حضرت مسیح موعودؑ اور دردِ گردہ کا علاج
مسیح محمدیؑ اور مسیح موسویؑ کی باہم گہری مشابہتیں ہیں۔ یہ مشابہتیں جہاں ظہور کے زمانے، کیفیت، مخالفت، امت کی علمی و عملی حالت میں من و عَن پائی جاتی ہیں۔وہیں باہم ذاتی مشابہتیں بھی موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ علامات حلیے رنگ و نسل کے جدا ہونے کے ساتھ ساتھ مذہب کے جدا ہونے کا بھی پتا دیتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بعض مشابہتیں تمثیلی رنگ میں بھی پوری ہوں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دکھ اور تکلیف دیا جانا ایک نبی اور امت کی صداقت کی نشانی ہوا کرتی ہے۔ موسوی و محمدی سلسلہ کی باہم مشابہت کے باعث مسیح محمدی کا ظہور مسیح موسوی کے مطابق ہوا۔جہاں مسیح موسوی نے مختلف جسمانی تکالیف کا سامنا کیااسی طور پیشگوئیوں کے مطابق مسیح محمدی زرد چادروں میں لپیٹا گیا۔ مسیح ناصری کو سب سے بڑی جسمانی تکلیف صلیب کی دی گئی۔ جس سے وہ قریب المرگ ہوئے اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ اب وہ اس دنیا سے کوچ کر گئے۔اسی طور حضرت مسیح موعودؑ کو صلب سے متعلق تکلیف پیش آئی۔ اور یہ شدید درد الحاح اور گریہ وزاری کے باعث ختم ہوئی۔
گردہ اور صُلب کا تعلق
گردہ انسان کے صلب یعنی کمر کے پچھلی طرف دونوں جانب ہوتاہے۔ بعض عوارض اور مسائل کے نتیجہ میں بعض زائد مادے گردہ میں جمع ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور جس انسان کوگردہ کی درد ہوتی ہے وہ اس امر کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ بعض اوقات درد کی ٹیسیں کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں جا کر دماغ تک تکلیف کی شدت کا احساس دلاتی ہیں۔
طب میں درد گردہ کی تاریخ زمانہ قبلِ مسیح سے بیان کی جاتی ہے۔۱۹۰۱ء میں، انگریز ماہر آثار قدیمہ E. Smith کو مصر کے El Amrah میں تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ممی سے مثانے کا پتھر ملا۔ پتھری کے علاج کا تذکرہ قدیم مصری طبّی تحریروں میں ۱۵۰۰ قبل مسیح میں ملتاہے۔
(https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3856162/)
مذکورہ بالا مضمون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ گردہ اور مثانہ کی بیماری کتنی پرانی ہے۔ لیکن انیسویں صدی میں علاج گردہ کے لیے جدید سے جدید تر تجربات اور عملیاتِ جراحی کو اپنایا گیا۔ ۱۹۸۰ء وہ سال تھا جب پہلی بار شاک ویو مشین کی ایجاد سے پتھری نکالنے کے عمل میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ اس کے بعد طب میں ترقی سے آج بغیر کٹ لگائے گردہ سے پتھری نکالنا ممکن ہوچکا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے دور میں گردہ سے پتھری نکالنے کا بذریعہ آپریشن علاج شروع ہوچکا تھا۔ آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ اسی طرح دیکھ لو کہ تجربہ کار ڈاکٹر کیسے کیسے نازک اپریشن کرتے ہیں یہاں تک کہ گردہ میں سے پتھریاں نکال لیتے ہیں اور بعض ڈاکٹروں نے انسان کے سر کی بیکار اور زخم رسیدہ کھوپڑی کو کاٹ کر اسی قدر حصہ کسی اور جانور کی کھوپڑی کا اس سے پیوست کر دیا ہے اور دیکھو وہ کیسی عمدگی سے بعض نازک اعضا کوچیرتے ہیں یہاں تک کہ انتڑیوں میں جو بعض پھوڑے پیدا ہوتے ہیں نہایت صفائی سے ان پربھی عمل جراحی کرتے ہیں اور نزول الماء کے موتی کو کیسی صفائی سے کاٹتے ہیں۔‘‘(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۳۹۳)
گردہ کی درد محسوس ہونے والی مرض ہے
انسان کو بعض درد چند سیکنڈز کے لیے ابتلا میں ڈالتے ہیں جبکہ بعض امراض میں جان کنی کی حالت پید اہوجاتی ہے۔ صلب اور اس کے متعلقات کے درد بھی نہایت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ انسان چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے سے قاصر ہو جاتا ہے۔ دردِ گردہ بھی انہی امراض میں سے ایک ہے جو انسان کو خوفناک اذیت میں مبتلا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’یہ دھوکا جو انسان کو لگتا ہے کہ وہ خدا کو مانتا ہے باوجودیکہ عملی شہادت اس ایمان کے ساتھ نہیں ہوتی درحقیقت یہ بھی ایک قسم کی مرض ہے جو خطرناک ہے مرض دو قسم کی ہوتی ہے ایک مرض مختلف ہوتی ہے یہ وہ ہوتی ہے جس کا درد محسوس ہوتا ہے جیسے سردرد یا درد گردہ وغیرہ۔دوسری قسم کی مرض مرض مستوی کہلاتی ہے اس مرض کا درد محسوس نہیں ہوتا اور اس لئے مریض ایک طرح اس کے علاج سے تساہل اور غفلت کرتا ہے جیسے برص کا داغ ہوتا ہے بظاہر کوئی درد یا دکھ محسوس نہیں ہوتا لیکن آخر کو یہ خطرناک نتائج پیدا کرتا ہے پس خد اپر ایسا ایمان جو عملی شہادتیں ساتھ نہیں رکھتا ہے ایک قسم کی مرض مستوی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۰۸ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
عمدہ غذا اور نفیس پانی سے بھی امراض گردہ
