صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از کتب مذاہب عالم
خدا خود جبر و استبداد کو برباد کر دے گا
وہ ہر سُو احمدی ہی احمدی آباد کر دے گا
صداقت میرے آقا کی زمانے پر عیاں ہو گی
جہاں میں احمدیت کامیاب و کامراں ہو گی
آنحضرتﷺ چونکہ ساری دنیا کی تمام قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے اس لیے آپ کی غلامی میں آنے والے مسیح ومہدی کا پیغام بھی ساری دنیا کے تمام مذاہب کے لیے ہے اور درحقیقت جو پیشگوئیاں کسی بھی مذہب میں آخری زمانہ میں کسی آسمانی مصلح کے بارے میں پائی جاتی ہیں ان تمام پیشگوئیوں کے مصداق حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ السلام کا مبارک وجودہے۔ اس حوالے سے جب ہم ان مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر وہ پیشگوئیاں پوری ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
یہودی مذہب کی پیشگوئی
دانیال نبی کی کتاب میں بڑی واضح پیشگوئی ہے کہ ’’اے دانی ایل تو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بندوسربمہر رہیں گی اور بہت لوگ پاک کئے جائیں گے اور صاف و براق ہوںگے لیکن شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں کوئی نہ سمجھے گا پر دانش ور سمجھیں گے اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اجاڑنے والی مکر وہ چیز نصب کی جائے گی۔ ایک ہزار دو سو نوے دن ہوںگے مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتا ہے”(دانی ایل باب ۱۲ آیات ۹ تا ۱۲)
یادر ہے یہودا پنی تعلیم کے مطابق سوختنی قربانی کے پابند تھے جو ہیکل کے آگے بکرے ذبح کر کے آگ میں جلاتے تھے۔ اس قربانی پرعمل درآمد، کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر آنحضرت کے زمانے میں یہود نے ترک کر دیا تھا اور وہ مکروہات میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اسی زمانہ میں اسلامی قربانیاں جو حج بیت اللہ میں کی جاتی ہیں جاری ہوئیں جو دراصل انہی سوختنی قربانیوں کی قائم مقام تھیں۔ مگر فرق یہ تھا کہ انہیں جلانے کا حکم نہیں تھا۔ بہر حال اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق اس زمانے کے ۱۲۹۰ سال بعد موعود اقوام عالم نے آنا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک ۱۲۹۰ ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ ومخاطبہ پا چکا تھا‘‘(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۰۸)
عیسائی مذہب کی پیشگوئی یوحنا نبی کا مکاشفہ
انجیل کی آخری کتاب جو یوحنا کے مکاشفہ پرمبنی ہے میں ان کا ایک لمبا کشف درج ہے جو تعبیر طلب ہے۔ اس کشف میں دراصل اسلام اور احمدیت کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے۔ مثلاً لکھا ہے ’’وہ ٹاٹ اوڑھے ہوئے ایک ہزار دوسو ساٹھ دن نبوت کر یں گے‘‘ (مکاشفہ باب ۱۱ آیت ۳)
اس میں اشارہ ہے کہ اسلامی سلطنت کا زمانہ ۱۲۶۰ ہجری تک رہے گا۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ واقعۃً اس وقت اسلامی سلطنت اپنے آخری سانس لے رہی تھی اور پھر کلیۃً ختم کر دی گئی۔ اسی مکاشفہ میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن دجال کے قید ہونے اور آزاد ہونے کا واضح ذکر ہے۔ لکھا ہے:“اور پھر میں نے ایک فرشتہ کو آسمان پر سے اترتے دیکھا جس کے ہاتھ میں اتھاہ کی کنجی اور ایک طڑی زنجیر تھی اس نے اس اژ دہا یعنی پرانے سانپ کو جو ابلیس اور شیطان ہے پکڑ کر ہزار برس کے لیے باندھا اور اسے اتھاہ گڑھے میں ڈال کر بند کر دیا اور اس پر مہر کر دی تا کہ وہ ہزار برس کے پورے ہونے تک قوموں کو پھر گمراہ نہ کرے اس کے بعد ضرور ہے کہ تھوڑے عرصہ کے لیے کھولا جائے‘‘( مکاشفہ باب ۲۰ آیت ۱ تا۳ )
