اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال پورا پورا لوٹایا جائے گا
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۹؍ جنوری۲۰۰۴ء)
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ(آل عمران:۹۳)حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو دو بڑی تحریکات جاری فرمائی تھیں ان میں سے ایک وقف جدید کی تحریک ہے۔ وقف جدید کا سال یکم جنوری سے شروع ہوتاہے اور ۱ ۳؍دسمبر کو ختم ہوتاہے اور ۳۱؍دسمبر کے بعد کے خطبے میں عموماً وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتاہے اور خطبہ جمعہ میں عموماً جماعت نے جو سال کے دوران مالی قربانی کی ہوتی ہے اس کا ذکر ہوتاہے۔
۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھوں جاری کردہ یہ تحریک زیادہ تر پاکستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتی تھی یا کچھ حد تک ہندوستان میں۔ ۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمام دنیا میں جاری فرما دیا اور بیرونی جماعتوں نے بھی اس کے بعد بڑھ چڑ ھ کر اس تحریک میں حصہ لینا شروع کیا اور قربانیاں دیں۔ آج کے جمعہ سے پہلے بھی ایک جمعہ گزر چکاہے اس مہینہ میں لیکن چونکہ مختلف ممالک سے رپورٹس آنی ہوتی ہیں تاکہ جائزہ پیش کیا جاسکے اس لئے گزشتہ جمعہ میں اس کا اعلان نہیں ہوا آج اس کا اعلان کیا جائے گا انشاء اللہ۔ لیکن اس جائزے اور اعلان کرنے سے پہلے مَیں مالی قربانیوں کے ضمن میں کچھ عرض کروں گا۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تم ہرگز نیکی کو پا نہیں سکو گے یہاں تک کہ تم اُن چیزوں میں سے خرچ کرو جن سے تم محبت کرتے ہو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو یقیناً اللہ اس کو خوب جانتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے اس کی تفسیر بیان کی ہے۔ فرمایا : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۔
قرآن کریم میں سورہ بقرہ میں جہاں پہلا رکوع شروع ہوتاہے وہاں متقی کی نسبت فرمایا ہے وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ یعنی جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ تو پہلے رکوع کا ذکر ہے۔ پھر اسی سورہ میں کئی جگہ انفاق فی سبیل اللہ کی بڑی بڑی تاکیدیں آئی ہیں۔ … پس تم حقیقی نیکی نہیں پاسکو گے جب تک تم مال سے خرچ نہیں کروگے۔ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے معنے میرے نزدیک مال ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ(العادیات :۹) انسان کو مال بہت پیاراہے۔ پس حقیقی نیکی پانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز مال میں سے خرچ کرتے رہو۔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ؍و۸؍جولائی ۱۹۰۹ء بحوالہ حقائق الفرقان جلد اول صفحہ۵۰۰، ۵۰۱)
ایک روایت ہے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے رب کے حوالے سے یہ حدیث بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’اے آدم کے بیٹے! تُو اپنا خزانہ میرے پاس جمع کرکے مطمئن ہو جا، نہ آگ لگنے کا خطرہ، نہ پانی میں ڈوبنے کا اندیشہ اور نہ کسی چورکی چوری کا ڈر۔ میرے پاس رکھا گیا خزانہ مَیں پورا تجھے دوں گا اس دن جبکہ تو اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوگا‘‘۔ (طبرانی)
