تقویم یعنی کیلنڈر
کیلنڈردنیاوی اور مذہبی ہر دو نظاموں کی ضروریات کا ایک اہم حصہ ہے۔تقریباًہر قسم کے کیلنڈر کی بنیاد چاند اور سورج کے طلوع و غروب ہونے کے اوقات پر مبنی ہے۔ اس وقت دُنیا میں تین قسم کے کیلنڈر رائج ہیں جو عالمی سطح پر استعمال ہوتےہیں۔
۱:قمری کیلنڈر۔کیلنڈر کی یہ قسم سب سے قدیم تصور کی جاتی ہے۔ اس کے مہینے کی لمبائی ایک چاند کے پہلے دن کے طلو ع ہونے سے دوسرے چاند کے پہلے دن تک ہوتی ہے۔
۲:شمسی کیلنڈر۔اس میں ۳۶۵.۲۵؍ دن ہوتے ہیں۔
۳:شمسی وقمری کیلنڈر۔یہ کیلنڈر چاند کے ساتھ منسلک ہو کر سال کے مختلف اوقات متعین کرتا ہے۔
رومن کیلنڈر:پہلا کیلنڈر جو رومن میں تیار کیا گیا۔ اس میں مہینے کے پہلے دن کو Kalendraکہا جاتا تھا۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے آواز دینا، واضح کرنا یا جان پہچان کرنا۔ ۲۹۵؍دن پر مشتمل یہ قمری کیلنڈر تھا سال کا پہلا مہینہ مارچ تھا۔ پہلےسال دس ماہ پر مشتمل تھا بعد میں دومہینوںکا اضافہ بھی کر دیا گیا۔
جولین کیلنڈر:رومن بادشاہ جولیس سیزر نے قدیم رومی کیلنڈر میں اصلاح کی اُ س نے قمری مہینوں کے انداز کو ترک کر کے شمسی انداز میں ترتیب دیا۔ جولیس سیزر نے اپنے نئے کیلنڈر میں ایک اور تبدیلی یہ بھی کی کہ مارچ کے پہلے مہینے کو چھوڑ کر جنوری کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔ اس کے بعد جب شاہِ آ گسٹس تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی فروری کے مہینے سے ایک دن لے کر اپنے نام کے مہینے یعنی اگست میں مستقلاًشامل کر لیا۔ اس طرح فروری کے پاس کُل ۲۸؍ دن باقی رہ گئے۔ البتہ لیپ کے سال میں فروری کا مہینہ ۲۹؍ دن کا ہونا شروع ہو گیا۔
عیسائی کیلنڈر: اس کیلنڈر کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے دن سے کرتے ہیں۔ لیکن جس کا صحیح تعین ابھی تک بھی نہیں ہو سکا۔عیسائی کیلنڈر کا آ غاز ایک متعین دن اور سال سے ہوتا ہے۔ اسے In the year of love کانام دیا گیا ہے۔ اس میں عیسائیوں نے قدیم اسرائیلی سات دنوں کا ہفتہ برقرار رکھا۔
گریگورین کیلنڈر: پوپ گریگوری ہشتم نے جولیس کیلنڈر میں مزید اصلاح کی مگر لیپ کا سال اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ یہ آج کی دُنیا کے عام استعمال میں ہے۔
Yin(ین)یاچینی کیلنڈر ۔ دُنیا میں سب سے پرانا شمسی و قمری کیلنڈر چین سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ہر مہینہ ۲۹ یا ۳۰؍ دنوں پر مشتمل ہوتاہے۔ سال کا آغاز موسمی سال کے دوسرے چاند کی پہلی تاریخ کو سردیوں کا سورج چڑھنے کے بعد ہوتا۔
ہجری شمسی یاایرانی کیلنڈر ۔ چونکہ ملکِ ایران میں قدیم سے زرتشتی مذہب رائج تھا۔ لہٰذا کیلنڈر بھی زرتشتی مذہب کے تحت ہی جاری تھا۔ جب مسلمانوں نے ایران فتح کیا تو ایرانی کیلنڈر میں اسلامی کیلنڈر کے تحت کچھ تبدیلیاں کی گئیں۔ یعنی شمسی کے ساتھ قمری کیلنڈر کے کچھ اصول بھی شامل کر دیے گئے۔ قومی تہوار ’’نو روز‘‘ وغیرہ مغربی کیلنڈر اور باقی اسلامی تہوار اسلامی کیلنڈر کے مطابق منائے جاتے ہیں۔
ہندو یا پن چنگا کیلنڈر: بھارت میں مستعمل مختلف شمسی قمری تقویم کے لیے استعمال ہوتی ہے۔مگر سب سے زیادہ مشہور وکرمی تقویم ہے جسے بکرمی بھی کہا جاتا ہےجبکہ سنسکرت زبان میں پن چنگا بھی کہتے ہیں۔
نانک شاہی یا سکھ کیلنڈر ۔اسے سکھ کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔اس میں ۱۲مہینوں کی ابتدا اور اختتام کو گریگورین کیلنڈرکی مطابقت سے رکھا گیا ہے۔
عبرانی یایہودی کیلنڈر۔ یہود شمسی وقمری کیلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ نئے سال کا آغاز سال کے ساتویں چاند کی پہلی تاریخ کو ہوتا ہے، یہ مہینہ تشری کہلاتا ہے۔
اسلامی یا ہجری کیلنڈر۔ قمری ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے غروب آفتاب سے نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ محرم پہلا مہینہ ہے۔ چونکہ یہ قمری کیلنڈرہے لہٰذا اس کا ہر مہینہ چاند کو دیکھ کر شروع ہوتا ہے۔قمری ہجری سال ہر عیسوی سال کی نسبت دس یا گیارہ دن پہلے شروع ہوتا ہے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنےدَور خلافت میں اسلامی کیلنڈر مرتب فرمایا۔اس کے مہینوں کے وہی نام ہیں جو قبل ازاسلام عرب معاشرہ میں رائج تھے۔
احمدیہ کیلنڈر۔ : ہجری شمسی کیلنڈرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۴۰ء میں جاری فرمایا۔اس کیلنڈر میں تاریخ اسلام اور حضرت محمدﷺ کی زندگی کے واقعات کی بنیاد پر مہینوں کے نام رکھے گئے ہیں جوحضرت مصلح موعودؓ کا ایک سنہری کارنامہ ہے۔
(’الف فضل‘)