدید قے آجاتی ہے۔ صفراوی مادے نکلتے ہیں۔ خون کی قے بھی آجاتی ہے۔ معدہ میں خالی پن کا احسان ہوتا ہے۔ مریض کو یا تو قبض ہوگی یا دست شروع ہوجائیں گے۔ سیاہ، پتلی اور متعفن اجابت جس میں خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔(صفحہ334)
کروٹیلس میں دائیں طرف سونے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں۔ معدے اور پیٹ میں شدید ٹھنڈ کا احساس ہوتا ہے جیسے کسی نے برف رکھ دی ہو۔ یہ احساس انتڑیوں یا معدے میں کینسر کے آغاز کی علامت بھی ہوسکتا ہے۔ (صفحہ335)
کروٹیلس پیٹ کی ہوا اور معدے کے السر میں بھی مفید ہے۔ اگر رحم میں کینسر ہو اور شدید خون بہ رہا ہوتو کروٹیلس سے مکمل شفا ممکن ہے۔ ایسی مریضہ کے چہرے پر زردی چھا جاتی ہے اور وہ یرقان کی مریضہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ خاص علامت ہے جس سے کروٹیلس کی پہچان ممکن ہے۔(صفحہ335)
حیض کے دنوں میں دل کانپتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہاتھ بھی کانپتے ہیں اور سوج جاتے ہیں۔ ٹانگیں سن ہوجاتی ہیں اور بائیں جانب فالج ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ حیض دیر تک جاری رہتا ہے۔ شدید درد جو ٹانگوں تک پھیلتا ہے۔ معدہ میں بھی نقاہت کا احساس ہوتا ہے۔ (صفحہ335)
کروٹن ٹگلیم
Croton tiglium
(Croton oil seed)
رسٹاکس اور کروٹن میں انتڑیوں پر اثر مشترک ہے۔ پرانی پیچش اور اسہال میں کروٹن بہت مفید ہے۔ اس کے اسہال کی ایک خاص پہچان جو اسے رسٹاکس اور اسہال کی دوسری ادویہ سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ کروٹن کے اسہال اچانک بہت زور سے شروع ہوتے ہیں۔ مثلاً بچوں کو دودھ پیتے ہی زور کے اسہال آنے لگیں تو غالباً کروٹن ہی دوا ہوگی۔ کروٹن کی متلی اپی کاک سے مشابہ ہوتی ہے۔ اپی کاک میں صرف متلی ہوتی ہے، قے نہیں آتی۔ کروٹن میں بھی متلی ہوتی ہے لیکن قے نہیں آتی بلکہ اس کی بجائے اسہال شروع ہوجاتے ہیں۔ (صفحہ337)
کروٹن میں پیٹ میں ہوا بھی ہوتی ہے اور انتڑیوں سے گڑگڑاہٹ کی آواز بھی آتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اندر پانی بھرا ہوا ہو۔ معدہ میں بھوک اور خالی پن کا احساس ہوتا ہے۔ کروٹن میں جلد اور پیٹ کی علامتیں ایک د وسرے سے ادلتی بدلتی رہتی ہیں۔(صفحہ337۔338)
کروٹن یعنی جمال گوٹا کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خطرناک اسہال کا تریاق پوڈوفائیلم (Podophyllum) ہے۔ پوڈوفائیلم میں بھی پچکاری کی طرح زور دار اسہال آتے ہیں۔ اسہال کے مقابل پر کروٹن کی خارش کا تریاق رسٹاکس ہے۔(صفحہ338-339)
کیوپرم میٹیلیکم
Cuprum metallicum
کیوپرم کی ایک علامت یہ ہے کہ ہچکی لگتی ہے جو معدہ کے تشنج سے پیدا ہوتی ہے۔ متلی اور قے کو ٹھنڈا پانی پینے سے آرام آتا ہے۔ مگر متلی اور قے کے دورے سردی لگنے سے ہی شروع ہوتے ہیں۔ شدید پیٹ درد اور تھوڑے تھوڑے اسہال ہوں جن کے ساتھ تشنجی دورے بھی ہوں اور پیٹ تن جائے اور چھونے سے درد ہوتا ہو، اندر کی طرف کھچاؤ محسوس ہوتا ہوتو یہ کیوپرم کی علامتیں ہیں۔ (صفحہ344)
