ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء کے ایام کے چند واقعات۔ حصہ ششم)
ایک نوجوان مبلغ کے گھر کا دورہ
ایک روز قبل محمد جری اللہ خان صاحب نے، جوجامعہ احمدیہ یو کے سے فارغ التحصیل ہیں اور ان دنوں اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ جرمنی کے طور پر خدمت بجا لا رہے ہیں، حضورِانور سے درخواست کی کہ بیت السبوح کے احاطے میں ان کے فلیٹ پر تشریف لائیں۔ نہایت شفقت سے حضورِانور نے جری اللہ صاحب کی دعوت کو قبول فرمایا اور اس شام ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کی فیملی کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ بعد ازاں موصوف نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارے لیے بہت سعادت کی بات ہے کہ حضورِانور ہمارے گھر پر تشریف لائے اور ہم اس سعادت اور نعمت پر کبھی بھی شکر ادا کرنے کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
جر ی اللہ صاحب نے مزید بتایا کہ الحمدللہ، ہمیں حضورِانور کو اپنا گھر دکھانے کا موقع ملا اور اس کو ملاحظہ فرمانے کے بعد حضورِانور نے فرمایا کہ ہمارا فلیٹ اس رہائش گاہ سے کہیں بہتر حالت میں ہے جس میں حضور افریقہ میں مقیم رہے۔ یہ الفاظ سن کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا۔
موصوف نے مزید بتایا کہ حضورِانور کے ہمارے گھر تشریف لانے سے قبل میں نے آپ [خاکسار]سے اور محمد احمد صاحب سے پوچھا تھا کہ حضورِانور کون سے کیک پسند فرماتے ہیں؟ اس پرآپ دونوں نے بتایا کہ حضور انور پنیر سے بنے کیک کو پسند فرماتے ہیں۔ ہم نے چند مختلف اقسام کے کیک تیار کر رکھے تھے لیکن حضورِانور نے صرف پنیر سے بنے کیک ہی پسندفرمائے۔ اس کے علاوہ ہم نے سموسے، پکوڑے اور دیگر مزیدار چیزیں پیش کیں اور حضورِانور نے ازراہِ شفقت ہر چیز سے کچھ نہ کچھ تناول فرمایا۔
لندن واپس پہنچنے پر خاکسار نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کی کہ میں نے جرمنی میں بہت مزیدار سموسہ کھایا تھا۔ یہ سماعت فرمانے پر حضورِانور نے فرمایا کہ جو سموسہ میں نے جری اللہ کے گھر میں کھایا تھا وہ بھی بہت اچھا تھا۔
یقینی طور پر جری اللہ اور ان کی فیملی کےلیےحضورانور کا ان کے گھر تشریف لے جانا بے حد جذباتی کر دینے والا تھا۔ موصوف نے بتایا کہ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ روحانی دنیا کے بادشاہ حضورانور نے اپنی تشریف آوری سے ہمارے غریب خانے کو اعزاز بخشا۔ ہم اس سعادت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
چند منٹوں کے بعد حضور انور، جری اللہ کے گھر سے باہر تشریف لائے اور بیت السبوح کے اس حصے میں داخل ہوئے جہاں خاکسار اور مکرم مبارک ظفر صاحب ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ اس کو دیکھنے پر حضورِانور نے فرمایا: تم نے اپنے کمرے کو خوب سجایا ہوا ہے۔میرا خیال ہے کہ حضورِانور کے تبصرے سے یہ مراد تھی کہ کمرہ صاف ستھرا تھا۔ الحمد للہ
لجنہ اماء اللہ کے لیے پیغام
جب حضورِانور سیڑھیوں سے مسجد کی طرف تشریف لا رہے تھےتو لجنہ اماء اللہ جرمنی کے دفاتر کے پاس سے گزرے جہاں لجنہ اماء اللہ کی بعض ممبرات موجود تھیں۔ حضورِانور کو دیکھنے پر یہ خواتین بہت خوش اور جذباتی ہو گئیں۔ اور ایک ممبر لجنہ اماءاللہ نے عرض کی کہ حضور!برائے کرم ہمیں کوئی ہدایات یا پیغام سے نوازیں۔