عموماً غیر معیاری پانی اور غذا کو مختلف عوارض کی بنیاد ٹھہرایا جاتا ہے۔ تاہم حضرت مسیح موعودؑ نے عمدہ غذا اور نفیس پانی استعمال کرنے والے امراء کے متعلق فرمایا کہ گردہ و مثانہ اور دیگر بڑی بیماریاں امراء پر ہی نازل ہوتی ہیں۔ ۶؍جنوری ۱۹۰۳ء کو بوقتِ سیرحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’مومن کو اس زندگی پر ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہیے۔اتنی بلائیں اس زندگی میں ہیں کہ شمار نہیں۔ایک بیماری ہوتی ہے کہ انسان کے پاخانہ کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور منہ کے راستہ پاخانہ آتا ہے اور اس کا نام ایلاوس ہے اور پھر اسی طرح گردہ اور مثانہ کی بیماریاں ہیں کہ رنگا رنگ کے سرخ‘ سبز اور سیاہ پتھر بن جاتے ہیں اور ان کا کوئی خاص سبب بھی کیا بیان ہو سکتا ہے بلکہ امراء لوگ جو کہ عمدہ غذا اور نفیس پانی استعمال کرتے ہیں انہیں کو ایسی امراض ہوتی ہیں۔اگر دو شخص ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ایک ہی قسم کی ان کی خوردونوش ہو۔پھر ایک ان میں سے ایسے عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔اس لئے طب کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ ظنّی علم ہے‘‘۔(ملفوظات جلد۲ صفحہ ۶۶۰ایڈیشن۱۹۸۸ء)
موروثی مرض
گردہ یا مثانہ کی پتھری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ موروثی مرض بھی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے والدِ محترم حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو بھی بنیادی طورپر دردِ گردہ کا مرض لاحق تھا۔ ان کے مرض الموت میں ایک مرض یہ بھی تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’پھر اس کے ساتھ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ۔ کانشان ہے۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اوراس وقت کا ہے جب کہ میرے والد صاحب مرحوم کا انتقال ہوا۔میں لاہور گیا ہو ا۔ مرزاصاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعہ کو یہاں آگیا تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی۔ پہلے بھی ہو اکرتا تھا۔ اس وقت تخفیف تھی ‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۲۷۰؍ایڈیشن۱۹۸۸ء)
ایک اور جگہ فرمایا کہ ’’اس دن میرے والد صاحب کی اصل مرض جو درد گردہ تھی دور ہو چکی تھی صرف تھوڑی سی زحیر باقی تھی‘‘۔(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۱۸)
گردہ کی تکلیف کے ایّام
حضرت مسیح موعودؑ کو بھی مختلف ایام میں درد گردہ کی تکلیف رہی۔ مورخہ ۷؍ جولائی ۱۸۹۷ء کو حضرت سیٹھ اخویم صاحب کو مکتوب میں تحریر فرمایا کہ ’’کل محبت نامہ آنمکرم مجھ کو ملا یہ عاجز کئی دن تک درد گردہ اور کھانسی شدیدمیں مبتلا رہا۔ اب بفضلہ تعالیٰ تخفیف ہے۔ انشاء اللہ آرام کلی ہو جائے گا۔‘‘(مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ۳۴۹)
درد گردہ اور صلیب میں تشبیہ
اسی طرح ۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعودؑ کو درد گردہ کی شدید تکلیف رہی۔ مئی ۱۹۰۲ء کے پہلے عشرہ کے اخیر میں شدید درد گردہ تھی۔ اور انہی تکلیف کے ایّام میں حضورؑ نے دردِ گردہ و صلب کو حضرت مسیح ِ ناصریؑ کے واقعہ صلیب سے تشبیہ دی۔
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑکو ۱۱؍مئی ۱۹۰۲ء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا۔آپؑ فرماتے ہیں:’’آج صبح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی:
خوشی کا مقام۔ نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان نصرت اور جلد آنے والی فتح۔(ترجمہ از مرتب)]
فرمایا۔اب یہ ہماری آمدِ ثانی ہے۔ اور فرمایا مسیح علیہ السلام کو صلیب کا واقعہ پیش آیا اور خدا تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی۔ہمیں اُس کی مانند صُلب یعنی پیٹھ کے متعلقات کے درد [یہ دردِ گردہ تھا(مرتب)] سے وہی واقعہ جو پورا موت کا نمونہ تھا پیش آیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے عافیت بخشی۔ اور فرمایا جس طرح توریت کا وہ بادشاہ جسے نبی نے کہا کہ تیری عمر کے پندرہ دن رہ گئے ہیں۔ اور اس نے بڑی تضرع اور خشوع سے گریہ وبُکا کیا۔ اور خداتعالیٰ نے اس نبی کی معرفت اُسے بشارت دی کہ اس کی عمر پندرہ روز کی جگہ پندرہ سال تک بڑھائی گئی اور معاً اُسے ایک اور خوشخبری دی گئی کہ دشمن پر اُسے فتح بھی نصیب ہوگی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دو۲ بشارتیں دی ہیں، ایک عافیت یعنی عمر کی درازی کی بشارت، جس کے الفاظ ہیں ’’خوشی کا مقام‘‘دوسری عظیم الشان نصرت اور فتح کی بشارت۔‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۵۱ ایڈیشن۲۰۰۴ء)
