قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو
یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کے تیس سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ مگر مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔ دعا کومضبوطی سے پکڑ لو۔ میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتاہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا۔
(ملفوظات جلد۴صفحہ ۱۴۹ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
اصل یہی ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں سکھایا ہے جب تک مسلمان قرآن شریف کے پورے متبع اور پابند نہیں ہوتے وہ کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے ۔جس قدر وہ قرآن شریف سے دُور جا رہے ہیں اسی قدر وہ ترقی کے مدارج اور راہوں سے دور جا رہے ہیں۔ قرآن شریف پر عمل ہی ترقی اور ہدایت کا موجب ہے۔
(ملفوظات جلد ۴صفحہ۳۷۹،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
دل کی اگر سختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لیے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی با ر بار پڑھے۔ جہاں جہاں دعا ہو تی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمتِ الٰہی میرے بھی شامل حال ہو۔ قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے۔ پھر آگے چل کراَور قسم کا چنتا ہے۔ پس چاہیے کہ ہر ایک مقام کے مناسبِ حال فائدہ اٹھاوے۔
(ملفوظات جلد ۶صفحہ ۲۶۶ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
قرآن شریف پر تدبّر کرو اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بہ تازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی تعلیم اس زمانہ کے حسبِ حال ہو توہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآنِ مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہرمرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے۔ اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔
(ملفوظات جلد۹صفحہ ۱۲۲ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)