ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل (معدہ کے متعلق نمبر۹) (قسط ۵۲)
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ’’ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل ‘‘کی ریپرٹری یعنی ادویہ کی ترتیب بلحاظ علامات تیار کردہ THHRI)
ہیڈی اوما
Hedeoma
سر میں صبح کے وقت بھاری پن یا ایسا درد جیسے کسی نے زخم لگا دیا ہو۔ کمزوری زیادہ جسے لیٹے رہنے سے آرام آتا ہے۔ معدہ میں سوزش اور زودحسی، ہر چیز کھانے یا پینے سے معدہ میں درد، زبان پر سفیدی، متلی اور ہواؤں سے پیٹ پھولا ہوا اور دکھتا ہوا۔ (صفحہ۴۲۵)
ہیلی بورس نائیگر
Helleborus niger
(Snow rose)
بھوک پیاس ہونے کے باوجود کچھ کھا پی نہیں سکتا۔ غذا کی نالی میں جلن ہوتی ہے۔ پیٹ میں ہوا اور گڑگڑاہٹ، معدہ کے مقام پر دباؤ اور چلتے ہوئے یا کھانستے ہوئے معدہ میں درد ہوتا ہے۔ (صفحہ ۴۳۲)
ہیپر سلفیورس کلکیریم
Hepar sulphuruis calcareum
(Calcium sulphide)
ہیپر سلف پھیپھڑوں، انتڑیوں یا کسی اور جگہ دق کے ظاہر ہونے والے اثرات میں بھی مفید دوا ہے۔ دق کی علامات چاہے جسم کے کسی حصہ پر ظاہر ہوں یا اندرونی نظام پر اثر کریں، ہیپر سلف دونوں جگہ کام کرے گی۔(صفحہ ۴۴۱)
ہیپر سلف اور اور نائیٹرک ایسڈ دونوں اس لحاظ سے ہم مزاج ہیں کہ ان میں چھوٹے چھوٹے زخم علیحدہ علیحدہ بھی پائے جاتے ہیں اور گچھوں کی صورت میں بھی جو ایک طرف سے شروع ہوکر پھیلنے لگتے ہیں۔یہ دونوں دوائیں انتڑیوں کے السر میں بھی مفید ہوسکتی ہیں۔مرکری بھی انتڑیوں کے اس قسم کے زخموں میں ان دونوں دواؤں سے مشابہ ہے۔(صفحہ۴۴۱)
ہائیڈراسٹس
Hydrastis
(Golden seal)
ہائیڈراسٹس چونکہ جگر کی بیماریوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے اس لیے بھوک پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ایک عجیب سی علامت یہ ہے کہ معدہ میں بھوک کی گہری کھرچن اور نقاہت کا احساس ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی کھانے سے سخت نفرت ہوجاتی ہے حالانکہ متلی نہیں ہوتی۔ (صفحہ ۴۴۷)
بواسیر جو لمبا عرصہ چلے اور مزمن ہوجائے اس میں بھی یہ مفید ہے۔پیٹ میں بہت ہوا بنتی ہے۔ پیشاب بہت کم اور بدبوار ہوتا ہے۔ (صفحہ ۴۴۸)
مریض قبض کا شکار رہتا ہے۔ پیٹ کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے جو رفع حاجت کے بعد زیادہ ہوجاتا ہے۔ معدہ میں دکھن کا احساس ہوتا ہے نظام ہضم بہت کمزور پڑ جاتا ہے۔ منہ کا مزہ کڑوا اور زبان سفید ہوجاتی ہے۔ (صفحہ ۴۴۹)
ہائیڈو سائینک ایسڈ
Hydrocyanic acid
بعض مریضوں میں کھانا کھاتے ہی پیٹ میں درد شروع ہوجاتا ہے اور بعض کو کھانا کھانے سے پہلے درد ہوتا ہے۔ ہائیڈروسائینک ایسڈ کے دائرے میں وہ مریض آتے ہیں جن کو خالی پیٹ رہنے سے پیٹ میں تشنجی درد ہوتا ہے۔ معدے میں شدید کمزوری کا احساس ہوتا ہے جیسے معدہ ڈوب رہا ہو۔ کھانا کھانے سے معدہ میں گڑگڑاہٹ کی آواز آتی ہے۔(صفحہ۴۵۴)
ہائیو سمس
Hyoscyamus
(Henbane)
بعض دفعہ بخار کی حالت میں مریض کو دندل پڑ جاتے ہیں اور منہ خشک اور بدبو دار ہوجاتا ہے۔ زبان سرخ یا بھوری، خشک اور کٹی پھٹی ہوتی ہے۔بعض دفعہ زبان پر سے کنٹرول اٹھ جاتا ہے یا کم ہوجاتا ہے۔ اس لیے مریض بولتے بولتے فالج زدہ کی طرح رک رک کر بولتا ہے، زبان بے حس بھی ہوجاتی ہے اور کھانا کھاتے ہوئے مریض کی زبان کٹ جاتی ہے۔ اگر معدے کی خرابی کی وجہ سے یہ علامات پیدا ہوں تو اس میں پلسٹیلا اور کاربوویج بھی مفید ہے۔(صفحہ ۴۶۰)
ہائیو سمس میں معدہ ڈھیلا ہوکر پھیل جاتا ہے اور ٹائیفائیڈ کے اسہال کی طرح دانے دار اجابت ہوتی ہے۔ بعض دفعہ پانی کے اسہال آتے ہیں جن میں خون کی آمیزش ہوتی ہے۔ ایک اور تکلیف دہ بیماری یہ ہے کہ مریض کا پیشاب،پاخانہ بغیر علم کے نکل جاتا ہے اور عضلات پر کنٹرول نہیں رہتا۔(صفحہ ۴۶۰)