احادیث میں بھی صحابی رسول حضرت تمیم داریؓ کے مکاشفہ کا ذکر ہے جس میں انہوں نے دجال کو ایک گرجے میں زنجیروں کے ساتھ جکڑے ہوئے قیدی کی شکل میں دیکھا اور آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ بالآخر اسے آزاد کر دیا جائے گا۔ اور وہ دنیا میں فتنہ برپا کر دے گا اور بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنائے گا تب اس کے مقابلہ کے لیے مسیح موعود ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق دجال یعنی عیسائی قومیں ایک ہزار سال تک قید میں رہیں یعنی خاموش رہیں۔ پھر ان کا خروج ہوا اور مندرجہ بالا مکاشفہ کے مطابق دواڑھائی سو سالوں میں انہوں نے عروج حاصل کرنا تھا اور انہوں نے اسلامی سلطنت کو ختم کر دینا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ تیرھویں صدی تھی جس میں عیسائیت پوری طاقت کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہوئی اور اسی صدی میں موعود اقوام عالم اور کا سرصلیب نے پیدا ہوکر اس فتنہ کا مقابلہ کرنا تھا۔
کھل گئے یاجوج اور ماجوج کے لشکر تمام
چشم مسلم دیکھ لے تفسیر حرف ینسلون
حضرت مسیح علیہ السلام کی پیشگوئی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوادیکھو [یعنی دجال کو]…اورفوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قوتیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی اور وہ نر سنگے کی بڑی آواز کے ساتھ فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کر یں گے‘‘( متی باب ۲۴ آیات ۱۵، ۲۹ تا ۳۱)
اتنی وضاحت کے ساتھ آنے والے موعود اقوام عالم کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس میں ایک عظیم الشان آسمانی نشان چاند وسورج گرہن کا ذکر ہے جو ۱۸۹۴ء میں پورا ہوا۔ اس میں ستاروں کا آسمان سے گرنے کا بھی نشان بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ ۲۸؍ نومبر۱۸۸۵ء کی شب کو آسمان پر شہب ثاقبہ کا یہ غیر معمولی نظارہ نمودار ہوا اس وقت آسمان کی فضاء میں ہر طرف اس درجہ بے شمار شعلے چل رہے تھے کہ گویا ان کی بارش ہورہی تھی۔ یورپ، امریکہ اور ایشیا میں اس سے حیرت کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی اور اخباروں میں اس کی خبر نمایاں رنگ میں شائع ہوئی۔ جیسا کہ حضرت مسیح نے اشارہ فرمایا تھا یہ تصویری زبان میں اس امر کا اظہار تھا کہ آسمانی قوتیں اسلامی انقلاب کے لیے ہلا دی گئیں ہیں اور اب خدائی افواج سپہ سالار کی قیادت میں کفر اور باطل کے قلعوں پر حملہ آور ہونے والی ہیں۔ ( ماخوذآئینہ کمالات،روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۱۱۰تا ۱۱۱)
ہندو اور سکھ مذہب میں ایک اوتار کی آمد کے متعلق پیشگوئیاں
دیگر مذاہب کی طرح ہندو دھرم میں بھی مذہبی بگاڑ کے وقت دھرم کی حفاظت اور امامت کے لیے ایک مصلح کے ظہور کی پیشگوئی ہے۔ بھگوت گیتا صفحہ ۳۰ ادھیائے نمبر ۴۰ میں لکھا ہے: ’’جب کبھی دھرم کا اناش ( بگاڑ ) ہونے لگتا ہے اور آدھرم (لا مذہبیت) کی زیادتی ہونے لگتی ہے تب میں اوتار دھارن ( ظہور ) کیا کرتا ہوں۔ نیکیوں کی حفاظت۔ تروں کی سرکوبی اور دھرم کی امامت کے لیے میں اوتارلیا کرتا ہوں