پھر مئی ۱۹۰۲ء کی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’دَوران ایّام [مرتب تذکرہ لکھتے ہیں کہ ۹، ۱۰؍مئی ۱۹۰۲ء کو حضرت اقدسؑ کو دردِ صُلْب کا دَورہ ہوا تھا اس کی طرف اشارہ ہے۔] دورہ مرض میںاَلْیَوْمَ یَوْمُ عِیْدٍ۔کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ۔[ترجمہ: آج کادن عید کا دن ہے۔ ہر دن وہ ایک نئی شان میں ہوتا ہے۔]اے میرے قادر خدا اس پیالہ کو ٹال دے۔خدا غمگین ہے۔ یُعَظِّمُکَ الْمَلَآ ئِکَۃُ۔ [فرشتے تیری تعظیم کرتے ہیں۔](تذکرہ صفحہ ۳۵۲،۳۵۱)
اسی طرح مئی ۱۹۰۲ء کے اواخر میں پھر الہام ہوا۔ ’’فرمایا: بیماری کی شدّت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ رُوح پرواز کر جائے گی مجھے بھی الہام ہوا۔اللّٰھُمَّ اِنْ اَھْلَکْتَ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا۔یعنی اے خدا! اگر تُو نے اس جماعت کو ہلاک کردیا، تو پھر اس کے بعد اس زمین پر تیری پرستش کبھی نہ ہوگی۔‘‘(تذکرہ،صفحہ ۳۵۲ ایڈیشن۲۰۰۴ء)
یکم جنوری ۱۹۰۳ء کی ڈائری میں لکھا ہے کہ’’حضرت اقدس تشریف لائے تو کمر کے گرد ایک صافہ لپیٹا ہوا تھا۔ فرمایا کہ کچھ شکایت درد گردہ کی شروع ہو رہی ہے اس لئے مَیں نے باندھ لیا ہے۔ ذرا غنودگی ہوئی تھی اس میں الہام ہوا ہے:
تا عَو دِ صحت[مرتب تذکرہ ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یعنی : بحالی صحت تک۔]
فرمایا کہ صحت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب تک وہ ارادہ نہ کرے کیا ہوسکتا ہے۔‘‘(تذکرہ صفحہ ۳۶۹)
تذکرة الشہادتین کے وقت دردِ گردہ
۱۹۰۳ء میں آپؑ کو پھر شدید تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب ؓ کی درد ناک شہادت کی خبر آپؑ کو پہنچی تھی۔ آپ اس وقت فوری طور پر ایک کتاب تذکرة الشہادتین تحریر کرنا چاہتے تھے۔ تاہم اسی وقت دردِ گردہ نے بھی شدت اختیار کرلی۔ صاحبِ تجربہ جانتے ہیں کہ درد گردہ کے وقت موت سامنےنظر آتی ہے۔ اس تکلیف میں حضرت مسیح موعودؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کیا اور تواتر سے وحیِ الہٰی کا نزول ہوا جو تذکرہ میں اکٹھی درج کی گئی ہیں۔
’’میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدمہ پر جاؤں …یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں۔ تو ایسا اِتفاق ہوا کہ مجھے دردِ گُردہ سخت پیدا ہوا۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ کام ناتمام رہ گیا۔ صرف دو چار دن ہیں۔ اگر مَیں اِسی طرح دردِ گردہ میں مُبتلا رہا جو ایک مُہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہوسکے گا۔ تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی۔ مَیں نے رات کے وقت میں جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گذر چکی تھی۔ اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اَب مَیں دُعا کرتا ہوں تم آمین کہو۔ سو مَیں نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کے تصورسے دعا کی کہ یا الٰہی اس مرحوم کے لیے مَیں اس کو لکھنا چاہتا تھا۔ تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا:
سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ
یعنی سلامتی اور عافیت ہے یہ خدائے رحیم کا کلام ہے۔
پس قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ مَیں بالکل تندرست ہوگیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک۔‘‘(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۷۴، ۷۵)
حضرت اقدسؑ نے اس واقعہ کو ایک خدائی نشان ٹھہرایا۔ حقیقة الوحی میں ۱۵۶۔نشان کے تحت تحریر فرمایا کہ ’’یہ نشان پہلے اِس سے میں نے اپنے رسالہ تذکرۃ الشہادتین کے اخیر میں لکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو میں نے ارادہ کیا تھا کہ صاحبزادہ عبد اللطیف اور شیخ عبدالرحمن صاحب کی شہادت کے بارہ میں جو نہایت ظلم سے قتل کئے گئے ایک رسالہ لکھوں جس کا نام تذکرۃ الشہادتین تجویز کیا تھا لیکن اتفاقاً مجھے درد گردہ شروع ہو گیا اور میرا ارادہ تھا کہ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء تک وہ رسالہ ختم کرلوں کیونکہ۱۶؍اکتوبر ۱۹۰۳ء کو ایک فوجداری مقدمہ کے لئے جو ایک مخالف کی طرف سے میرے پر دائر تھا گورداسپور میں جانا ضروری تھا تب میں نے جنا ب الٰہی میں دعا کی کہ یا الٰہی میں شہید مرحوم عبد اللطیف کے لئے رسالہ لکھنا چاہتا ہوں اور درد گردہ شروع ہو گئی ہے مجھے شفا بخش اور اِس سے پہلے مجھے ایک دفعہ دس۱۰ دن برابر درد گردہ رہی تھی اور میں اس سے قریب موت ہو گیا تھا۔ اب کی دفعہ بھی وہی خوف دامنگیر ہو گیا میں نے اپنے گھر کے لوگوں کو کہا کہ میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہو تب میں نے اپنی شفا کے لئے اس سخت دردکی حالت میں دعا کی اور انہوں نے آمین کہی پس میں خدا تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں جس کی قسم ہر ایک گواہی سے زیادہ اعتبار کے لائق ہے کہ ابھی میں نے دعا تمام نہیں کی تھی کہ میرے پر غنودگی طاری ہوئی اور الہام ہوا سَلامٌ قَولًا من ربّ رحیم۔ مَیں نے اُسی وقت یہ الہام اپنے گھر کے لوگوں اور اُن سب کو جو حاضر تھے سُنادیا۔ اور خدائے علیم جانتا ہے کہ صبح کے چھ۶ بجے سے پہلے میں بکلّی صحت یاب ہو گیا اور اُسی دن میں نے آدھی کتاب تصنیف کر لی۔ فالحمدللہ علی ذالک۔ دیکھو تذکرۃ الشہادتین کا حصہ اخیر۔(حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۳۵۸۔۳۵۹)
