بنیادی مسائل کے جوابات (قسط نمبر۶۷)
٭… کیا خلیفہ سے کسی معاملہ میں اختلاف رائے رکھی جاسکتی ہے؟
٭…قرآن کریم میں آلِ فرعون کے لیے اتنے شدید عذاب کا ذکر کیوں ملتا ہےنیز
آلِ فرعون سے مراد فرعون کی نسل ہے یا اسرائیلی قوم؟
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف وقتوں میں اپنے مکتوبات اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں میں بنیادی مسائل کے بارہ میں جو ارشادات مبارکہ فرماتے ہیں، ان میں سے کچھ افادۂ عام کے لیےالفضل انٹرنیشنل میں شائع کیے جا رہے ہیں۔
سوال: مصر سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ میری ایک احمدی کے ساتھ جنّوں کے بارہ میں لمبی بات ہوئی اور میں نے اسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک حوالہ دیا۔ اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے کلام میں فرق کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ ایک احمدی کسی معاملہ میں خلیفہ سے اختلاف رائے رکھ سکتا ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی واضح ارشاد ہو تو اس کا وہ پابند ہے۔راہنمائی فرمائیں کہ مجھے اس کا کیا جواب دینا چاہیے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۷؍ستمبر۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات ارشاد فرمائیں۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب: اس بات میں تو کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ خدا تعالیٰ کے تمام انبیاء واجب الاطاعت ہوتے ہیں اور ان کی کامل اتباع سے ہی روحانی ترقی اور اخروی نجات وابستہ ہوتی ہے اور ان کی نافرمانی اس دنیا میں بھی انسان کےلیے رسوائی کا باعث ہوتی ہے اور اخروی زندگی میں بھی دائمی عذاب اس کا مقدر ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد مرتبہ اور مختلف پیرایوں میں بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ۔(سورۃالنساء:۶۵) یعنی ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔فرمایا وَمَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا وَلَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ۔(النساء:۱۵)یعنی جو (شخص) اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (مقرر کردہ) حدوں سے آگے نکل جائے اسے وہ آگ میں داخل کرے گا جس میں وہ ایک لمبے عرصہ تک رہتا چلا جائے گا اور اس کےلیے رسوا کرنے والا عذاب (مقدر) ہے۔اسی طرح فرمایا۔ وَمَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّلَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِھِمۡؕ وَمَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیۡنً۔(سورۃ الاحزاب:۳۷)یعنی کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کےلیے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کر دیں تو اپنے معاملہ میں اُن کو فیصلہ کا اختیار باقی رہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ بہت کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا ہوتا ہے۔
اسی طرح احادیث میں بھی بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ رسولﷺنے نہ صرف دینی معاملات میں بلکہ دنیوی معاملات میں بھی حضورﷺکی کامل پیروی کی یہاں تک کہ بعض دنیاوی معاملات میں حضورﷺکو یہ فرمانا پڑا کہ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل بَاب وُجُوبِ امْتِثَالِ مَا قَالَهُ شَرْعًا دُونَ مَا ذَكَرَهُ مِنْ مَعَايِشِ الدُّنْيَا عَلَى سَبِيلِ الرَّأْيِ) یعنی تم اپنے دنیوی معاملات کو میری نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبیاء کی اطاعت کو خدا تعالیٰ کی حقیقی فرمانبرداری اور مدار نجات قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:یہ مسلم اور بدیہی امر ہے کہ خدا کے احکام سے تخلّف کرنا معصیّت اور موجب دخول جہنم ہے اور اس مقام میں جس طرح خدا اپنی اطاعت کےلیے حکم فرماتا ہے ایسا ہی رسول کی اطاعت کےلیے حکم فرماتا ہے۔ سو جو شخص اس کے حکم سے منہ پھیرتا ہے وہ ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا جہنم ہے… جو شخص محض اپنی خشک توحید پر بھروسہ کر کے(جو دراصل وہ توحید بھی نہیں) رسول سے اپنے تئیں مستغنی سمجھتا ہے اور رسول سے قطع تعلق کرتا ہے اور اس سے بالکل اپنے تئیں علیحدہ کر دیتا ہے اور گستاخی سے قدم آگے رکھتا ہے۔ وہ خدا کا نافرمان ہے اور نجات سے بے نصیب…خدا نے اپنی ذات پر ایمان لانا رسولوں پر ایمان لانے سے وابستہ کیا ہے۔ اس میں راز یہ ہے کہ انسان میں توحید قبول کرنے کی استعداد اس آگ کی طرح رکھی گئی ہے جو پتھر میں مخفی ہوتی ہے۔ اور رسول کا وجود چقماق کی طرح ہے جو اس پتھر پر ضرب توجہ لگا کر اس آگ کو باہر نکالتا ہے۔ پس ہر گز ممکن نہیں کہ بغیر رسول کی چقماق کے توحید کی آگ کسی دل میں پیدا ہو سکے توحید کو صرف رسول زمین پر لاتا ہے اور اُسی کی معرفت یہ حاصل ہوتی ہے۔ خدا مخفی ہے اور وہ اپنا چہرہ رسول کے ذریعہ دکھلاتا ہے۔ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۲۸ اور ۱۳۱)
فرمایا: ایک مامور کی اطاعت اس طرح ہو نی چا ہیے کہ اگر ایک حکم کسی کو دیاجاوے تو خواہ اس کے مقابلہ پر دشمن کیسا ہی لا لچ اور طمع کیو ں نہ دیوے یا کیسی ہی عجز اورانکساری اور خوشا مد درآمد کیو ں نہ کرے مگر اس حکم پر ان با توں میں سے کسی کو بھی تر جیح نہ دینی چا ہیے اور کبھی اس کی طرف التفات نہ کرنی چا ہیے… صحابہ کرام کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہ ملے گا کہ اگر کسی کو ایک دفعہ اشارہ بھی کیا گیا ہے تو پھر خواہ بادشا ہ وقت نے ہی کتنا ہی زور کیوں نہ لگا یا مگر اس نے سوائے اس اشارہ کے اَور کسی کی کچھ ما نی ہو۔
اطاعت پوری ہو تو ہدایت پوری ہو تی ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو خوب سن لینا چا ہیے اور خدا سے توفیق طلب کر نی چا ہیے کہ ہم سے کو ئی ایسی حر کت نہ ہو۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۰۰ ایڈیشن ۲۰۲۲ء)
پس نبی کی اطاعت ایمان کا لازمی جزو ہے اور اس کے بغیر انسان نہ تو خدا تعالیٰ کی توحید کو سمجھ سکتا ہے اور نہ حقیقی نجات پا سکتا ہے۔
باقی جہاں تک انبیاء کے جانشین خلفاء کی اطاعت کی بات ہے تو دینی معاملات میں ان کی اطاعت بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح انبیاء کی اطاعت ضروری ہے۔ اسی لیے حضورﷺ نے اپنی امت کو بڑے واضح الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّينَ عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ۔(سنن ابن ماجہ کتاب المقدمۃ بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ) کہتم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کی سنت کو لازم پکڑ لینا اور اسے مضبوطی اور صبر کے ساتھ تھامے رکھنا۔اسی طرح حضورﷺنے فرمایا إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا۔(صحیح بخاری کتاب الصلاۃ بَاب الصَّلَاةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ)کہ امام اسی لیے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو۔
