صبر اور استقلال کے بغیر انسان دعاؤں کا فیض نہیں اٹھا سکتا
کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ والسلام
یادرکھوکوئی آدمی کبھی دُعاسے فیض نہیں اُٹھاسکتا جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دُعاؤں میں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتو ں اور ارادوں کا مالک تصور کرے۔ یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا ا و ر اسے جوا ب دے گا۔جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں، وہ کبھی بد نصیب اور محرو م نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں۔ خدا تعا لیٰ کی قد رتیں اور طا قتیں بے شما ر ہیں۔ اس نے انسانی تکمیل کے لیے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے۔ پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چا ہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لیے بد ل دے۔وہ گویا اللہ تعا لیٰ کی جنا ب میں گستا خی کر تا اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے۔ پھر یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کا م ہوجائیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعا لیٰ کا کیا بگا ڑے گا۔ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہا ں جائے گا۔
میں ان با تو ں کو کبھی نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہا نیاں ہیںکہ فلا ں فقیر نے پھو نک ما ر کر یہ بنا دیا اور وہ کر دیا۔ یہ اللہ تعا لیٰ کی سنت اور قرآن شریف کے خلا ف ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔
ہر امر کے فیصلہ کے لیے معیا ر قرآن ہے۔ دیکھو حضرت یعقو ب علیہ السلا م کا پیا را بیٹا یو سف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان سے الگ ہو گیا تو آپؑ چالیس برس تک اس کے لیے دعا ئیں کرتے رہے۔اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا۔ چالیس برس تک دُعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دُعائیں کھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تویوسف کو بے فائدہ یاد کرتاہے۔ مگر اُنھوں نے یہی کہاکہ میں خداسے وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ۔بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی، مگر یہ کہا اِنِّیۡ لَاَجِدُ رِیۡحَ یُوۡسُفَ(یوسف:۹۵)۔
(ملفوظات جلد۲ صفحہ ۱۵۱-۱۵۲، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)