تحریک وقف جدید
(خطبہ عید الفطر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۵۸ء)
کچھ دن ہوئے میں نے رؤیا میں دیکھا کہ ایک مجلس ہے اور بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان میں بڑھتا چلا جاتا ہوں چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ آگے قاضی ظہور الدین صاحب اکمل بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان کے پاس سے ہو کر گزرا ہوں۔ میں نے اس کی یہ تشریح کی کہ الدین سے مراد اسلام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ (آل عمران: ۲۰) پس اس لحاظ سے ظہور الدین اکمل کے یہ معنے ہونگے کہ ظہور الاسلام اکمل یعنی خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں کامل طور پر غالب کرے۔ یہ ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس عید کے دن جب کہ سب لوگ اپنے اپنے دوستوں کو تحفے دیتے ہیں اس غریب جماعت کو یہ تحفہ دے کہ اس کے ہاتھوں سے اسلام کو دنیا پر غالب کرے اور کامل طور پر غالب کرے یہاں تک کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کو، رسول کریمﷺ کو اور اسلام کو بُرا کہنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ تمام کے تمام ایمان لانے والے ہوں اور اپنے ایمان اور اخلاص کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی توحید اور خدا تعالیٰ کی شان کے بڑھانے اور اسے پھیلانے والے ہوں۔
پھر چند روز ہوئے میں نے دیکھا کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا تقریر کر رہا ہوں ذہن میں تو نہیں مگر وہ ایسا ہی مجمع ہے جیسے عید کا مجمع ہوتا ہے اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو گو اس وقت تلوار کا جہاد نہیں ہے مگر تبلیغ کا جہاد ہے جو تلوار کے جہاد سے زیادہ آسان ہے۔ تم رسول کریمﷺ کے صحابہ ؓکو دیکھو کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد ایسا اخلاص دکھایا کہ یا تو وہ اتنے بتوں کو پوجتے تھے کہ ہر دن میں ایک ایک بت آجاتا تھا اور یا پھر وہ توحید کا جھنڈا اٹھا کر دنیا میں نکل گئے اور اس کے کناروں تک پھیل گئے انہوں نے ایران فتح کیا، عرب فتح کیا ، افغانستان فتح کیا اور پھر سندھ کے ذریعہ سے ہندوستان فتح کیا، پھر مصر فتح کیا، پھر تیونس اور مراکش فتح کیا، پھر ہسپانیہ فتح کیا، پھر تاریخوں سے ثابت ہے اور بعض آثار قدیمہ بھی ایسے ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں میں سے بعض جہازوں پر بیٹھ کر امریکہ چلے گئے جہاں اب تک بھی ایک پرانی مسجد باقی ہے اور کولمبس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ میں نے جو امریکہ دریافت کیا ہے تو اس کی اصل تحریک مجھے ایک مسلمان بزرگ کی تحریر سے ہوئی ہے۔اس کا اشارہ حضرت محی الدین صاحب ابن عربی کی طرف تھا۔انہوں نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ سمندر کے پرے ایک اور ملک بھی ہے۔ چنانچہ جب لوگوں نے کولمبس پر اعتراض کیا اور بادشاہ نے اس کو روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ تجھے وہم ہو گیا ہے اور تو پاگل ہے تو اس نے کہا نہیں میں نے یہ بات ایسے لوگوں سے سنی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے یعنی مسلمانوں سے اور پھر انہوں نے بھی یہ بات اپنے ایک بہت بڑے بزرگ کے حوالہ سے کہی ہے اس لئے میں ضرور کامیاب ہوں گا ۔اگر نا کام واپس آیا تو آپ کا اختیار ہے کہ جو چاہیں مجھے سزا دیں۔ آخر ملکہ نے اپنے زیور بیچ کر اس کے لئے روپیہ مہیا کیا۔ پادری اس وقت اتنے احمق تھے کہ ایک پادری نے دربار میں تقریر کی کہ یہ تو پاگل ہو گیا ہے اور عیسائیت کے خلاف تقریریں کرتا ہے۔ اس وقت پادریوں کا خیال تھا کہ زمین چپٹی ہے گول نہیں۔ اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر زمین گول ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علاقہ اور بھی ہے جہاں انسانوں کا سر نیچے ہوتا ہے اور ٹانگیں اوپر اور بارش بھی اوپر سے نیچے کو نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے اوپر ہوتی ہے اولے بھی نیچے سے اوپر گرتے ہیں اور یہ ساری حماقت کی باتیں ہیں لیکن آخر وہی کامیاب ہوا۔