۱۹۰۷ء کے الہامات میں بھی دردِ گردہ کا ذکر ملتا ہے۔ فرمایا:’’ایک دفعہ ہم کو سخت دردِ گردہ تھا۔ کسی دوا سے آرام نہ ہوتا تھا۔ الہام ہوا:اَلْوَدَاعاس کے بعد دَرد بالکل یک دفعہ بند ہوگیا تب معلوم ہوا کہ یہ الوداع دَرد کا تھا۔‘‘(تذکرہ صفحہن۶۱۲)
مرتب تذکرہ حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ چونکہ اِس الہام کی تاریخ کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لئے اسے اشاعت کی تاریخ میں درج کیا گیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کا نمونہ
دردگردہ کی تکلیف مسلسل رہنے والی تکلیف ہے۔ لیکن بعض روایات سے حضرت مسیح موعودؑ کا نمونہ ثابت ہے کہ باوجود بیماری کے آپ خدمتِ دین میں اسی طرح مصروفِ عمل رہے۔ ذیل میں چند روایات پیش ہیں:
درد گردہ میں نماز کے لیے جانا
حضرت سردار بیگم صاحبہؓ اہلیہ حضرت سردار امام بخش خان صاحب قیصرانیؓ اپنے سفر قادیان کی روداد میں لکھتی ہیں کہ ’’ایک دن حضور کو درد گردہ ہو گیا اَور کئی اور علاج بھی کیے ہوں گے مگر میں نے دیکھا کہ چولہے میں آگ جل رہی ہے اور اس میں کچی خشت کے ٹکڑے گرم کر کے لائے جارہے ہیں، حضورخود یا حضرت اماں جان صاحبہ درد کی جگہ ٹکور کرتے جاتے ہیں رات کے سونے کے پلنگ پر کبھی آپ لیٹتے کبھی بیٹھتے۔ غرض تکلیف سے سخت بے آرام تھے۔ اتنے میں عصر کی نماز کی اذان ہوئی چنانچہ اس خدا کے برگزیدہ نے درد پر گرم خشت باندھ کر نماز ادا کر کے دکھا دیا کہ بیماری بھی انسان کے ساتھ لازمی ہے اور نماز بھی فرض، سو اس کا اس طرح التزام کرنا چاہیے‘‘۔(بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ ۲۲؍اکتوبر۲۰۱۲ء مضمون مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب)
دردِ گردہ اور نمازِ جمعہ
حضرت مصلح موعودؓ کا ایک معروف واقعہ درج ذیل ہے۔ اس میں حضرت مسیح موعودؑ درد گردہ کے سبب نمازِ جمعہ پر نہ جاسکے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ایک دفعہ ایک فعل مجھ سے ایسا ہوا جس سے میں سخت ڈرا اور اس میں میری ہی غلطی تھی۔ (آپ فرماتے ہیں ) مَیں فوری طور پر پکڑا بھی گیا۔ لیکن(اس پر یہ بھی فرمایا کہ) میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جلد ہی میری بریّت ہو گئی (اور وہ واقعہ ہے جب آپ جمعہ کے لئے تشریف لے جا رہے تھے۔ کہتے ہیں ) میری عمر پندرہ سولہ سال تھی۔ جب گھر سے نکلا تو ایک شخص مسجد سے واپس آ رہا تھا تو اس نے کہا کہ مسجد میں تو نماز پڑھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس لئے اس کی یہ بات سنی اور میں بھی واپس آ گیا۔ فرماتے ہیں کہ میں نے ظہر کی نماز پڑھ لی۔ آپ فرماتے ہیں کہ میری شامت کہ مجھے تحقیق کر لینی چاہئے تھی کہ مسجد بھری ہوئی ہے بھی یا نہیں۔ یا وہاں بیٹھنے یا کھڑے ہونے کی جگہ ہے بھی یا نہیں۔…
حضرت مسیح موعودؑ نے مجھے دیکھ کر کہا (جب میں واپس آگیا اور جمعہ نہیں پڑھا) کہ محمود ادھر آؤ۔ میں گیا تو آپ نے فرمایا تم جمعہ پڑھنے نہیں گئے؟ میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن معلوم ہؤا کہ مسجد بھری ہوئی ہے وہاں نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ میں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا۔ آپ فرماتے ہیں دل میں سخت ڈرا کہ دوسرے کی بات پر اعتبار کیوں کیا۔ معلوم نہیں اس نے جھوٹ کہا تھا یا سچ کہا تھا۔ اگر سچ بولا تب تو خیر لیکن اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو چونکہ اسی کی بات مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے بیان کر دی ہے اس لئے حضرت مسیح موعودؑ مجھ سے ناراض ہوں گے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولاہے۔ بہرحال کہتے ہیں میں اپنے دل میں سخت خائف ہوا کہ آج نامعلوم حضرت مسیح موعودؑ کیا فرماتے ہیں۔ اتنے میں نماز پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی عیادت کے لئے آئے۔ آپؑ کو اُس وقت گردہ کی درد تھی۔ اس لئے جمعہ پر نہیں گئے تھے۔ تو میں قریب ہی اِدھر اُدھر منڈلا رہا تھا کہ دیکھوں آج کیا بنتا ہے۔ ان کے آتے ہی حضرت مسیح موعودؑ نے ان سے سوال کیا کہ آج جمعہ میں لوگ زیادہ آئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گنجائش نہیں رہی تھی؟ آپ کہتے ہیں کہ میرا تو یہ بات سنتے ہی دل بیٹھنے لگا کہ خبر نہیں کہ اس شخص نے مجھ سے سچ کہا تھا یا جھوٹ کہا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی۔ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم میں خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر کرنے کا مادہ بہت تھا۔ انہوں نے یہ سنا تو کہا کہ حضور! اللہ کا بڑا احسان تھا مسجد خوب لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس میں بیٹھنے کے لئے ذرا بھی گنجائش نہیں تھی۔ تب میں نے سمجھا کہ اس احمدی نے جو کچھ کہا سچ کہا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کا یہی ذریعہ رکھا ہے کہ ہماری مسجدیں بڑھتی جائیں اور لوگوں سے ہر وقت آباد رہیں۔ جب تک تم مسجدوں کو آباد رکھو گے اس وقت تک تم بھی آباد رہو گے اور جب تم مسجدوں کو چھوڑ دو گے اس وقت خدا تعالیٰ تمہیں بھی چھوڑ دے گا۔‘‘ (خطبہ جمعہ ۸؍مئی ۲۰۱۵ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۹مئی ۲۰۱۵ء)
