متفرق شعراء
حرفِ نصیحت نادان ظالموں اور دشمنوں کے نام
غیب سے گر خبر نہیں آتی
تو حقیقت نظر نہیں آتی
جو گھڑی ہاتھ سے نکل جائے
وہ کبھی لَوٹ کر نہیں آتی
یہ عطائے کریم ہے ورنہ
عقل تو عمر بھر نہیں آتی
تیر ترکش کے تم چلا بیٹھے
ہاتھ فتح و ظفر نہیں آتی
ہر جتن تم نے کر کے دیکھ لیا
اس کی نصرت مگر نہیں آتی
شرم اپنے کیے پہ ہی تم کو
شاید آ جائے، پر نہیں آتی
روشنی لا مکاں پہ جا پہنچی
کیوں تمہارے نگر نہیں آتی
بُوئے گلشن تو کُو بہ کُو پھیلی
اک تمہارے ہی گھر نہیں آتی
ہم پہ سورج سدا چمکتا ہے
تم پہ لیکن سحر نہیں آتی
کون سمجھائے، دھیان میں ان کے
بات میری اگر نہیں آتی
گرچہ ہے موت تک سفر درپیش
موت لیکن نظر نہیں آتی
حشر کے روز بات جھوٹوں کو
یاد رکھنا کہ کر نہیں آتی
جب تلک آنکھ وا نہیں کرتے
بات بنتی نظر نہیں آتی
(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)