اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
مئی و جون ۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک پرانی خبرکی مزید تفصیل۔ طاقت ریاست کے پاس ہے یا ملّاکے
راولپنڈی۔مئی ۲۰۲۳ء:اس سے قبل قاری ادریس کی ایک ویڈیو کا ذکر ہو چکا ہے جس میں اس نے ایک احمدی استاد کی بطور ہیڈماسٹر تقرری کے خلاف ریاست اور محکمہ تعلیم کو دھمکی دی تھی۔اس کی دھمکی پر محکمہ تعلیم نے مذکور احمدی استاد کی رحمت آباد میں تقرری روک دی تھی اور ان کا تبادلہ بطور ہیڈماسٹر ضلع راولپنڈی میں کر دیا تھا۔ لیکن اس بد طینت ملاں نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور وہاں بھی پہنچ گیا اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر دھمکی آمیز رویہ اختیار کر لیا۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر اب آخر کا ر موصوف نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرلیا ہے۔
احمدیوں کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے خلاف درخواست
گوجرہ ،ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ۔مئی ۲۰۲۳ء:اسامہ منور نامی ایک وکیل نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو ایک درخواست دی جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ عید الفطر کے موقع پر مساجد کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مساجد کی ایک لسٹ بنائی گئی تھی اور اس لسٹ میں احمدیہ مسجد بیت الحمد کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس نے اس درخواست میں تھانہ انچارج کے علاوہ دو احمدی احباب کو بھی نامزد کیا۔اس نےکہا کہ جب وہ تھانے میں گیا تواس نے نوٹس بورڈ پر ایک لسٹ دیکھی جس میں احمدیہ مسجد بیت الحمد کا بھی نام دیگر مساجد کے ساتھ درج تھا۔مسلمانوں کےلیے مختص خانے میں احمدیہ کا لفظ درج کیا گیا تھا۔اس بد طینت نے درخواست میں یہ بھی لکھا کہ احمدی آئین کے تحت خودکو مسلمان نہیں کہہ سکتے تو ان کی عبادت گاہ کو سیکیورٹی کیوں فراہم کی گئی۔اس نے مزید لکھا کہ قادیانی کوئی ایسا کام یا عبادت نہیں کر سکتے جس سے ظاہر ہو کہ وہ مسلمان ہیں۔ لہٰذا نامزد لوگوں کےخلاف کارروائی کی جائے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس لسٹ کو بنانے یا سیکیورٹی مانگنے میں احمدیوں کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔
بارہ احمدیوں پر مقدمہ درج،آٹھ کی گرفتاری، سات کو بعد میں رہا کر دیا گیا،ایک تاحال قید
بھلیر ضلع قصور۔۴-۵؍جون ۲۰۲۳ء:پولیس نے پھول نگر ضلع قصور میں بارہ احمدیوں پر ایک مقدمہ درج کر دیا۔ اس کے علاوہ پولیس نے تین احمدیوں کو گرفتار کر لیا۔ تاہم ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے ان میں سے ایک کے علاوہ باقی سب کو رہا کر دیا۔
بھلیر میں صرف نو دس احمدی خاندان آبادہیں اور گذشتہ کافی عرصے سے مخالفین احمدیت ان خاندانوں پر جھوٹے مقدمے بنوا کران کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔احمدیوں کو اپنے دفاع کےلیے کچھ مزاحمت کرنا پڑ رہی ہےاور اس سب کشیدگی میں تحریک لبیک کے ملّاں پیش پیش ہیں۔
۷؍ دسمبر۲۰۲۲ء کو ایک احمدی نوجوان کا تحریک لبیک کے ایک رؤف نامی ملّا کے ساتھ ایک ذاتی نوعیت کاجھگڑا ہوا۔اس پر تحریک لبیک والوں نے اس جھگڑے کو مذہبی رنگ دے دیا اور پولیس کو شکایت درج کروائی اور ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا کہ احمدیہ مسجد کے میناروں کو مسمار کیا جائےاور احمدیوں کو شہر بدر کیا جائے۔اس واقعہ کے دس دن بعد پولیس نے گیارہ احمدیوں پر مقدمہ درج کر لیا۔ بعد میں ان کی ضمانت منظور ہو گئی۔ لیکن پولیس نےان احباب میں سےسات کو ایک اَور مقدمہ میں نامزد کر دیا۔