چلتے چلتے حضورِانور نے فرمایا کہ میں نے پہلے ہی بہت سی ہدایات دی ہوئی ہیں اس لیے میرا پیغام یہی ہے کہ لجنہ کو اپنے فرائض بہترین طریق پر ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
لجنہ ممبرات کا جمعہ ادا نہ کر سکنا
۹؍ستمبر۲۰۱۶ء کو حضورِانور نے خطبہ جمعہ مسجد بیت السبوح سے ارشاد فرمایا۔ حضورِانور کے مسجد میں تشریف لانے سے چند منٹ قبل مکرم امیر صاحب جرمنی نے وہاں موجود احمدی احباب کو مخاطب کر کے بتایا کہ کونسل کی پابندیوں کی وجہ سے بیت العافیت جو لجنہ اماء اللہ اور انصار اللہ کی بلڈنگ ہے اور بیت السبوح کے بالمقابل ہے وہ ۲۰۱۵ء کی طرح جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے استعمال نہ ہو سکے گی۔ اس لیے جماعت جرمنی نے یہ فیصلہ کیا ہےکہ لجنہ ممبرات سے درخواست کی جائے کہ وہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے جمعہ کی ادائیگی کے لیے تشریف نہ لائیں۔
بعد ازاں حضورِانور نے اس فیصلہ کے بارے میں خطبہ جمعہ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ جماعت کو گذشتہ سال کے دوران کونسل کے ساتھ مل کر مسائل کو حل کرنا چاہیے تھا۔ نہایت پُر شوکت انداز میں حضورِانور نے فرمایا: آپ کو سستی ترک کرنی چاہیے اور اپنے فرائض ادا کرنے چاہئیں۔
حضورِانور کے الفاظ اور انداز سے واضح تھا کہ حضور ممبرات لجنہ کے خطبہ جمعہ میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے ناراض تھے اور آپ کے نزدیک جماعتی انتظامیہ کی سستی کی وجہ سے وہ اس سعادت سے محروم رہی ہیں۔
ایک احمدی فیملی کے جذبات
اس دن کچھ دیر بعد حضورِانور نے دورہ جرمنی میں قیام کی آخری شام درجنوں احمدی فیملیز کو ملاقات کا شرف بخشا۔ حضورِانور سے اپنی زندگی کی پہلی ملاقات کے بارے میں اپنے شوہر کے ساتھ موجود صدیقہ اسلم صاحبہ نے بتایا کہ حضورِانور ایک فرشتے کی طرح ہیں جو شفقت اور محبت سے پُر ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجھے اداسی بھی تھی کیونکہ حضورِانور صبح واپس تشریف لے جا رہے ہیں جس پر ہماری زندگیوں میں خلا سا محسوس ہوگا اور ہمارے دلوں میں غم بھر جائے گا۔
صدیقہ صاحبہ نے مزید بتایا کہ یہ میرا خواب ہے کہ حضرت آپا جان (حضورِانور کی اہلیہ محترمہ )کی کچھ خدمت کر سکوں کیونکہ آپ ہر روز اس وجود کا خیال رکھتی ہیں جن کو ہم اپنے والدین سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔ صدیقہ صاحبہ نے بتایا کہ عابد صاحب آپ سے ملاقات بھی میری دعاؤں کی قبولیت کا ثمرہ ہے کیونکہ میں نے گذشتہ سال آپ کی ایک ڈائری پڑھی تھی جس میں آپ نے لکھا تھا کہ اس ڈائری کی اشاعت سے قبل حضورِانور اس کو ملاحظہ فرماتے ہیں۔ اس وقت سے یہ دعا کرتی تھی کہ میں آپ کو مل سکوں اور حضورِانور سے اپنی محبت کا اظہار آپ کی ڈائری کے ذریعہ کر سکوں تاکہ میرے خلیفہ میرے لیے اور میری فیملی کے لیے دعا کریں۔
یہ سننا نہایت دلچسپی کا باعث تھا کیونکہ جب صدیقہ صاحبہ اور ان کے شوہر ملاقات کے بعد باہر نکلے تو میں کسی اَور کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھا۔ میں بالعموم گفتگو درمیان میں ختم نہیں کرتا لیکن کسی وجہ سے جب میں نے ان کو دیکھا تو پہلی گفتگو سے معذرت کر لی اور لقمان صاحب اور ان کی اہلیہ سے ملنے کے لیے آ گیا۔
ایک افسوسناک حادثہ