دیکھیں کتنا سستا سودا ہے۔ آج اس طرح خزانے جمع کروانے کا کسی کو ادراک ہے، شعور ہے تو صرف احمدی کوہے۔ وہ جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم کو سمجھتاہے کہ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(البقرہ :۲۷۲) تو اللہ تعالیٰ فرماتاہے، اللہ میاں کے دینے کے بھی کیا طریقے ہیں کہ جو اچھا مال بھی تم اس کی راہ میں خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا لوٹائے گا۔ بلکہ دوسری جگہ فرمایا کہ کئی گنا بڑھا کر لوٹایا جائے گا۔ تم سمجھتے ہوکہ پتہ نہیں اس کا بدلہ ملے بھی کہ نہ ملے۔ فرمایا: اس کا بدلہ تمہیں ضرور ملے گا بلکہ اس وقت ملے گا جب تمہیں اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہوگی، تم اس کے سب سے زیاہ محتاج ہوگے۔ اس لئے یہ وہم دل سے نکال دو کہ تم پر کوئی ظلم ہوگا۔ ہرگز ہرگز تم پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ لوگ دنیا میں رقم رکھنے سے ڈرتے ہیں۔ بینک میں بھی رکھتے ہیں تو اس سوچ میں پڑے رہتے ہیں کہ بینکوں کی پالیسی بدل نہ جائے۔ منافع بھی میرا کم نہ ہوجائے۔ اور بڑی بڑ ی رقوم ہیں۔ کہیں یہ تحقیق شروع نہ ہوجائے کہ رقم آئی کہاں سے۔ اور فکر اور خوف اس لئے دامن گیر رہتاہے، اس لئے ہروقت فکر رہتی ہے کہ یہ جو رقم ہوتی ہے دنیا داروں کی صاف ستھری رقم نہیں ہوتی، پاک رقم نہیں ہوتی بلکہ اکثر اس میں یہی ہوتاہے کہ غلط طریقے سے کمایا ہوا مال ہے۔ گھروں میں رکھتے ہیں تو فکر کہ کوئی چور چوری نہ کر لے، ڈاکہ نہ پڑجائے۔ پھر بعض لوگ سود پر قرض دینے والے ہیں۔ کئی سو روپے سود پر قرض دے رہے ہوتے ہیں۔ لیکن چین پھر بھی نہیں ہوتا۔ سندھ میں ایک ایسے ہی شخص کے بارہ میں مجھے کسی نے بتایاکہ غریب اور بھوکے لوگوں کو جو قحط سالی ہوتی ہے۔ لوگ بیچارے آتے ہیں اپنے ساتھ زیور وغیرہ، سونا وغیرہ لاتے ہیں، ایسے سودخوروں سے رقم لے لیتے ہیں، اپنے کھانے پینے کا انتظام کر نے کے لئے اور اس پہ سود پھر اس حد تک زیادہ ہوتاہے کہ وہ قرض واپس ہی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ سود اتارنا ہی مشکل ہوتاہے، سود در سود چڑھ رہاہوتاہے۔ تواس طرح وہ سونا جو ہے یا زیور جوہے وہ اس قرض دینے والے کی ملکیت بنتا چلا جاتاہے۔ تو ایک ایسا ہی سود خور تھا اور فکر یہ تھی کہ مَیں نے بینک میں بھی نہیں رکھنا۔ تو اپنے گھر میں ہی، اپنے کمرے میں ایک گڑھا کھود کے وہیں اپنا سیف رکھ کے، تجوری میں سارا کچھ رکھا کرتا تھا۔ اور چالیس پچاس کلو تک اس کے پاس سونا اکٹھا ہوگیا تھا۔ اوراس کے اوپر اپنا پلنگ بچھا کر سویا کرتا تھا، خطرے کے پیش نظر کہ کوئی لے ہی نہ جائے۔ اور سونا کیاتھا کیونکہ سونے کے اوپر تو چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ ساری رات جاگتاہی رہتاتھا۔ اسی فکرمیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ فوت ہوگیا۔ تو وہ مال تو اس کے کسی کام نہ آیا۔ اب اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ کیا کرنا ہے وہ تو اللہ ہی بہتر جانتاہے۔ لیکن ایسے لوگوں کی ضمانت خداتعالیٰ بہرحال نہیں دے رہا جب کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی ضمانت ہے کہ تمہیں کیا پتہ تم سے کیا کیا اعمال سرزد ہونے ہیں، کیا کیا غلطیاں اور کوتاہیاں ہو جانی ہیں۔ لیکن اگرتم نیک نیتی سے اس کی راہ میں خرچ کروگے تو یہ ضمانت ہے کہ اعمال کے پلڑے میں جوبھی کمی رہ جائے گی توچونکہ تم نے اللہ کی را ہ میں خرچ کیا ہوگا تو کبھی نہیں ہو سکتاکہ تم پرظلم ہو، اس وقت کمیوں کو اسی طرح پورا کیا جائے گا اور کبھی ظلم نہیں ہوگا۔
اس بارہ میں ایک اور روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’قیامت کے دن حساب کتاب ختم ہونے تک انفاق فی سبیل اللہ کرنے والا اللہ کی راہ میں خرچ کئے ہوئے اپنے مال کے سایہ میں رہے گا‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۱۴۸)