۳؍ جون ۲۰۲۳ء کو ایک احمدی اپنے عزیزوں کو ملنے جارہے تھے کہ راستے میں مسلح مخالفین نے ان کو پکڑ لیا اور ان کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔جب ان کے دوست احباب اور رشتہ داروں کو اس بات کا علم ہواتو وہ جائے وقوعہ پر پہنچے جس کی وجہ سے موصوف کی جان بچ گئی۔ اس کے بعد احمدی پولیس کے پاس اس معاملے کی شکایت درج کروانے کےلیے گئے تو پولیس نے الٹا احمدیوں پر ہی مقدمہ درج کر لیا۔
اس کے بعد مقامی جماعت کے بزرگ پولیس افسران سے ملے اور ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا کہ کیسے مخالفین جماعت کو ہر لحاظ سے تکلیف پہنچا رہے ہیں۔اس پرانہوں نے اس احمدی جس کو مار پڑی تھی کے علاوہ باقی احباب جماعت کو رہا کر دیا۔
ایسے واقعات واضح کرتے ہیں کہ تحریک لبیک نے کیسے احمدیوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں اور احمدی ایک باوقار شہری کی طرح زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔
ایڈیشنل سیشن جج لالیا ں نے درخواست ضمانت مسترد کر دی
لالیاں۔ ۱۰؍ جون ۲۰۲۳ء:ایڈیشنل سیشن جج لالیاں نے جماعت احمدیہ کے ایک ادارے کے پرنسپل کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جو گذشتہ چھ ماہ سے پابندِ سلاسل ہیں۔ ۶؍دسمبر۲۰۲۲ء کو موصوف کے خلاف امتناع قادیانیت آرڈیننس کی مختلف شقوں کے تحت قرآن کریم کے غیر مستند ترجمہ والے نسخے تقسیم کرنے کے جرم میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔جو الزامات ان پر لگائے گئے وہ جھوٹے ،بے بنیاد اور خود تراشیدہ تھے۔
موصوف کو توہین قرآن کے جرم میں گرفتار کر لیا گیااور ان کو فیصل آباد کی جیل میں رکھا گیا۔ایک جھوٹا مقدمہ بنائے جانے،ناجائز دفعات لگائے جانے اور چھ ماہ جیل میں رکھے جانے کے باوجود بھی جج نے ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی۔
اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں نے اشتعال انگیزی کرنے والے اور تشدّد پر اکسانے والے ایسے مجرموں کو بھی ضمانت دےدی جن پر انتہائی سنگین دفعات لگائی گئی تھیں۔
جنونی ملاوٴں کو اس ضمانت کے مسترد ہونے کی اتنی خوشی ہوئی کہ انہوں نے فوراً ایک بیان جاری کر دیا جو درج ذیل ہے۔’’الحمد للہ گستاخ … قادیانی کی ضمانت خارج۔ملزم تحریف شدہ قرآن کریم کی طباعت، اشاعت، ترسیل اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں ان کی اشاعت میں ملوث ،قادیانی نیٹ ورک کا مرکزی کردار ہے۔ملزم قادیانی جماعت کےمرکزی ادارےجامعۃ الحفظ کا پرنسپل،مدرسہ عائشہ کا نگران اور مرکزی شوریٰ قادیانی کا ممبرہے۔آج ملزم کی ضمانت سیشن جج راؤاجمل کی معزز عدالت میں زیر سماعت تھی۔ملزم کی جانب سے اس کے وکیل …اور …( سیکرٹری امور عامہ قادیانی جماعت) اور…پیش ہوئےاورکہا کہ ملزم کے خلاف شواہد موجود نہ ہیں۔ملزم کو سازش کے ذریعے اور مذہبی تعصب کی بنا پر مقدمہ میں ملوث کیا گیا ہے۔مقدمہ بے بنیاد ہے۔ جب کہ مدعی مقدمہ حسن معاویہ کی جانب سے لیگل کمیشن آن بلاسفمی پاکستان کی لیگل ٹیم ندیم گجر ،کامران،سردار اجمل ایڈووکیٹس شیخ نواز ایڈووکیٹ کی سربراہی میں پیش ہوئی۔مدعی کے وکلاء نےملزم کے خلاف تمام شواہدمعزز عدالت کے سامنے رکھے۔ اور ملزم کا مجرمانہ کردار سامنے رکھا۔ فریقین کے دلائل اور ریکارڈملاحظہ کرکے عدالت نے ملزم کی ضمانت خارج فرما دی‘‘۔