۱۰؍ ستمبر ۲۰۱۶ء کو حضورِانور اور قافلہ ممبران مسجدبیت السبوح سے روانہ ہوئے جہاں سینکڑوں مقامی احمدی صبح دس بج کر پانچ منٹ پر حضورِانور کو الوداع کہنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ فرنکفرٹ سے نکلنے کے کچھ دیر بعد ہی مجھے لندن سے ایک دوست کی طرف سے پیغام موصول ہوا کہ اٹلی میں جامعہ احمدیہ یو کے، کے ہائیکنگ گروپ کو ایک حادثہ پیش آگیا ہے۔ اس پیغام میں لکھا تھا کہ جامعہ احمدیہ یو کے، کے ایک طالب علم رضا سلیم جو سلیم ظفر صاحب کے بیٹے تھے، جو کئی سال سے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں خدمت میں بجا لارہے ہیں، کی گرنے کے باعث وفات ہوگئی ہے۔ اس پیغام کے اختتام پر لکھا تھا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا اور صبح کا یہ وقت بےتابی میں گزرا کیونکہ میں تفصیلی معلومات کے حصول میں مصروف رہا۔ ابتدا میں جو پیغامات واٹس ایپ پر گردش کر رہے تھے ان میں سے اکثر درست نہ تھے۔
قافلہ کا سفر جاری رہا یہاں تک کہ ہم ایک سروس سٹیشن پر دو بجے نماز اور کھانے کے لیے رکے۔جونہی میں اپنی گاڑی سے باہر نکلا اور حضورِانور کی سمت دیکھا تو فوراً یہ احساس ہو گیا کہ حضورِانور شدید تکلیف میں اور مغموم ہیں۔ کھانے کے وقفے کے دوران پورے قافلہ پر اداسی چھائی رہی۔ جب حضورِانور سروس سٹیشن پر نماز کی امامت کے لیے تشریف لائے تو آپ نے ایک منٹ کا توقّف فرمایا اورامیر صاحب جرمنی سے رضا سلیم کے حوالے سے گفتگو فرمائی۔ حضورِانور نے فرمایا: رضا بہت مخلص،محنتی اور جاں نثار لڑکا تھا۔
بعد ازاں حضورِانور نے نماز ظہر اور عصر کی امامت فرمائی اور ہر سجدہ معمول کےسجدوں سے زیادہ طویل تھا۔ خدا بہتر جانتا ہے لیکن دل میں مجھے یقین تھا کہ ان سجدوں کی دعائیں رضا سلیم اور اس کے عزیز ، رشتہ داروں اور ان کے لیے تھیں جو اس کے ساتھ اس حادثہ کے موقع پر موجود تھے۔
یہ بات تو واضح تھی کہ حضورِانور کو رضا سلیم کی اچانک وفات کی خبر سن کر بہت زیادہ افسوس اور دکھ ہوا۔ مجھے اس بات کا اندازہ اگلے دن بھی ہوا جب میں حضورِانور سے لندن میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ملاقات کے دوران حضورِانور نے فرمایا کہ کل تو سارا دن ہی رضا کا چہرہ دماغ میں گھومتا رہا۔
میں نے حضورِانور سے زیادہ کسی کو اپنے جذبات پر قابو پانے والا نہیں دیکھا ۔ آپ کے تبصرے سے رضا (مرحوم)کے لیے آپ کی محبت واضح تھی۔ یہ بات ہر اس شخص کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہو گی جس نے اس حادثہ کے چند روز بعدحضورِانور کا خطبہ جمعہ سنا ہو گا جس میں حضور نے رضا کو نہایت خوبصورت الفاظ میں خراجِ تحسین پیش فرمایا۔
یہ خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانور نے خاکسار کو فرمایا کہ عام طور پر میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں ہونے دیتا تاہم آج خطبہ کے دوران جب میں نے رضا کی وفات پر اس کی والدہ کے ردّعمل کا ذکر کیا تو میری آواز بھرا گئی اور میرے لیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا۔ اس لیے مجھے چند لمحات کے لیے رکنا پڑا۔یہاں تک کہ میں نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا۔
ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ حضور کسی نوجوان کا ایسی محبت سے ذکر فرمائیں۔ میں ذاتی طور پر رضا کو بہت اچھی طرح نہیں جانتا تھا۔ میری اس سے چند ملاقاتیں ہوئی تھیں جن میں مَیں نے اس کو نہایت حلیم الطبع اور عاجز پایا۔ تاہم لاکھوں دیگر احمدیوں کی طرح مجھے اس کی شخصیت سے حقیقی تعارف حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ سے ہوا۔
( ڈائری جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۱۶ء حصہ دوم)
(مترجم:’ابو سلطان‘معاونت :مظفرہ ثروت)