حقوقِ نسواں (حصہ چہارم۔ آخری)
تعلیم حاصل کرنے کا حق:آنحضورﷺ نے ایک جگہ فرمایا: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے‘‘۔(سنن ابن ماجہ کتاب السنۃ باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم،ماخوذاز چالیس جواہر پارے صفحہ ۱۵۴)یہ بھی عورت کا مقام ہے جو آنحضورﷺ کے زمانے سے عورت کو ملا اور عورت ایک معلّمہ کے طور پر سامنے آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۶ء کو جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر مستورات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اسلام نے عورت کو عظیم معلّمہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ صرف گھر کی معلّمہ کے طور پر نہیں بلکہ باہرکی معلّمہ کے طور پر بھی۔ ایک حدیث میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایاکہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو۔ اور جہاں تک حضرت عائشہ صدیقہ ؓکی روایات کا تعلق ہے وہ تقریباً آدھے دین پر حاوی ہیں۔ بعض اوقات آپؓ نے علومِ دین کے تعلق میں اجتماعات کو خطاب فرمایا اور صحابہ بکثرت آپؓ کے پاس دین سیکھنے کے لیے آپ کے دروازے پر حاضری دیا کرتے تھے۔ پردہ کی پابندی کے ساتھ آپ تمام سائلین کے تسلی بخش جواب دیا کرتی تھیں۔(ماخوذ از اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد ۲صفحہ ۴۹)
ایک اور ایسا مقام جو آج تک دنیا کے کسی بھی آزاد سے آزاد معاشرے نے عورتوں کو نہیں دیا وہ یہ ہے کہ آنحضورﷺ نے فرمایا:’’جنت ماں کے قدموں کے تلے ہے‘‘ (سنن النسائی ۳۱۰۴)یہ جنت ماں کو تبھی مل سکتی ہے جب وہ دینی و دنیاوی تعلیم سے آشنا ہوگی اور تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی اسلام نے ہی دیا ہے۔تعلیم کی وجہ سے ہی وہ اپنی آئندہ نسلوں کی اچھی تربیت کرسکتی ہے۔
جماعت احمدیہ میں بھی تمام خلفاء نے عورتوں کی تعلیم و تربیت پر ہمیشہ حوصلہ افزائی کی اور زور دیاہے۔حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی رائے تھی کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ ۱۳؍ ستمبر ۱۹۳۱ء کو سیالکوٹ کی لجنہ اماءاللہ نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے اعزاز میں ایک دعوت دی۔ اس موقع پر آپؓ نے ایک تقریر فرمائی جس میں ایک جگہ فرمایا :’’یہ امر کس قدر افسوسناک ہے کہ سارے پنجاب میں مسلمانوں کاایک بھی زنانہ کالج نہیں اور قادیان کا کالج پہلا زنانہ کالج ہے اور خداکے فضل سے وہاں عورتوں کی تعلیم اس قدر زیادہ ہے کہ چند ماہ ہوئے میں علی گڑھ گیا تو مجھے بتایا گیا کہ صرف چار لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان دیاہےلیکن قادیان میں پہلے ہی سال سولہ لڑکیوں نے امتحان دیا اور ہم نے اندازہ کیا کہ قادیان میں قریباً سو فیصد لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں گویا ان کی شرح لڑکوں سے بھی زیادہ ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ ہماری جماعت میں عورتوں کی تعلیم اس سرعت سے پھیل رہی ہے، خصوصاً قادیان میں انشاءاللہ بہت جلد عورتوں کی جہالت سے ہم بچ جائیں گے۔‘‘(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد ۱صفحہ ۲۶۹)
عورت پر ناجائز الزامات کی مما نعت: اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتاہے: وَالَّذِیۡنَ یَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡہُمۡ ثَمٰنِیۡنَ جَلۡدَۃً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَہُمۡ شَہَادَۃً اَبَدًا۔(النور:۵) ترجمہ: وہ لوگ جو پاک دامن عورتوں پر تُہمت لگاتے ہیں پھر چار گواہ پیش نہیں کرتے تو انہیں اَسّی کوڑے لگاؤ اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔
عورت کی عزّت اورآبرو کی حفاظت صرف اور صرف اسلام نے ہی کی ہے۔ پانچ ہجری میں جب حضرت عائشہ صدیقہؓ کی پاک دامنی پر جھوٹا الزام لگا یا گیا تو اس وقت خدا تعالیٰ نے آپؓ کی بریّت کے بارے میں ذکرفرمایا ہے اور یہ عورت کے لیے بہت بڑا مقام اور مرتبہ ہے جو خدا تعالیٰ نے عورت کو دیا۔ اس طرح اسلام نے عورت پر جھوٹے اور غلط الزامات کا دروازہ بند کردیا جس کے نتیجہ میں ہر مسلمان عورت خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔
آج اللہ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی وہ جماعت ہے جس میں اسلامی تعلیم پر کما حقہ عمل ہو رہا ہے۔اور آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے جو عورت کو مقام اور مرتبہ ملا وہ آج بھی برقرار ہے۔ اللہ کے فضل سے نظامِ خلافت کے تحت عورت کےحقوق کی پاسداری کو یقینی بنایا جاتا ہے۔مغربی ممالک جو اپنے آپ کو آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں انہوں نے تو اسلامی حقوق کے مقابلہ میں اپنی عورتوں کو اس کا عشرِعشیر بھی نہیں دیا۔آج ان کو یہ تو نظر آتا ہے کہ ایک مسلمان عورت سر ڈھکتی ہے اور پردہ کرتی ہے تو ان کے خیال میں یہ اسلام نے اس پر ظلم کیا ہے،گویا وہ بیچاری مظلوم ہے حالانکہ اسلام نے تو عورت کی عزت اور تقدّس کو قائم کیا ہے۔ وہ پردے میں رہتے ہوۓ بھی آزاد ہے۔اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرتی ہے۔ ڈاکٹری کا پیشہ ہو یا ٹیچنگ کا، دینی علم دینا مقصود ہو یا معاشرتی معاملات میں مدد، ہر شعبہ میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اسلامی پردہ سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدّنی امور کے لیے پڑے ان کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیںہے، وہ بیشک جائیں، لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ ان کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میں مشابہت نہ کریں۔اسلام نےیہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔یورپ کو دیکھو کیا ہورہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔ یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟ کیا پردہ داری یا پردہ دری کا۔‘‘(ملفوظات جلد ۱ صفحہ۲۹۷-۲۹۸، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی راۓ تھی کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔آپؓ کے اسی فرمان پر عمل کرتےہوۓ عورتیں اعلیٰ تعلیم کی منزلیں طے کرتی چلی جا رہی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے اپنے دور میں تعلیم کے میدان میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں کے لیے گولڈ میڈل دینے کا اعلان کیااور یہ صرف مردوں کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ اس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ آج بھی ہم اس کے نظارے دیکھتے ہیں کہ ہر سال جلسہ سالانہ پر خواتین کو بھی تعلیمی میدان میں اعلیٰ کامیابی پر میڈل دیے جاتے ہیں۔
غیر از جماعت احباب میں بھی خواتین علمی، سیاسی، دینی اور تعلیمی کاموں میں آگے نکلتی ہیں یہاں تک کہ ملکوں کی وزیرِ اعظم بھی بن جاتی ہیں۔یہ سب کچھ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی بدولت ہے جنہوں نے عورت کو اس کا مقام دیا اور اس کو اپنے وجود کا احساس دلایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عورت کو اس کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے عورتوں کے لیے ایک الگ تنظیم ۱۹۲۲ء میں بنائی جس کا نام ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ رکھا۔آج لجنہ اماء اللہ دین کے کاموں میں پیش پیش ہے۔
ہر خلیفہ وقت نے عورتوں سے توقع رکھی ہے کہ ہر عورت اپنے مقام اور مرتبہ کا خیا ل رکھے اور اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھتےہوئے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرے، اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے اور اپنی نسلوں کی تربیت ایسی کرے کہ وہ احمدیت کے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے بن جائیں اور مستقبل کی باگ ڈورسنبھالنے والے ہوں۔آمین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فر ماتے ہیں: اے لوگو! اس محسن نبی پر درود بھیجو جو خداوندِ رحمٰن و منّان کی صفات کا مظہر ہے۔کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپﷺ کے احسانات کا احساس نہیں اس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ ایمان کو تباہ کرنے کے در پے ہے۔(ترجمہ از عربی ) (اعجازِ المسیح، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۵-۶)
اللہ تعالیٰ ہم عورتوں کو اپنے مقام و مرتبہ کو سمجھتے ہوئے تمام فرائض و ذمہ داریاں احسن طریق پر نبھانے کی توفیق بخشے۔ آمین