قابل غور بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد اس امام کے بارہ میں ہے جسےنماز کےلیے خود انسان اپنا امام بناتے ہیں۔ اور جس شخص کو انبیاء کی جانشینی میں خدا تعالیٰ لوگوں کا امام بناتا ہے اس کی کس درجہ کی اطاعت ہونی چاہیے؟چنانچہ خلیفہ راشد کی اطاعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:تمہاری حالت اپنے امام کے ہاتھ میں ایسی ہو جیسے میّت غسّال کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ تمہارے تمام ارادے اور خواہشیں مردہ ہوں اور تم اپنے آپ کو امام کے ساتھ ایسا وابستہ کرو جیسے گاڑیاں انجن کے ساتھ۔ اور پھر ہر روز دیکھو کہ ظلمت سے نکلتے ہو یا نہیں۔ (خطبات نورصفحہ ۱۳۱)
اس مضمون کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ کیا نبی کے جانشین خلیفہ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلیفہ بھی ایک انسان ہی ہوتا ہے اور لازمی نہیں کہ دینی و دنیوی ہر معاملہ میں اس کی ہر رائے سو فیصد درست ہو اور جیسے اوپر وضاحت کی جا چکی ہے کہ آنحضورﷺنے بھی صحابہ ؓکو فرمایا کہ تم اپنے دنیوی معاملات بہتر طور پر جانتے ہو۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ فَإِذَا نَسِيْتُ فَذَكِّرُوْنِي۔(صحیح بخاری کتاب الصلاۃ بَاب التَّوَجُّهِ نَحْوَ الْقِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ) کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں اور جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول سکتا ہوں، اس لیے اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کروا دیا کرو۔پس بالکل اسی طرح اگر کسی معاملہ میں خلیفہ سے کسی کو اختلاف رائے ہو تو ایمان اور دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ جس بات میں اختلاف ہے پہلے اس بات کو خلیفہ کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اس کی تشریح کر کے اختلاف کو دُور کر سکے۔ لیکن کسی کو اس اختلاف کو لوگوں میں مشتہر کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس سے جماعتی وحدت کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اسی قسم کے ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ایک اور خیال مجھے بتایا گیا ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیفہ سے چونکہ اختلاف جائز ہے اس لیے ہمیں ان سے فلاں فلاں بات میں اختلاف ہے۔ میں نے ہی پہلے اس بات کو پیش کیا تھا اور میں اب بھی پیش کرتا ہوں کہ خلیفہ سے اختلاف جائز ہے۔ مگر ہر بات کا ایک مفہوم ہوتا ہے۔ اس سے بڑھنا دانائی اور عقلمندی کی علامت نہیں ہے۔ دیکھو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ڈاکٹر کی ہر رائے درست ہوتی ہے، ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر بیسیوں دفعہ غلطی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے کوئی یہ نہیں کہتا کہ چونکہ ڈاکٹر کی رائے بھی غلط ہوتی ہے اس لیے ہم اپنا نسخہ آپ تجویزکریں گے، کیوں؟ اس لیے کہ ڈاکٹر نے ڈاکٹری کا کام باقاعدہ طور پر سیکھا ہے اور اس کی رائے ہم سے اعلیٰ ہے۔ اسی طرح وکیل بیسیوں دفعہ غلطی کر جاتے ہیں مگر مقدمات میں انہی کی رائے کو وقعت دی جاتی ہے۔ اور جو شخص کوئی کام زیادہ جانتا ہے اس میں اس کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے۔ پس اختلاف کی بھی کوئی حد بندی ہونی چاہیے۔ ایک شخص جو خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے اُسے سمجھنا چاہیے کہ خلفاء خدا مقرر کرتا ہے اور خلیفہ کا کام دن رات لوگوں کی راہنمائی اور دینی مسائل میں غور وفکر ہوتا ہے۔ اس کی رائے کا دینی مسائل میں احترام ضروری ہے اور اس کی رائے سے اختلاف اُسی وقت جائز ہو سکتا ہے جب اختلاف کرنے والے کو ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہو جائے کہ جو بات وہ کہتا ہے وہی درست ہے۔ پھر یہ بھی شرط ہے کہ پہلے وہ اس اختلاف کو خلیفہ کے سامنے پیش کرے اور بتائے کہ فلاں بات کے متعلق مجھے یہ شبہ ہے اور خلیفہ سے وہ شبہ دُور کرائے۔ جس طرح ڈاکٹر کو بھی مریض کہہ دیا کرتا ہے کہ مجھے یہ تکلیف ہے آپ بیماری کے متعلق مزید غور کریں۔ پس اختلاف کرنے والے کا فرض ہے کہ جس بات میں اُسے اختلاف ہو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے نہ کہ خود ہی اس کی اشاعت شروع کردے۔ ورنہ اگر یہ بات جائز قرار دی جائے کہ جو بات کسی کے دل میں آئے وہی بیان کرنی شروع کر دے تو پھر اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہے۔ کیونکہ ہر شخص میں صحیح فیصلہ کی طاقت نہیں ہوتی۔ ورنہ قرآن شریف میں یہ نہ آتا کہ جب امن یا خوف کی کوئی بات سنو تو اُولِی الْاَمْرِ کے پاس لے جاؤ۔(النساء:۸۴) کیا اُولِی الْاَمْرِ غلطی نہیں کرتے؟ کرتے ہیں مگر ان کی رائے کو احترام بخشا گیا ہے اور جب ان کی رائے کا احترام کیا گیا ہے تو خلفاء کی رائے کا احترام کیوں نہ ہو؟ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ ہر بات کے متعلق صحیح نتیجہ پر پہنچ سکے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص تقویٰ کےلیے سَو بیویاں بھی کرے تو اس کےلیے جائز ہیں۔ ایک شخص نے یہ بات سن کر دوسرے لوگوں میں آ کر بیان کیا کہ اب چار بیویاں کرنے کی حد نہ رہی سَو تک انسان کر سکتا ہے اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دی ہے۔ آپؑ سے جب پوچھا گیا تو آپؑ نے فرمایا میری تو اِس سے یہ مراد تھی کہ اگر کسی کی بیویاں مرتی جائیں تو خواہ اُس کی عمر کوئی ہو تقویٰ کےلیے شادیاں کر سکتا ہے۔
پس ہر شخص ہر بات کو صحیح طو رپر نہیں سمجھ سکتا اور جماعت کے اتحاد کےلیے ضروری ہے کہ اگر کسی کو کسی بات میں اختلاف ہو تو اُسے خلیفہ کے سامنے پیش کرے۔ اگر کوئی شخص اس طرح نہیں کرتا اور اختلاف کو اپنے دل میں جگہ دےکر عام لوگوں میں پھیلاتا ہے تو وہ بغاوت کرتا ہے اسے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ (منہاج الطالبین، انوارالعلوم جلد ۹صفحہ ۱۶۳،۱۶۲)
باقی جنّوں کے بارہ میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میرا ایک مفصل جواب الفضل انٹرنیشنل اور الحکم لندن میں شائع ہو چکا ہے۔اس کا عربی ترجمہ آپ کو بھجوا رہا ہوں، اسے دیکھ لیں۔
سوال: فرانس سے ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ قرآنی آیات وَحَاقَ بِاٰلِ فِرۡعَوۡنَ سُوۡٓءُ الۡعَذَابِ۔اَلنَّارُ یُعۡرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاوَیَوۡمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ اَدۡخِلُوۡۤا اٰلَ فِرۡعَوۡنَ اَشَدَّ الۡعَذَابِ۔(المومن:۴۷،۴۶)یعنی آل فرعون کو بہت بُرے عذاب نے گھیر لیا۔ آگ، جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت برپا ہوگی (کہا جائے گا کہ) آلِ فرعون کو سخت ترین عذاب میں جھونک دو۔کی روشنی میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ آل فرعون کےلیے اتنا شدید عذاب کیوں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تو بہت وسیع ہے۔کیا کوئی خاص جرم تھا جو آل فرعون سے اس زمانہ میں ہوا اور آج تک وراثت کے طور پر ہو رہا ہے۔ نیز آل فرعون سے مراد فرعون کی ذریت اور نسل ہے یا اسرائیلی قوم مراد ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۶؍ ستمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَیَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ۔(النساء:۱۱۷) یعنی اللہ اس (گناہ) کو ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کا (کسی کو) شریک بنایا جائے اور جو (گناہ) اس سے ادنیٰ ہوگا (اسے) جس کے حق میں چاہے گا معاف کر دے گا اور جو شخص (کسی کو) اللہ کا شریک بنائے تو (سمجھو کہ) وہ (سیدھے راستہ سے) بہت دُور جا پڑا۔اسی طرح فرمایا کہ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ۔(سورۃ لقمان:۳۱)یعنی یقیناً شرک ایک بہت بڑا ظلم ہے۔