دردِ گردہ کے دوران وحی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک وحی جس کے شروع میں اَلرُّحیٰآتا ہے اور جو خاص ایک رکوع کے برابر ہے وہ ایسی حالت میں نازل ہوئی جبکہ حضرت صاحب کو درد گردہ کی شکایت تھی اور وہ یعنی سید فضل شاہ صاحب آپ کو دبا رہے تھے۔ گویا ان کو یہ خاص فضیلت حاصل تھی کہ ان کی موجودگی میں دباتے ہوئے حضرت صاحب پر وحی نازل ہوئی اور وحی بھی اس طرز کی تھی کہ کلام بعض دفعہ اونچی آواز سے آپ کی زبان پر جاری ہو جاتا تھا۔ حضرت مصلح موعود ؓکہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ ہم چھوٹے بچے ہوتے تھے کہ ہم بے احتیاطی سے اس کمرے میں چلے گئے جس میں حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے اپنے اوپر چادر ڈالی ہوئی تھی اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم آپ کو دبا رہے تھے ان کو محسوس ہوتا تھا کہ وحی ہو رہی ہے (بلکہ حضرت مسیح موعودؑنے تو لکھا ہوا ہے کہ آپ ان سے خود لکھواتے بھی رہے تھے۔ ) انہوں نے یعنی فضل شاہ صاحب نے اشارہ کرکے مجھے کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ۔ چنانچہ ہم باہر آ گئے۔ بعد میں پتا لگا کہ بڑی لمبی وحی تھی جو نازل ہوئی ہے۔(خطبہ جمعہ ۴؍ دسمبر ۲۰۱۵ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۵ دسمبر ۲۰۱۵ء)
درد گردہ کے مختلف علاج
حضرت مسیح موعودؑ نے گردہ کی درد اورپتھری کے اخراج کے مختلف علاج بیان فرمائے ہیں۔ ذیل میں چند درج ہیں۔
٭…جدوَار اور گلاب :جدوَار اور گلاب کے باہم استعمال کو سنگِ گردہ و مثانہ کے لیے مفید قرار دیا۔ تحریر فرمایا کہ ’’جدوار کہتی ہے کہ میں تیسرے درجہ کے اول مرتبہ میں گرم اور خشک ہوں اور حرارت غریزی سے بہت ہی مناسبت رکھتی ہوں اور مفرّح اور مقوّی قویٰ اور اعضاء رئیسہ دل اور دماغ اور کبد ہوں اور احشاء کی تقویت کرتی ہوں اور تمام گرم اور سرد زہروں کا تریاق ہوں…اور گلاب کے ساتھ وجع مفاصل کو مفید ہوں اور سنگ گردہ اور مثانہ کو نافع ہوں اگر بول بند ہوجائے تو شیرہ تخم خیارین کے ساتھ جلد اس کو کھول دیتی ہوں اور قولنج ریحی کو مفید ہوں۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۱۶۴۔۱۶۶ حاشیہ)
٭…مُصَبَّر کی گولیاں:پھر فرمایا کہ’’میرے والد صاحب کو بھی یہ مرض رہی ہے وہ مُصَبَّر کی گولیاں استعمال کیا کرتے تھے۔ بہت مفید ہیں۔اس میں مُصَبَّر، سہاگہ،بذرالبنج،فلفل اور دار فلفل وغیرہ ادویہ ہوتی ہیں۔(ملفوظات جلد۳ صفحہ۶۰ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
٭…ممولا: حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں:حضور علیہ السلام پرندوں کا گوشت بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً بٹیر، تلیر اور ممولا۔ ممولا کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ یہ درد گردہ کے لئے بہت مفید ہے۔(سیرت مرزا شریف احمد صاحب صفحہ ۲۷۳)
٭…مثانہ میں پتھری کا علاج: بعض وقت مثانہ سے جو کنکر وغیرہ تکلیف دے کرپیشاب کی طرح نکلتے ہیں ان کی نسبت فرمایاکہ:نربسی ۳ رتی اور وائنم اپی کاک کا استعمال اس کے واسطے بہت مفید ہے اور چاول وغیرہ لیسدار اشیاءکا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہی لیس منجمد ہو کر کنکربن جاتی ہے۔(ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۶۰،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
٭…پیشاب نہ پیدا ہونے کا علاج: گردہ کے امراض میں یعنی درد گردہ میں بعض وقت پیشاب پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا علاج ایک تو نربسی ہے اور دوسری یہ ہے کہ ایک بوٹی ہے جس کو چوپتی دو ہدک کہتے ہیں اس کی ۶ ماشہ جڑہیں لے لیں۔ اور پھر ایک ثارپختہ کنک یعنی گندم لے لیں اور کوئی ۲ثار یا چارثار پانی میں بھگو دیں جب کنک پھول جائے تو اسکے پانی کے ساتھ جڑوں کو دھو دیں اور اسی پانی کے ساتھ شورہ قلمی ڈال کر گھوٹیں اور بکری کا دودھ ڈال کر پی لیں۔ اس سے سخت قے آئیگی۔ دست آئے گا۔ پسینہ آئے گا۔ بعد اسکے پیشاب آجائے گا۔(علم طبِ مسیح موعود ۴۳)
٭…آم کی خاصیت: فرمایا: آم گردہ کے لئے بہت مفید ہے۔اور مقوی گردہ ہے۔ آم کے کھانے سے گردہ کی بیماریاں اور درد وغیرہ دُور ہوتے ہیں۔ آم گردہ کی شکل ہے اس واسطے گردہ کے مناسب واقع ہوا ہے۔(علم طبِ مسیح موعود صفحہ ۴۸-۴۹)