نیز لکھا ہے:’’سو ہے راجہکلجگکے اخیر میں بہت سے پاپ ہوتے رہیں گے۔ تو نارائن جی خود دھرم کی رکھشا ( حفاظت)کی خاطر سنبھل دیش میں کلنکی اوتار دھارن کر یں گے۔‘‘ (شریمد بھگوت گیتا بارھواں اسکندصفحہ۶۲۳)
ہندوؤں کی مقدس کتب میں آنے والے موعود کرشن کا زمانہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ پنڈت راج نرائن جی ارمان دہلی کھٹ شاستری نے اپنی تحقیقات کے بعد یہاں تک لکھا کہ ’’اب سے پانچ ہزار سال پہلے بھگوان کرشن کا ظہور ہوا تھا۔ ان سے بڑا اوتار نہ آئندہ ہو گا اور نہ آج تک ہوا ہے۔ ان کے بعد اب تک کئی جماعتیں ظاہر ہوئیں لیکن اب ۱۹۲۴ء میں وہی بھگوان کرشن نے پھر اس پاپی دنیا کوٹھیک کرنے کے لیے اوتارلیا ہے مجھے اس کا گیان جب میں دہلی میں تھا وہ ماہ بیساکھ شکل پکش پرتی بدایوم اتوار کی رات کی سمادھی ( عالم مراقبہ) ہوا تھا کہ کل بھگوان کرشن ہی کلنکی نام اور روپ سے اقمار لینے والے ہیں۔( چیتاؤنی ۲۰۱)
پھران کے ظہور کی آخری تاریخ یکم اگست ۱۹۴۳ء مقرر فرمائی ہے۔( چیتاؤنی صفحہ ۸)
آنے والے موعود کا نام
وید کی عظیم الشان پیشگوئیوں میں آنے والے رشی کا نام احمد بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے :احمد فی الحقیقت عقل کے ساتھ اپنے روحانی باپ کی لائی ہوئی صداقت کو پکڑے گا اور وہ یہ کہے گا کہ اے لوگو! اس صداقت کے باعث میں تم میں سورج جیسا پیدا ہوا ہوں اور اسی اپنے روحانی باپ کی تعلیم سے میں اپنے اقوال کو مزین کرتا ہوں جس سے کہ میں خود بھی طاقت حاصل کرتا ہوں ( اتھر ویدسوکت نمبر ۱۱۵ منتر نمبر ۱)
آنے والے موعود کے ظہور کی جگہ
پیشگوئیوں میں اس رشی کے ظہور کا مقام اور جگہ بھی بیان کر دی ہے چنانچہ لکھا ہے: اس کے حیرت انگیز کاموں کے باعث اس کی شہرت کو کون نہیں سنے گا یعنی سب سنیں گے اور اس کی بہادری دکھانے کا مقام قد ون ہوگا۔ ( اتھروید سوکت نمبر ۹۷ منتر نمبر ۳)
اسی طرح کرشن کے مقام ظہور کے بارے میں لکھا ہے روحانیت سے منور کر نے والا دنیا کو اور لوگوں کی خوشی کے لیے خوددکھ اٹھانے والا وہ کرشن بہت سے آدمیوں کے ساتھ حد والی ندی کے پاس ٹھہرے گا (انتھر ویدسوکت نمبر ۱۳۷ منتر نمبر ۷)
سوکت کے اس منتر میں اس موعود کا مقام ظہور ندی کے پاس بتا یا گیا ہے اور جگہ حد والی ندی سے مراد دریائے بیاس ہے جو کہ ضلع گورداس پور اور ہوشیار پور میں واقع ہے۔اوپر کے منتروں پر نظر ڈالنے سے یہ پتا چلتا ہے کہ آنے والا رشی قدون بستی میں آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا اور وہ کسی نبی کا تابع اور نائب ہوگا۔ اور بات وہ صاف لفظوں میں کہے گا کہ میری اپنی کوئی شریعت نہیں بلکہ میں تو اس بڑے رشی کی تعلیم کو پیش کرتا ہوں جس کا میں نائب ہوں اور اسی اعلیٰ تعلیم کے باعث میں سورج کی طرح منور کرنے والا ہو گیا ہوں اور اس کا پیغام دور دور تک پہنچے گا۔
سکھ مذہب میں اوتار کی آمد
حضرت بابا گرونانکؒ نے بھی اس اوتار کا مقام ظہور ہندوستان بتایا ہے۔ چنانچہ ان کے مرید بھائی بالا جنم سا کھی بھی لکھتے ہیں : مردانے پچھیا گُرو جی ! بھگت کبیر جیہیا کوئی ہور وی ہوسی۔ تاں گروں جی نے آ کھیا اک جٹیٹا ہوسی مردانے پچھایا۔ جی کیڑی تھائیں تے کیڑے ملک وچ ہو سی تاں گرو جی نے آکھیا۔ بٹالے دے پر گنے وچ ہوسی سن مردانیا نرنکاردے دے بھگت سارے روپ ہوندے ہن پر او بھگت کبیر نالوں وڈاہوسی (جنم ساکھی بڑی صفحہ ۲۱۵) یعنی مردانے، نے جوگر و نا نک کا مرید تھا گرونا نک سے پوچھا کہ گرو جی! بھگت کبیر سے بھی بڑا کوئی کبیر پیدا ہو گا جس پر گرونانک نے کہا کہ ایک زمیندار پیدا ہوگا مردانے نے پھر پوچھا کہ مہاراج وہ بھگت کہاں پیدا ہوگا۔ گرو نا نک نے جواب دیا کہ وہ بھگت بٹالے کے علاقہ میں پیدا ہوگا مردانے غور سے سنوں نجات کے بھگت تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن وہ بھگت کبیر سے بڑا ہو گا۔