یہ مقدمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کیسے عدالت اور ملّاں مل کر احمدیوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔پھر احمدیت کے خلاف یہ وکلا گردی کا بھی ایک کھلا ثبوت ہے۔آپ اندازہ کریں کہ عدالتی نظام میں یہ سرطان کس حد تک پھیل چکا ہے۔
یو کے بار کونسل کا پاکستان میں حالیہ مذہبی معاملات کے متعلق تشویش کا اظہار
یورپین نیوز۔ ۱۷؍ جون ۲۰۲۳ء:یوکے بار کونسل نے درج ذیل اعلامیہ جاری کیا۔بار کونسل اس پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستان میں اکثر مقامات پر احمدی وکلا کو پریکٹس کرنے کےلیے اپنا مذہبی عقیدہ چھوڑنے پرمجبور کیا جا رہاہے۔ گوجرانوالہ ا ور خیبر پختونخوا میں بار کا ممبر بننے کےلیے اپنے مسلمان ہونے اور احمدیت کی تعلیمات اور اس کے بانی مرزا غلام احمد کا انکار کرنے کا اضافی حلف نامہ مانگا جارہا ہے۔
پاکستان کا آئین مذہبی آزادی کے اصولوں کا ضامن ہے تو کیونکر ایک تسلسل کے ساتھ ایسے نوٹس جاری کیے جاسکتے ہیں۔
Nick Vineall KC جو کہ انگلینڈ او ر ویلز کی بار کے چیئر مین ہیں انہوں نے پاکستان بار کے چیئر مین کو لکھے جانے والے ایک خط میں یہ درخواست کی ہے کہ احمدیوں اور غیر مسلموں کے ساتھ اس امتیازی سلوک کا سدّباب کیا جائے۔فرائیڈے ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق احمدی وکلا کو جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جج عمر سیال نے بھی اس واقعے کو نہ صرف عدالت کے لیے باعث شرم بلکہ انصاف کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیااور مطالبہ کیا کہ ایسی گالی گلوچ اور تشدد کی تمام بار کونسلوں کو مذمت کرنی چاہیے۔
Nick Vineall KC نے مزید کہا کہ عالمی سیاسی توجہ کا بہت بڑا حصہ پاکستان کےجمہوری معاملات کی طرف مرکوز ہے۔اور اس کے ساتھ احمدی وکلاء کےمتعلق ایسی خبریں کہ ان کو مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنا کر پریکٹس سے روکا جارہا ہے انتہائی تشویشناک ہیں۔
گوجرانوالہ اور خیبر پختونخوا میں احمدی اور غیر مسلم وکیلوں کو بار سے الگ کرکے دراصل بہت سے لوگوں کو ان کی عدالت میں قانونی نمائندگی کو ناممکن بنایا جارہا ہے جو کہ صریحا ً پاکستان کے آئین،مذہبی آزادی اور قانون کےسامنے برابری کے برعکس ہے۔اس لیے ہم پاکستان کی بار کونسل سے ان معاملات کا جائزہ لینے کا مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ یہی ان سب کے اوپر اختیار رکھتی ہے۔
ایک احمدی کو کاروباری حسد کی بنا پر مقدمہ میں ملوّث کردیا…اس کے بیٹے گرفتار
کوٹلی ،آزاد جموں وکشمیر۔۲۳؍جون ۲۰۲۳ء:کوٹلی کے عدالتی احاطے میں ایک احمدی اشٹام فروش ہیں اور ان کا کاروبار دوسرے اشٹام فروشوں کی نسبت بہت بہتر ہے۔اسی وجہ سے باقی اشٹام فروش ان سے بہت زیادہ حسد کا شکار ہوگئے۔انہی میں سے ایک محمد ذوالفقار حسین بھی ہے۔ تفصیلات کے مطابق وہ لوگ احمدی اشٹام فروش کا موبائل فون استعمال کی غرض سے لےگئے اور اس کے ذریعے توہین آمیز کامنٹ نشر کر دیا۔ اس کے بعد مولویوں کےساتھ مل کر انہوں نے مقدمہ درج کروا دیا اور پولیس کو لے کر موصوف کے گھر آ گئے۔وہاں تو وہ موجود نہ تھے لیکن ان کے دو بیٹوں کو حراست میں لے لیا۔پولیس گرفتار کرنے کےلیے چھاپے مار رہی ہے۔ بعد ازاں بیٹوں کو رہا کر دیا گیا۔اس واقعے سے علم ہوتا ہے کہ پولیس کس قدر متعصب ہے اور کیسے غیر قانونی کام کرتی ہے۔