ایک مومن دیکھے کہ ایک سال میں کیا کھویا کیا پایا
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتےہیں کہ
ہم مسلمان تو قمری سال سے بھی سال شروع کرتے ہیں اور شمسی سال سے بھی۔ یہ قمری سال صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہے بلکہ بہت سی قوموں میں پرانے زمانے میں قمری سال سے ہی سال شروع کیا جاتا تھا۔ چینیوں میں بھی یہ رواج ہے، ہندوؤں میں بھی ہے اَور قوموں میں بھی ہے۔ بہت سے مذہبوں میں پایا جاتا ہے۔ اور اسلام سے پہلے عرب میں بھی دنوں کے حساب کے لئے قمری کیلنڈر ہی رائج تھا۔ بہرحال دنیا میں عام طور پر یہ گریگورئین کیلنڈر رائج ہے اور سب اس کو سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر قوم اور ہر ملک نے اس کیلنڈر کو اپنے دن اور مہینوں کے حساب کے لئے اپنا لیا ہے تو اسی وجہ سے دنیا میں ہر سال ہر جگہ اس کے حساب سے یکم جنوری سے سال شروع ہوتا ہے اور 31؍دسمبر کو ختم ہوتا ہے۔ بہرحال سال آتے ہیں، بارہ مہینے گزرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں چاہے قمری مہینے کے سال ہوں یا یہ جو رائج کیلنڈر ہے گریگورئین کیلنڈر اس کے سال ہوں۔ لیکن دنیا والے چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہیں یا غیر مسلموں میں سے دنوں اور مہینوں اور سالوں کو دنیاوی غُل غپاڑے اور ہاؤ ہُو اور دنیاوی تسکین کے کاموں میں گزار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ …دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لئے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہئے۔ … ایک مومن نے دنیاوی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ اس سال میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کی دنیاوی حالت میں کیا بہتری پیدا ہوئی یا دینی لحاظ سے اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا اور اگر دینی اور روحانی لحاظ سے دیکھنا ہے تو کس معیار پر رکھ کر دیکھنا ہے تا کہ پتا چلے کہ کیا کھویا اور کیا پایا۔
(خطبہ جمعہ 30؍ دسمبر 2016ء)
(مشکل الفاظ کے معانی: قمری سال، شمسی سال، گریگورئین کیلنڈر: تفصیل کے لیے دیکھیے آخری صفحہ۔
غُل غَپاڑَہ:شور غوغا ، چیخ پکار، ہاؤ ہُو:شور، پکار، ہاہو)