غرض میں نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو رسول کریمﷺ کے صحابہؓ یا تو اتنے کمزور اور نا طاقت تھے کہ سارے عرب میں دس ایرانیوں یا دس رومیوں کا مقابلہ کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی یا وہ دن آیا کہ وہ اسلام کے سیاہ جھنڈے ہاتھوں میں لے کر نکلے اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے اور رسول کریمﷺ کی وفات پر ابھی پندرہ سال کا عرصہ ہی گذرا تھا کہ مسلمان ہندوستان اور چین تک جا پہنچے۔ تم کو بھی چاہئے کہ چھوٹے چھوٹے سیاہ جھنڈے بنا لو اور وقف جدید کے جو مجاہد ہیں وہ دنیا میں پھیل جائیں اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو جائے اور گو یہ حکومت سیاسی نہیں ہو گی بلکہ دینی اور مذہبی ہو گی کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو پڑھائیں گے اور علاج معالجہ کریں گے اور دین سکھائیں گے مگر پھر بھی ان کے ذریعہ اسلام کا ایک نشان قائم رہے گا۔ دیکھ لو بعض علاقے ایسے ہیں جوابھی تک بھی رہائش کے قابل نہیں لیکن حکومتوں نے ابھی سے وہاں اپنے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں تا کہ جب کبھی بھی وہاں آبادی کی صورت پیدا ہو تو ان کا حق قائم رہے۔چنانچہ بحر منجمد جنوبی کے قریب ایک جہاز اتفاقاً روس کا پہنچ گیا، پھر جاپان کا ایک جہاز پہنچ گیا، پھر ڈچ کا پہنچ گیا، پھر امریکہ کا پہنچ گیا، ان چاروں حکومتوں کے آدمی جب وہاں برف کے تودوں پر پہنچے تو انہوں نے وہاں اپنے اپنے ملک کا جھنڈا گاڑ دیا۔ اب چاروں حکومتیں اس علاقہ کی ملکیت کی مدعی ہیں۔امریکہ کہتا ہے بحر منجمد جنوبی ہمارا ہے اور اس کے اندر جوزمین نکلے گی وہ ہماری ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، ہالینڈ والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، جاپان والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے اپنا جھنڈا گاڑا ہے، روس والے کہتے ہیں کہ وہ علاقہ ہمارا ہے کیونکہ ہمارے آدمیوں نے وہاں اپنا جھنڈا گاڑا ہے، بہر حال وہ خیالی جگہ جہاں ابھی تک آبادی نہیں صرف خیال ہے کہ وہاں کسی وقت آبادی ہو جائے گی ابھی سے حکومتیں اس پر اپنا حق جتا رہی ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ان جھنڈوں میں سے ایک جھنڈ امحمد رسول اللہﷺ کا بھی نہ ہو تا کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ علاقہ نہ امریکہ کا ہے نہ جاپان کا ہے نہ ہالینڈ کا ہے، نہ روس کا ہے بلکہ یہ محمد رسول اللہﷺ کا علاقہ ہے کیونکہ آپ پر ایمان لانے والوں نے آپ کا جھنڈا وہاں گاڑا ہے اور چونکہ جو کچھ محمد رسول اللہﷺ کا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےکہ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الانعام : ۱۶۳) یعنی اے محمد رسول اللہﷺ! تُو لوگوں سے کہہ دے کہ میری ہر قسم کی عبادتیں ، میری قربانیاں ، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اس لئے جو کچھ محمد رسول اللہﷺ کا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہے۔ پس دنیا میں جو چیز محمد رسول اللہﷺ کی بنے گی وہ آپ ہی خدا تعالیٰ کی بن جائے گی کیونکہ آپؐ کے سوا اور کوئی وجود دنیا میں ایسا نہیں جس نے توحید کامل کو قائم کیا ہوا اور خدا تعالیٰ کی حکومت توحید ہی کے ذریعہ سے دنیا میں آتی ہے صرف منہ سے کہہ دینا کہ اے خدا !تیری بادشاہت جس طرح آسمانوں پر ہے زمین پر بھی ہو یہ کافی نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے تو صرف یہ دعا کی تھی اور محمد رسول اللہﷺ نے عملاً خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کر کے دکھا دی۔ اور وہ لوگ جو بت پرستی کرتے تھے اور طرح طرح کے عیوب میں مبتلاء تھے انہیں پاکیزہ کر کے کامل توحید پر قائم کر دیا یہاں تک کہ وہ لوگ جو رات دن شرک میں مبتلا تھے اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
چنانچہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل مسلمانوں پر بڑے بڑے سخت ظلم کیے تھے اور ان پر گندے حملے کئے تھے جیسے ہندہ جس نے بعض مسلمان شہیدوں کے کلیجے نکلوا کر انہیں کچا چبا لیا تھا۔ ان کے متعلق فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمﷺ نے حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں ملیں انہیں قتل کر دیا جائے۔ ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی جب رسول کریمﷺ نے عورتوں کی بیعت لینی شروع کی تو ہندہ چادر اوڑھ کر ان میں شامل ہو گئی۔ جب آپ نے بیعت لینی شروع کی اور فرمایا کہ کہو ہم زنا نہیں کریں گی چوری نہیں کریں گی ، شرک نہیں کریں گی، تو ہندہ بے اختیار بول اٹھی اور کہنے لگی یا رسول اللہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی۔ آپؐ اکیلے تھے اور ہم سارا عرب آپ کے مخالف تھے۔ آپ نے توحید کی تعلیم دینی شروع کی اور ہم نے ۳۶۰ دیوتاؤں کی تائید کرنی شروع کی مگر باوجود اس کے کہ سارا عرب آپ کے مارنے پر تلا ہوا تھا۔ آپؐ اکیلے خدا کے ساتھ جیت گئے اور ہم اپنے ۳۶۰ دیوتاؤں کے ساتھ ہار گئے کیا اس کے بعد بھی ہم شرک کر سکتی ہیں۔وہ چونکہ آپ کی رشتہ دار تھی اس لئے آپ نے اس کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا ہندہ ہے؟ وہ عورت بڑی دلیر تھی اس نے کہا : یا رسول اللہ! اب آپ کا مجھ پر کوئی اختیار نہیں اب میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکی ہوں اور خدا تعالیٰ کی پناہ میں آچکی ہوں اور مسلمان ہونے کی وجہ [سے] میرے سارے پچھلے گناہ معاف ہو چکے ہیں کیونکہ اسلام انسان کے سارے پچھلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اب آپ مجھے میرے کسی پچھلے گناہ کی وجہ سے سزا نہیں دے سکتے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا تم ٹھیک کہتی ہو۔ تو دیکھو وہ عورت جو تو حید کی اتنی مخالف تھی کہ مسلمان شہیدوں کے کلیجے دوسروں سے چروا کر کچا چبانے کے لئے تیار ہو جاتی تھی وہ کہتی ہے کہ ہم ایسے بیوقوف تھوڑے ہیں کہ باوجود یہ نمونہ دیکھنے کے کہ آپ اکیلے خدا کے ساتھ غالب آگئے اور ہمارے ۳۶۰ دیوتا با وجود ساری طاقت اور قوت کے اور باوجود سارے عرب کی مجموعی تائید کے ہار گئے پھر بھی ہم شرک کریں گی اب اس کے بعد توحید کا کون انکار کر سکتا ہے۔ تو دیکھو رسول کریمﷺ کی صداقت کا یہ کس قدر ز بر دست نشان تھا کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں ہی دیکھ لیا کہ توحید اور اسلام کے شدید ترین دشمن کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے اور پھر انہوں نے قربانیوں کے ایسے شاندار نمونے دکھائے کہ ان کی مثال دنیا کے پردہ پر نہیں ملتی۔وہی ہندہ جو ایک وقت میں کفار کو اکسایا کرتی تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کر و حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اس کا خاوند ابو سفیان اور اس کا بیٹا یزید حضرت ابو عبیدہ ؓکی امارت میں ایک لڑائی میں شامل ہوئے۔ رومیوں کے ساتھ بڑی سخت لڑائی ہوئی اور ایک وقت ایسا آیا جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ مسلمانوں نے اپنی سواریوں کو روکنے کی بڑی کوشش کی مگر وہ نہ رکیں آخر وہ پیچھے کی طرف دوڑ پڑے۔ جب سپاہی پیچھے کی طرف آرہے تھے تو ہندہ نے مسلمان عورتوں سے کہا کہ آج مردوں کے قدم اکھڑ گئے ہیں اب وقت ہے کہ عورتیں اپنی بہادری دکھائیں۔ انہوں نے کہا ہم کس طرح مقابلہ کریں ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں۔ اس نے کہا خیموں کی طنابیں کاٹ دو اور ان کے بانس نکال لو اور بھاگتی ہوئی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر انہیں پیچھے کی طرف موڑو۔ چنانچہ اس نے خود ایک طناب کاٹ دی اور بانس لے کر عورتوں کے آگے آگے مسلمانوں کے لشکر کی طرف بڑھی۔ ابو سفیان اور اس کا بیٹا یزید بھی بھاگے ہوئے آ رہے تھے اس نے ان کی سواریوں کے مونہوں پر بانس مار کر کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ ایک لمبے عرصہ تک تو تم لوگوں نے اسلام کے خلاف لڑائیاں کیں اب اسلام کی خاطر لڑائی کرنے کا موقع آیا ہے تو تم دشمن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر پیچھے کی طرف بھاگ پڑے ہو۔ ابوسفیان نے یزید سے کہا بیٹا واپس چلو دشمن کے تیروں سے زیادہ سخت ان عورتوں کے ڈنڈے ہیں۔ چنانچہ اسلامی لشکر واپس ہوا اور اس نے دشمن کے لشکر پر فتح پائی۔
تو دیکھو اسلام لانے کے بعد ان لوگوں میں خدا تعالیٰ نے کیسا تغیر پیدا کر دیا کہ وہی ہندہ جو مسلمانوں کے خلاف مشرکین کو ابھارا کرتی تھی اور اسلام کی شدید دشمن تھی ، اسلام کی خاطر لوگوں کو ابھارنے لگی اور اس نے اپنے خاوند اور اپنے بیٹے کی سواریوں کے مونہوں پر ڈنڈے مار کر انہیں واپس لوٹا دیا۔
تو میں رؤیا میں اس مجمع کو جو میں وہاں دیکھتا ہوں کہتا ہوں کہ اپنے ہاتھوں میں اسلام کے سیاہ جھنڈے لے کر باہر نکل جاؤ۔ اور جس طرح پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے اسلام کے جھنڈے دنیا کے ہر کونہ میں لہرا دیئے تھے اسی طرح تم بھی اسلام کے جھنڈے دنیا کے تمام کونوں میں لہرا دو۔ گویا یہ رؤیا میری پہلی رؤیا کی ایک تشریح ہے۔
یہ کام ہے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ تم اس کام کو جلد سے جلد پورا کرو اور اسلام کو دنیا کے کونہ کو نہ میں پھیلا دو۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وقف جدید کی تحریک پر ابھی بہت کم وقت گذرا ہے مگر وہ نتائج جو اب تک وقف جدید کے نکلنے چاہئیں تھے ان کا ہزارواں حصہ بھی نہیں نکلا۔ ہم تو یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ لوگ جو نہایت قربانی اور اخلاص سے آگے بڑھے ہیں ان کی باتوں میں اور ان کے کام میں اس قدر برکت ہوگی کہ وہ رشد و اصلاح اور تعلیم کے کام کو مہینوں میں لاکھوں اور کروڑوں افراد تک پہنچا دیں گے مگر اب تک اس تحریک کے شاندار نتائج نکلتے نظر نہیں آتے لیکن اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتیں حاصل ہیں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اس کو پورا کر سکتا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ ہماری حقیر کوششوں کو بار آور کرے اور ہماری پیدائش کی غرض اور سلسلہ احمدیہ کے قیام کی غرض کو ہمارے ہاتھوں سے جلد سے جلد پورا کرے اور ہم اسلام کے جھنڈے دنیا کے کناروں تک گاڑ دیں تا کہ قیامت کے دن ہم بھی سرخرو ہوں اور رسول کریم ﷺ بھی سارے نبیوں کے سامنے اپنا سینہ تان کر اپنی فضیلت اور برتری کا اظہار فرمائیں اور ان سے کہیں کہ دیکھو تمہاری قوموں نے تو شرک سے ساری دنیا کو بھر دیا تھا مگر میری قوم نے ہر جگہ توحید کا جھنڈا گاڑ دیا اور لوگوں کو خدائے واحد کے آستانہ پر لا ڈالا۔ اگر ایسا ہو جائے تو یہ ہماری انتہائی خوش قسمتی ہوگی اور اس کی وجہ سے ہم قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکتے ہیں۔(الفضل ۲۹؍ اپریل ۱۹۵۸ء )