مومنوں کے روحانی وجود کی پہلی حالت خشوع اور رقّت اور سوزوگداز کی ہے
اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقّت اور سوزوگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے۔ یعنی گدازش اور رقّت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجل کی طرف دل کوجھکانا جیسا کہ اِس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ۔ یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نمازوں میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میںفروتنی اور عجزونیاز اختیار کرتے ہیں۔ اور رقّت اور سوزوگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں…وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نماز میں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے اور نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔ اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرضِ خطر میں ہے جب تک کہ رِحم سے تعلق نہ پکڑےایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے۔ یاد رہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسّط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیضِ رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱صفحہ ۱۸۸-۱۸۹)
نماز کا التزام اور پابندی بڑی ضروری چیز ہے تا کہ اوّلاً وہ ایک عادتِ راسخہ کی طرح قائم ہواور رجوع اِلی اللہ کا خیال ہو۔پھر رفتہ رفتہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ انقطاع کُلّی کی حالت میں انسان ایک نور اور ایک لذت کا وارث ہو جاتا ہے۔
(ملفوظات جلد۹ صفحہ۱۱، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)