٭… علاج حبس بول: جب گردہ میں پیشاب پیدا نہ ہو رائی ۳ ماشہ، قلمی شورہ ۶ ماشہ، مولی کے بیج۳ ماشہ ہر ایک کو الگ الگ پیس کر ملادیا جائے اور اس میں سے ۳ ماشہ کچی لسی ( چھاچھ) کے ساتھ دیا جائے۔(علم طب مسیح موعود صفحہ ۶۱)
٭…درد گردہ اور کمی پیشاب :کچور ۳ماشہ، زنجبیل ۳ ماشہ، نربسی ۱؍ماشہ، رائی ۳ماشہ، قلمی شورہ ۳ماشہ، مولی کا بیج ۳ماشہ، خوراک ۴ماشہ بہمراہ کچی لسی۔(علم طب مسیح موعود صفحہ ۶۱)
صحابہؓ کا علاج گردہ
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب کو درد گردہ:حضرت منشی ظفر احمدؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ایک دن مسجد اقصیٰ میں آپؑ تقریر فرمارہے تھے کہ میرے دردِ گردہ شروع ہوگیا اور باوجود بہت برداشت کرنے کی کوشش کے میں برداشت نہ کرسکا اور چلا آیا۔ میں اس کوٹھے پر جس میں پیر سراج الحق صاحبؓ مرحوم رہتے تھے ٹھہرا ہوا تھا۔ حضرت صاحبؑ نے تقریر میں سے ہی حضرت مولوی نورالدینؓ کو بھیجا انہوں نے درد گردہ معلوم کرکے دوا بھیجی۔ مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا تکلیف بڑھتی گئی پھر حضورؑ جلدی تقریر ختم کرکے میرے پاس آگئے اور مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ سے جو ساتھ تھے فرمایا کہ آپ پرانے دوست ہیں منشی صاحب کے پاس ہروقت رہیں اور حضورؑ پھر گھر سے دوالے کر آئے اور اس طرح تین دفعہ یکے بعد دیگرے دوا بدل کر خود لائے تیسری دفعہ جب تشریف لائے تو فرمایا کہ زینے پر چڑھنے اترنے میں دقت ہے۔آپ میرے پاس ہی آجائیں۔ آپ تشریف لے گئے۔ اور مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ مجھے سہارا دے کر حضرت صاحبؑ کے پاس لے گئے راستہ میں دودفعہ میں نے دعا مانگی مولوی صاحبؓ پہچان گئے اور کہنے لگے تم یہ دعا مانگتے ہوگے کہ مجھے جلدی آرام نہ ہو تاکہ دیر تک حضرت صاحبؑ کے پاس ٹھہرا رہوں۔میں نے کہا ہاں یہی بات ہے۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ کھانا کھارہے تھے دال۔ مولیاں۔سرکہ۔ اس قسم کی چیزیں تھیں جب آپؑ کھانا کھاچکے تو آپؑ کے سامنے کا کھانا ہم دونوں نے اٹھالیا اور باوجودیکہ مجھے مسہل آور دوائیں دی ہوئی تھیں اور ابھی کوئی اسہال نہیں آیا تھا میں نے وہ چیزیں روٹی سے کھالیں اور حضورؑ نے منع نہیں فرمایا۔ چند منٹ کے بعد درد کو آرام آگیا کچھ دیر بعد ظہر کی اذان ہوگئی۔ہم دونوں مسجد میں آپؑ کے ساتھ نماز پڑھنے آگئے۔ فرضوں کا سلام پھیر کر حضورؑ نے میری نبض دیکھ کر فرمایا۔ آپ کو تو اب بالکل آرام آگیا۔ میرا بخار بھی اتر گیا تھا۔میں نے کہا حضوربخار اندر ہے۔ اس پر ہنس کر فرمانے لگے اچھا آپ اندر ہی آجائیے۔عصر کے وقت تک میں اندر رہا بعد عصر میں نے خود ساتھ جانے کی جرأت نہ کی۔میں بالکل تندرست ہوچکاتھا۔‘‘(اصحابِ احمد جلد چہارم صفحہ۱۶۷)
دیگر روایات
درد گردہ میں حقنہ:حضرت پیر منظور محمد صاحب مصنف قاعده یسرنا القرآن کو حضرت مسیح موعودؑ کے عہد مبارک میں ایک دفعہ شدید درد گردہ ہوا۔ اتفاقاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام بھی تشریف لے آئے۔ آپ نے آتے ہی فرمایا۔ ’’ انیمہ کرد و‘‘ چنانچه انیمہ کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایسا شامل حال ہو ا کہ آپ کو فوراً آرام آ گیا۔‘‘(الفضل ۱۸؍ اگست ۱۹۳۷ء بحوالہ علم طبِ مسیح موعود)
درد گردہ میں احباب کے لیے دعا:حضرت چوہدری غلام سرور صاحب نمبر دار روایت کرتے ہیں کہ جب میں پہلی دفعہ قادیان پہنچا گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعودؑ کو درد گردہ کا دورہ تھا۔ آپ باہر نہیں نکلتے تھے۔ میر حامد شاہ صاحب مرحوم کی تشریف آوری پر حضور نے میر صاحب کو اندر بلایا تو ساتھ یہ خاکسار بھی اندر چلا گیا۔ حضور نے میر صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج رات جبکہ درد کا شدید دورہ تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا اب آخری وقت ہے تو میں نے نام بنام یعنی دوستوں کے نام لے کر دعا کی۔(رجسٹر روایات نمبر ایک روایت نمبر ا)
وہ مزید کہتے ہیں کہ حضور کو جب درد گردہ سے آرام ہوا تو حضور نے نمکین پلاؤ پکوا کر مہمانوں کو کھلایا۔(رجسٹر روایات نمبر ایک روایت نمبر ۳)
گوشت سے دردِ گردہ: مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری ولد صدر دین صاحب مرحوم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سیر میں حضورؑ نے فرمایا کہ رات کو تین ماشہ (یا تین تولہ فرمایا) بوٹی ہو گی جس کے کھانے سے درد گردہ شروع ہو گیا تھا۔(رجسٹر روایات نمبر ۸)