پیشگوئیوں کا مصداق
ان پیشگوئیوں کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں جنہوں نے خدا کی طرف سے کرشن ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور خدا نے آپ کو احمد کے نام سے پکارا ہے اور جن کا وطن ہندوستان اور بستی قادیان ہے اور جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ میں نے جو کچھ بھی پایا ہے اپنے آقامحمدﷺ کی پیروی سے پایا ہے اور آپ ہی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ’’میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ میں ان گناہوں کے دور کرنے کے لئے جن سے زمین پُر ہوگئی ہے جیسا کہ مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہوں ویسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے ایک بڑا اوتار تھا۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ روحانی حقیقت کی رو سے میں وہی ہوں۔ یہ میرے خیال اور قیاس سے نہیں ہے بلکہ وہ خدا جوزمین و آسمان کا خدا ہے اُس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہےاور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تو ہندوؤں کے لئےکرشن اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔’’(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۲۸)
اسی طرح حضرت مرزاغلام احمد علیہ السلام کو الہاماً فرمایا یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ یعنی اے احمد اللہ تعالیٰ نے تجھ میں برکت رکھی ہے۔(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۷۳)
پھر آپؑ ہی ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ میں نے جو کچھ پایا وہ اپنے آقا محمد ﷺ کی پیروی سے پایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں
وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے
حرف آخر
سینکڑوں اور ہزاروں سال کے غلط مگر راسخ عقیدے کو لاکھوں انسانوں کے دلوں سے دور کر کے ان کو صحیح عقیدے پر قائم کرد ینا تائید الٰہی کے بغیر ہرگزممکن نہیں اور یہ حضرت مسیح موعوؑد کا وہ مہتم بالشان کارنامہ ہے کہ اگر آپ صرف اسی بنا پر یہ فرماتے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے اور جس مسیح کے آنے کی خبر دی گئی تھی وہ مسیح میں ہوں تو بھی نہایت صحیح اور برمحل اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اس ارشاد کی طرح بالکل بدرست ہوتا جو آپؑ نے ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کا مطالبہ کرنے والے یہود سے فرمایا تھا کہ ایلیا تو نازل ہو گیا پر تمہیں خبر نہیں ہوئی۔ وہ ایلیا یوحنا ہے۔ مگر حضرت اقدس علیہ السلام کے مسیح موعود ہونے پر تو بفضلہ تعالیٰ اور بھی بکثرت دلائل موجود ہیں اور آپ نے بفضلہ تعالیٰ وہ تمام عظیم الشان کام کسر صلیب اور قتل خنزیر اور مذاہب عالم پر دلائل و براہین کی رُو سے اظہار غلبہ اسلام باحسن وجوہ انجام دے دیے ہیں جو احادیث نبویہؐ میں خاص طور پر مسیح موعود و مہدی معہود کے کام بتائے گئے ہیں۔