روز مرہ ہیضے میں استعمال ہونے والی تین بہترین دواؤں میں سے ایک کیوپرم ہے۔ اس کی امتیازی علامتیں بالکل واضح اور آسانی سے شناخت ہونے والی ہیں۔ ہیضے میں تشنج کا آغاز پیٹ سے ہوتا ہے جو بہت شدید ہوتا ہے اسہال کھل کر نہیں آتے بلکہ رک رک کر تھوڑے تھوڑے آتے ہیں۔(صفحہ344)
نوجوان بچیوں کو حیض کے دوران کمر اور پیٹ میں تشنج ہوتا ہے لیکن اگر یہ تشنج پنڈلیوں میں منتقل ہوجائیں تو زیادہ تر کیوپرم ہی دوا ہوگی۔اس میں ہلکی سی متلی اور اسہال بھی ہوتے ہیں۔ (صفحہ344)
سائیکلیمن یوروپیم
Cyclamen europaeum
سائیکلیمن بہت سے تضادات پر مشتمل دوا ہے۔ اس کی علامت رکھنے والے مریض کا حرکت کرنے کو بالکل دل نہیں چاہتا۔ اگرچہ حرکت سے تکلیف میں کمی آجاتی ہے۔ مریض کھلی ہوا میں گھبراہٹ محسوس کرتا ہے لیکن بیماری کو افاقہ ہوتا ہے خصوصا ً نزلہ زکام اور کھانسی کو کھلی ہوا سے آرام آتا ہے۔ مریض جسمانی کمزوری کی وجہ سے حرکت کرنے سے اور چلنے پھرنے سے گھبراتا ہے۔ شدید اسہال اور قے، نظام ہضم بری طرح سے متاثر، اس کے ساتھ لعاب دہن کا ذائقہ نمکین ہوجاتا ہے۔ (صفحہ345)
نظر کی مختلف تکلیفیں بسااوقات معدہ کی خرابی سے تعلق رکھتی ہیں۔ آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں، آدھی نظر غائب ہوجاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے دھبے آتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں۔(صفحہ346)
معدے کی تمام تکالیف پلسٹیلا سے ملتی جلتی ہیں۔ چربی والے کھانے سے نفرت، گرمی، جلن کا احساس اور کافی پینے کے بعد تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں۔ کافی کا ایک خاص اثر سائیکلیمن کے مریض پر یہ پڑتا ہے کہ جتنی دفعہ کافی پیئے گا اتنی دفعہ اسہال آئیں گے۔ معدے کی تکلیفوں میں ہچکی کا آنا سائیکلیمن کی بھی خاص علامت ہے۔ (صفحہ346)
ڈیجی ٹیلس
Digitalis
ڈیجی ٹیلس میں ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس میں بخار نہیں ہوتے، شاذ کے طور پر ہی کسی کو بخار ہوگا۔ نبض سست ہوتی ہے، جگر میں دکھن اور بڑے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ جگر کی خرابی دل کی خرابی پر منتج ہو تو پہلے اجابت ہلکے یا مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے، یرقان کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ معدے میں خالی پن اور ڈوبنے کا احساس بھی ہوتا ہے۔ یہ خصوصی علامت صرف چند دواؤں میں ہے۔ سلفر میں بھی ایسی کمزوری محسوس ہوتی ہے، مگر سلفر کے مریض کو کھانا کھانے سے آرام آجاتا ہے لیکن ڈیجی ٹیلس میں کھانے سے آرام نہیں آتا۔ کیونکہ دراصل یہ معدہ کی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ دل کے ڈوبنے کا احساس معدہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض دفعہ دل کی تکلیف معدہ یا اس کے نیچے بائیں طرف انتڑیوں کے اوپر کے حصہ میں محسوس ہوتی ہے اور دل کے ماہرین بھی پتا نہیں لگا سکتے کہ یہ دل کی تکلیف ہے یا معدے اور انتڑیوں کی۔ بعض دفعہ اس کے برعکس معدہ کی تکلیفیں دل میں محسوس ہوتی ہیں اور دل کی دواؤں سے کچھ آرام نہیں آتا۔اگر کھانا کھانے سے آرام نہ آئے بلکہ کھانے سے معدے پر بوجھ پڑ جائے اور دوران خون بڑھ جائے تو یہ دل کی تکلیف کی علامت ہے اور ڈیجی ٹیلس کی ایک پہچان ہے۔(صفحہ350)
ڈیجی ٹیلس میں بھوک کا فقدان اور پیاس کا بڑھ جانا پایا جاتا ہے۔ بعض دفعہ کالچیکم کی طرح کھانے کی خوشبو اشتہا پیدا کرنے کی بجائے بھوک کو بالکل ختم کردیتی ہے لیکن ڈیجی ٹیلس میں کالچیکم کی طرح شدید قے آنے اور بے ہوش ہوجانے کا رجحان نہیں ملتا۔ پیاس بھڑک اُٹھتی ہے اور بھوک آہستہ آہستہ مٹ جاتی ہے۔(صفحہ353)
کھانے کے بعد اور موسیقی سے تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ کھلی ہوا میں اور خالی پیٹ رہنے سے مرض کی شدت میں کمی آجاتی ہے۔ (صفحہ353)
ڈائسکوریا ولوسا
Dioscorea villosa
(Wild yam)
اس کی مخصوص علامت یہ ہے کہ تشنج خواہ پتے میں ہو یا پیٹ کے کسی اور حصے میں ہو اس میں ہمیشہ دباؤ سے نقصان پہنچتا ہے اور انگڑائی لے کر ماؤف جگہ پر دباؤ کم کرنے سے آرام ملتا ہے۔ پیچش میں قولنج کے درد بہت ہوتے ہیں۔اس کے مریض کو آہستہ ٹہلنے سے آرام آتا ہے کیونکہ اس سے بھی ہوا کا دباؤ کم ہوجاتا ہے۔ (صفحہ355)
بواسیر کے مسوں کا درد بھی جگر ہی کی جانب جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ معدہ کے تشنج کا درد دل کی جانب لپکتا ہے ان تمام علامتوں میں ڈائیاسکوریا مفید ہے۔ (صفحہ355)
ڈائیاسکوریا بہت زیادہ چائے پینے سے پیدا ہونے والی بد اثرات کا بھی تریاق ہے۔ ڈائیاسکوریا کے مریض کے پیٹ کی ہوا میں بہت بدبو ہوتی ہے۔ صبح کے وقت منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور زبان پر سفید موٹی تہ جم جاتی ہے۔ یہ پیٹ کے اعصابی دردوں کے لیے بھی بہت مفید دوا ہے۔ (صفحہ356)
ڈائیاسکوریا میں خونی بواسیر بھی ملتی ہے۔ مسے سرخ انگور کے گچھوں کی طرح ہوتے ہیں۔ اسہال بھی آتے ہیں جو صبح کے وقت شدت اختیار کر جاتے ہیں۔(صفحہ356)
ڈلکا مارا
Dulcamara
(Bitter sweet)
گردے، انتڑیوں اور معدے پر بھی نزلاتی اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور بار بار پیشاب آتا ہے یا اسہال شروع ہوجاتے ہیں۔ اسہال کی یہ تکلیف انتڑیوں، معدے یا گردوں کی نزلاتی کیفیت سے ہوتی ہے۔نم دار جگہوں پر رہنے سے اور نم دار موسم میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہے۔ (صفحہ363)
سردی لگنے سے اسہال کی بجائے پیچش شروع ہوجاتی ہے۔ اس پیچش کی دوا بھی ڈلکا مارا ہے۔ (صفحہ364)
مریض کھانے سے نفرت کرتا ہے۔ ٹھنڈے پانی کی نہ بجھنے والی پیاس، جلن، متلی اور قے کا رجحان جس میں سفید لیس دار رطوبت نکلتی ہے۔ قے کے دوران سردی لگتی ہے۔(صفحہ365)