گرم پانی کی ٹکور: چوہدری کیسر خانصاحب کہتے ہیں کہ مجھے حضور کی ایک پروردہ خاتون نے بتلایا کہ ایک دفعہ حضور کو درد گردہ کی اس قدر تکلیف ہوئی کہ آپ کو پیشاب کے راستہ خون کے قطرے آنے لگے۔ اس نازک وقت میں حضور کی زبان پر یہ الفاظ نکل رہے تھے۔ اے میرے رب، اے میرے پیارے رب! تو رحم فرما کہ تیرے سوا کوئی رحم فرمانے والا نہیں۔ اور ہم گرم پانی گردے کی جگہ اوپر دھار باندھ کر ڈال رہی تھیں۔ پھر کہا کہ حضور کو کھنب کا سالن بہت پسند تھا۔ جب کچھ کھنبیںلوہے کے کڑچھے میں پکائی جاتیں تو حضور فرماتے کہ کڑچھے میں ہی کھنبیںرہنے دیں اور آپ کڑچھے کو لقمے سے خوب صاف کرتے جاتے اور فرماتے کہ لوہا بہت مفید چیز ہے۔ یہ انسان کو طاقت دیتا ہے۔(رجسٹر روایات نمبر ۶)
احباب قادیان کا حضرت مسیح موعودؑ کے لیے دعا کرنا: حکیم دین محمد صاحب ولد شیخ برکت علی صاحب مرحوم سے روایت ہے کہ ۱۹۰۲ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام میرزا غلام احمد صاحب قادیانی مرحوم و مغفور غالباً مئی ۱۹۰۲ء میں درد گردہ سے بیمار تھے اور اس تکلیف کے باعث متواتر کئی روز تک غالباً دو ہفتہ تک گھر سے باہر تشریف نہیں لا سکے تھے ان ایام میں ایک روز آنجناب نے اندر سے خدام کو پیغام بھیجا کہ آپ کی شفا کے لئے دعا کی جاوے۔ اس غرض کے ماتحت کل خدام حاضرہ قادیان بمعہ طالب علمان مدرسہ تعلیم الاسلام و سٹاف اور جملہ مہمانان واردہ مہمان خانہ مسجد اقصیٰ میں وضو کر کے گئے اور حضور کی شفایابی کے لئے ہر ایک صاحب نے نوافل میں لمبی لمبی دعا کی۔ بعض احباب اس قدر گریہ وزاری اور آہ و بکا میں مشغول تھے کہ مسجد اقصیٰ میں ایک کہرام مچا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ بندہ بھی اس دعا میں شریک ہوا۔ایک آدھ روز بعد اللہ تعالیٰ نے حضور کو شفا بخشی اور چند روز بعد آپ مسجد مبارک میں تشریف حسب د ستور بوقت نماز لائے تو بڑے کمزور تھے۔ (رجسٹر روایات نمبر ۱۳)
دردِ گردہ سے دعا کے ذریعہ نجات:حکیم دین محمد صاحب ولد شیخ برکت علی صاحب مرحوم سے روایت ہے کہ ایک دفعہ مجھے قادیان میں ہی درد گردہ کا دورہ ہو گیا۔ میں نے اس وقت حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے عریضہ لکھا۔ عریضہ کے جانے کے بعد جلد ہی درد مفقود ہو گیا۔ جب حضور نماز کے وقت باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ میں نے آپ کے خط ملنے پر اسی وقت دعا کی تھی۔ اب کیا حال ہے۔ میں نے عرض کی کہ حضور کی دعا کی برکت سے اسی وقت آرام آگیا تھا۔ میں نے مزید عرض کی کہ حضور دعا فرماویں کہ اس مرض سے بکلّی نجات حاصل ہو جائے۔ کیونکہ یہ مرض مجھے بیعت کرنے کے بعد لاحق ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے لوگ طعنے دیتے ہیں اور اس کے دورے بھی بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ دعا کروں گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد حضور پُرنور کی دعائوں کی برکت سے وہ موذی مرض بکلّی دُور ہو گئی۔ اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آج تک مجھے آرام ہے اور کئی بار پیشاب کا ٹیسٹ بھی کروا چکا ہوں۔ اس کا اثر بالکل زائل ہو چکا ہے۔ (رجسٹر روایات نمبر ۱۳ )
حافظ محمد امین صاحب ولد میاں علم الدین صاحب (سکنہ نکودر ڈاکخانہ فتح جنگ تحصیل و تھانہ فتح جنگ ضلع کیمل پور) سے روایت ہے کہ بڑے زلزلہ کے موقع پر حضور نے تمام لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ وہ مکانات چھوڑ کر باہر نکل آئیں اور حضور خود بھی اہل بیت کے ساتھ اپنے باغ میں فروکش ہوئے اوران دنوں متواتر زلزلے آتے رہے اورطاعون بھی شروع ہوگیا تھا۔ ان دنوں عاجز بھی درد گردہ میں مبتلا ہوگیا۔ صبح سات بجے بیمار ہوا اور شام کے تین بجے یہ درد ایسی سخت ہوگئی کہ اس کی تکلیف سے کسی پہلو چین نہ تھا۔ میں اس وقت مہر الدین صاحب ارائیں کے مکان میں رہتا تھا۔ مولوی عبیداللہ صاحب میرے پاس آئے۔ اس وقت میری حالت بہت خراب تھی۔ مولوی صاحب میری تکلیف برداشت نہ کرسکے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے حضور میری صحت کے لئے دعا کی درخواست لکھی اور لکھا کہ یہ غریب آدمی ضلع راولپنڈی کا رہنے والا اور اس وقت درد گردہ سے سخت تنگ ہے۔ اس کے ساتھ جو اس کا چھوٹا بھائی گوہر الدین (ڈاکٹر گوہر الدین صاحب سب اسسٹنٹ سرجن برما جن کی عمر اس وقت بارہ تیرہ برس تھی) وہ بھی اس کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتا۔ حضور اس کی شفا یابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرماویں۔ مولوی صاحب نے یہ خط میرے بھائی گوہر الدین صاحب (جو بعد میں ڈاکٹر بنے) کو دے کر حضور کی خدمت اقدس میں بھیجا۔ وہ حضور کے دربار میں خط کسی کو دے کر واپس چلے آئے۔ حضور خط پڑھ کر اور اپنا کام اسی وقت چھوڑکر باہر دروازہ پر تشریف لائے اور پوچھا کہ یہ خط کون دے گیا ہے؟ میاں شادی خاں صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ ایک چھوٹا لڑکا دے گیا ہے۔ حضور نے خط دوبارہ پڑھا تو حضور کو علم ہوا کہ حضرت مولانا نور الدین صاحب علاج کرتے ہیں۔ خط پڑھ کر حضور نے جواب دیا کہ میں دعا کروں گا اور ان کی دوائی اور دودھ وغیرہ کا خرچ میرے حساب میں شمار کریں اور مولوی صاحب ان کے علاج کی طرف پوری توجہ فرماویں۔ آخر حضور کی دعائوں اور حضرت مولوی صاحب کے علاج سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس بیماری سے نجات بخشی۔(رجسٹر روایات نمبر ۴)