پس سید الاولین والآخرین خاتم النبیین شفیع المذنبین محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی امت میں مسیح موعود ومہدی معہود کے ظہور کی جو پیشگوئی فرمائی تھی وہ حضور پرنورؐ کے خاص غلام حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود باوجود میں پوری ہوگئی ہے۔ اس پیشگوئی سے لاکھوں درجہ بڑھ کر صفائی کے ساتھ پوری ہوئی جو ملا کی نبی نے ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی نسبت کی تھی۔
تمام مسلمانوں اور آنحضرت ﷺ کی محبت اور پیروی کا دم بھرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے معاملہ میں وہ روش اختیار نہ کریں جو یہود نے اپنے موعود مسیحؑ کے معاملہ میں اختیار کی تھی بلکہ اس عارفانہ طرز سے فائدہ اٹھائیں جو حضرت مسیحؑ نے یہود کے جواب میں اختیار فرمایا تھا اور اپنے پیارے نبی کریم ﷺ کے اس مبارک ارشاد پرعمل کر یں جو حضور نے یہود و نصاری کی پیروی سے بچنے کےلیے فرمایا تھا۔ مبارک ہیں وہ جو آنحضرت ﷺ کے موعود مسیح کو قبول کریں جس کا راستہ مسیح ایلیا نبی کے آسمان سے نازل ہونے کی حقیقت ظاہر کر کے صاف کر چکے ہیں اور وہ ایسی حقیقت ہے جس کو مسلمان تیرہ سو برس سے بھی زیادہ مدت سے مانتے آئے ہیں۔اور جس کو مانے بغیر حضرت مسیح سچے نبی نہیں مانے جاسکتے۔
مبارک ہیں وہ لوگ جو حضرت مسیح موعودؑ کوقبول کریں اور آپ کی جماعت میں شامل ہوکر اکناف عالم میں خدمت اسلام بجالانے کا اہم فریضہ ادا کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ کے حضور میں سرخروئی حاصل کریں۔ اور جو آپ کو قبول نہ کریں گے اور انکار پر مصر رہیں گے وہ اپنے خیال میں مسیح موعودؑ کو آسمان سے نازل ہوتے ہوئے ہر گز نہیں دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو دنیا میں پھیلائے گا اور اسے فوق العادت برکات دے گا اور اسے دنیا کے باقی تمام مذاہب پر غلبہ عطا فرمائے گا۔
اب میں اپنے اس مضمون کوسید نا حضرت اقدس مسیح موعود کی اس عظیم الشان پیشگوئی پر ختم کرتا ہوں جو حضورؑ نے اپنی مشہور عالم کتاب تذکرۃ الشہادتین مطبوعہ ۱۹۰۳ء میں درج فرمائی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں : ’’اے تمام لوگو سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین وآسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور بر ہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشےگا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیامیں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائی گی۔اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھانہیں کیا گیا پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جا تا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (یٰس:۳۳۱)
پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جا تا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اس کے ساتھ ہوں اس سے کون ٹھٹھا کرے گا۔ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اتر نامحض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰ ابن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر اولاد کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰؑ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کر نے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت ناامید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سومیرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘( تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۶۔۶۷)