فرعون کا جرم یہ تھا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ شرک کیا بلکہ خدائی کا دعویٰ بھی کیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کر کےبہت بڑا گناہ کیا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرعون اور اُس کی اُس آل کو جو اُس زمانہ میں اُس کی معاون و مددگار تھی اور اُس کی ان برائیوں میں پوری طرح اس کے ساتھ شامل تھی اس کے متعلق یہ انذار فرمایا ہےجس کا سورۃ المومن میں ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات چونکہ صرف ایک مخصوص زمانہ کےلیے نہیں بلکہ قیامت تک کےلیے رہبرو راہنما ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ بھی بتا دیا کہ آئندہ زمانہ میں بھی جو لوگ ان برائیوں میں فرعونیت اختیار کریں گے اور فرعون کے نقش قدم پر چلیں گے وہ بھی آل فرعون ہی ہوں گے اور وہ بھی اسی عذاب کا مزا چکھیں گے۔ اسی لیے قرآن کریم نے یہاں فرعون کی بجائے آل فرعون کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔
لیکن جو لوگ ان برائیوں سے خود کو بچا کر ہدایت پا جائیں گے وہ خواہ فرعون کی حقیقی آل ہوں یا اس کے متبعین میں سے ہوں، اللہ تعالیٰ ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ چنانچہ خود فرعون کے دربار میں بھی ایک ایسا شخص موجود تھا جو فرعون اور اس کے ساتھیوں کو حق کو ماننے اور حضرت موسیٰ کی مخالفت سے باز رہنے کی نصیحت کرتا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائیں۔ قرآن کریم نے اس شخص کو مومن بھی کہا ہے اور اسے مِنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ بھی قرار دیا ہے۔ اس واقعہ کوسورۃالمومن کی آیات ۲۹ تا ۳۴ میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ آل فرعون میں سے ایک شخص جو ایمان دار تھا، مگر اپنا ایمان چھپاتا تھا اس نے کہا اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے مارتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے نشانات بھی لایا ہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا اور اگر وہ سچا ہے تو اس کی کی ہوئی بعض (انذاری) پیشگوئیاں تمہارے متعلق پوری ہو جائیں گی۔ اللہ حد سے بڑھے ہوئے اور بہت جھوٹ بولنے والے کو کبھی کامیاب نہیں کرتا۔اے میری قوم! آج تمہاری ایسی حکومت ہے کہ تم ملک پر غالب ہو، پس بتاؤ کہ اللہ کے عذاب کے مقابلہ میں اگر وہ ہم پر نازل ہو گیا تو ہماری مدد کون کرے گا؟ فرعون نے کہا، میں تمہیں وہی بتاتا ہوں جو خود مجھے ٹھیک نظر آتا ہے اور میں تمہیں صرف ہدایت کا راستہ بتاتا ہوں۔اور وہ شخص جو (درحقیقت) ایمان لا چکا تھا اس نے کہا کہ اے میری قوم! گزشتہ بڑی بڑی قوموں کی ہلاکت کے دن کی طرح میں تمہاری ہلاکت کے دن سے بھی ڈرتا ہوں۔جیسا کہ نوح کی قوم اور عاد اور ثمود پر گذرا۔ اور جو لوگ ان کے بعد گذرے۔ اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرنا چاہتا۔اور اے میری قوم! میں تم پر اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن لوگ ایک دوسرے کو مدد کےلیے پکاریں گے۔جس دن تم پیٹھ پھیر کر (خدائی لشکروں کے سامنے سے) بھاگ جاؤ گے اور اللہ کے مقابلہ میں کوئی تم کو بچانے والا نہیں ہوگا اور جس کو اللہ گمراہ قرار دے اس کو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔
پس خدا تعالیٰ نہ تو بلا وجہ کسی کو سزا دیتا ہےا ور نہ شرک جیسا عظیم ظلم کرنے والا اس کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرعون اور آل فرعون کےلیے جو اس گناہ عظیم میں مبتلا تھے یا آئندہ زمانہ میں فرعون کے نقش قدم پر چل کر اس کی آل بننے والے تھے ان کےلیے یہ سخت انذار فرمایا ہے۔