دردِ گردہ میں مخالفین کو جوابات
حضرت میاں عبدالرشید صاحب ولد میاں چراغ دین صاحب مرحوم لاہور روایت کرتے ہیں کہ قادیان میں جن دنوں آریہ سماج نے پہلا جلسہ کیا ہے اس وقت میرے ایک دوست دیودت نے کہا کہ اگر آپ قادیان چلیں تو میں بھی آپ کے ساتھ وہاں جائوں۔ چنانچہ میں تیار ہو گیا اور دونوں قادیان پہنچے میرے دوست تو آریہ سماج کی طرف چلے گئے اور میں مہمانخانہ میں جا کرٹھہرا۔ حضور صبح کے وقت سیر کو باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی حضور کے ہمراہ تھا اور میرا ہندو دوست بھی میرے ساتھ تھا۔ جب حضور باہر تشریف لے گئے تو بہت سے باہر سے آئے ہوئے آریہ لوگ حضور کے پاس آئے اور کچھ گفتگو آپس میں ہوئی۔ رات کے وقت آریوں نے وہاں پر نگر کیرتن کیا جس میں اسلام پر بہت اعتراضات کئے۔ اس رات کو میں مہمانخانہ کی بجائے مولوی محمد علی صاحب کے پاس مسجد کے ساتھ والے کمرہ میں ٹھہرا ہوا تھا۔شیخ یعقوب علی صاحب نے حضور کی خدمت میں عشاء کی نماز کے بعد آریوں کے اعتراضات کا ذکر کیا۔ حضور نے فرمایا کہ سب اعتراضات لکھ کر مجھے اندر بھیج دیں۔ چنانچہ ایسا کیا گیا۔ حضور ان اعتراضات کے جواب ساری رات لکھتے رہے۔ ساتھ ہی کاتب بٹھائے ہوئے تھے۔ حضور چلتے ہوئے تحریر فرماتے تھے حضور کو اس رات گردہ کی درد کی تکلیف تھی اور آپ نے کمر کے اردگرد کپڑا لپیٹا ہوا تھا۔ میں چونکہ اوپر کے کمرہ میں تھا اس لئے حضور کی باتیں سن سکتا تھا۔ میں بھی قریباً ساری رات جاگتا ہی رہا۔ صبح کی نماز میں حضور مسجد میں تشریف لائے۔ نماز کے بعد حضور کو ضعف بہت ہو گیا اور آپ اندر مکان میں تشریف لے گئے۔ چند دوستوں کو ہدایت فرمائی کہ یہ مضمون جلدی چھاپ دیا جائے تاکہ اس کی اشاعت آج ہی ہو سکے۔ چنانچہ آٹھ نو بجے تک یہ مضمون چھپ کر تیار ہو گیا۔ یہ وہ مضمون ہے جو نسیم دعوت کے رسالہ کے آخر میں درج ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب حضور کی خدمت میں یہ مضمون تیار ہو کر پہنچا تو حضور اس وقت چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ نے اٹھ کر صندوق سے زرد رومال نکالا اور اس میں حضور نے چند کتابیں باندھ دیں اور دوستوں کو ہدایت کی کہ یہ کتابیں فلاں فلاں آریہ کو فوراً پہنچا دیں جب یہ کتابیں ان کو پہنچائی گئیں تو ان کا پردھان جو غالباً رام بھجدت لاہور کے ایک مشہور وکیل تھے جو اس سے ایک دن قبل حضور سے ملاقات کر چکے تھے اور حضور کو دیکھ چکے تھے کہ آپ بیمار ہیں جب انہوں نے اس مضمون کو دیکھا تو کھڑے ہو کر بہت حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ معلوم نہیں اس شخص میں کیا بجلی کی طاقت ہے اس شخص نے اس بات کو گوارہ نہیں کیا کہ ہمارے اعتراضات پر بغیر جواب کے ایک رات بھی گذر جائے اور بیماری کی حالت میں ہی اس قدر جلدی ان کا جواب تیار کر کے شائع بھی کر دیا ہے۔(رجسٹر روایات نمبر ۱۱)
قارئین کرام! آجکل کے زمانہ میں جہاں معمولی سے درد پر ایک انسان ہسپتال کا رخ کرتاہے اور فوری پین کلر (pain killer) لگوا کر درد رفو کرتا ہے یا مختلف انواع کی ادویات گھر پر ہی میسر ہوتی ہیں۔ ذرا اس زمانہ کا سوچیئے جب اس مہلک مرض کے مقابل سوائے برادشت کے اور کوئی چارا نہ تھا۔ دیسی ٹوٹکے اور چند معلوم ادویات سے علاج کیا جاتا تھا۔ تب خدا تعالیٰ کی طرف رجوع سے معجزانہ شفایابی ایک بہت بڑی صداقت کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا واقعات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح موعودؑ ہر بار تکلیف کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے اور کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام سے اس تکلیف پر سکینت نازل فرماتا۔ ان تکلیف کے ایام میں جہاں حضرت مسیحِ ناصریؑ کی زبان سے ایلی ایلی لما سبقتنیکی صدا جاری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے انہیں بہترین مأویعطا فرمایا جہاںاونچے پہاڑ، بہترین رہائش اورتازہ پانی کے چشمے جاری تھے، پھر آپؑ گمشدہ قبائل میں تبلیغ حق خوب بجا لائے۔ اسی طرح مسیح محمدی کو اس صلب کی تکلیف سے نجات دی۔ آپ تحریر و تقریر اور عبادات و صلوٰۃ کے تمام فرائض بَاِیں ہَمہ بجا لاتے رہے اور کسی قسم کی کوئی روک پید ا نہ ہوسکی۔ تکلیف کے ایام میں سفر بھی کیا۔ اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔ کتاب بھی تحریر فرمائی۔ اپنے لیے اور دوستوں کے لیے خوب دعائیں کیں۔ اس طرح یہ مشابہت مسیحِ موسوی و مسیح محمدی میں کامل طور پر ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی ان دعاؤں کو ہمارے حق میں پورا فرمائے۔ اور ہم بھی ان دعاؤں کے وارث بننے کے اہل ہوں۔