ہائیو سمس کی ایک علامت یہ ہے کہ پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ درد کی شدت سے پیٹ پھٹ جائے گا۔ الٹیاں بھی آتی ہیں،ہچکی لگ جاتی ہے۔ مریض چیخیں مارتا ہے، اسے چکر آتے ہیں اور معدے میں جلن کا احساس بھی ہوتا ہے۔(صفحہ ۴۶۰)
اگنیشیا
Ignatia
اگنیشیا میں قے بھی آتی ہے لیکن اس کا تعلق متلی سے نہیں ہوتا۔ کاکولس کی طرح اچانک قے آجاتی ہے اور متلی بالکل نہیں ہوتی۔اگنیشیا میں یہ تعجب انگیز بات ہے کہ اگر متلی ہوتو سخت اور ناقابل ہضم چیزیں کھانے سے آرام آئے گا۔نرم اور ہلکی غذا لینے سے تکلیف بڑھ جائے گی۔(صفحہ ۴۶۵)
اگنیشیا کے مریض کا جسم ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ٹھنڈا پانی پینے کی خواہش رکھتا ہے۔ عام کھانے سے بے رغبتی ہوجاتی ہے۔آرام سے سکون محسوس کرتا ہے۔(صفحہ ۴۶۶)
انسولین
Insulin
انتڑیوں کی مزمن تکلیفیں جن میں نرم اجابت کی طرف رجحان اور جگر بڑھا ہوا ہونا وغیرہ، ان علامتوں میں بھی انسولین مفید ہوتی ہے۔ (صفحہ ۴۶۷)
آیوڈم
Iodum
اس دوا میں جگر، تلی اور گلے کی سوزش بھی ملتی ہے۔ عموماً ایسی سوزش اور غدودوں کی تکلیف کے نتیجہ میں مریض کو دست لگ جاتے ہیں۔ (صفحہ ۴۷۰)
آیوڈم کے مریض کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اسے بھوک بہت لگتی ہے۔ ہر بیماری میں بھوک بے چین رکھتی ہے اور بھوک کے دوران بیماری میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سورائینم میں بھی بھوک اور بیماری کا باہمی تعلق ہے لیکن سورائینم میں بھوک خصوصاً رات کے وقت چمکتی ہے اور اس کا مریض عموماً ٹھنڈا ہوتا ہے اس لیے ان دونوں دواؤں میں فرق کرنا مشکل نہیں ہے۔ (صفحہ ۴۷۱)
آیوڈم میں اندرونی اعضاء مثلاًجگر، تلی بھی پھول کر سخت ہوجاتے ہیں اور سارا جسم سوکھ جاتا ہے اس کے باوجود بھوک بدستور موجود رہتی ہے لیکن آخر کار معدہ جواب دے جاتا ہے اور اسہال شروع ہوجاتے ہیں۔ وہ اسہال جن کا سل سے تعلق ہوتا ہے صبح کے وقت بڑھتے ہیں اور سلفر سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔پھیپھڑوں کی سل بڑھ جائے تو قدرتی طور پر زہریلے مادوں کا اخراج اسہال کے ذریعے ہونے لگتا ہے۔ انہیں بند کردیا جائے تو خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔اس لیے ان کا صحیح علاج ضروری ہے۔ ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں سلفر کے ذریعہ علاج کرنے سے پھیپھڑوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور اسہال بھی رک جاتے ہیں۔ ایسے مریضوں میں اگر صرف ان کے اسہال کا علاج کیا جائے تو نہایت خطرناک نتیجہ ظاہر ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ایسی صورت میں اگر سلفر کام نہ دے تو آیوڈم بھی مفید دوا ہے بلکہ علامتیں موجود ہوں تو مکمل شفا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ (صفحہ ۴۷۲-۴۷۱)
اپی کاک
Ipecacuanha
(Ipecac-Root)
اپی کاک متلی اور قے دور کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ مریض قے آنے کے بعد بھی متلی محسوس کرتا ہے۔(صفحہ۴۷۵)
اپی کاک ملیریا کی بہت اہم دوا ہے۔ ملیریا کا بھی متلی سے گہرا تعلق ہے اور اس کا معدے پر بھی حملہ ہوتا ہے۔ اس پہلو سے اپی کاک کا ملیریا سے طبعی تعلق ہے۔ (صفحہ ۴۷۵)
معدے میں بھی کانٹے دار درد اٹھتے ہیں اور ان کی حرکت بائیں طرف سے دائیں طرف ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے چاقو مار دیا ہو اور مریض حرکت نہیں کرسکتا بلکہ ساکت و جامد ہوجاتا ہے اور پھر ذرا سی دیر میں ہی درد ختم ہوجاتا ہے۔ (صفحہ ۴۷۵)
اپی کاک جریان ِ خون کی بہترین دوا ہے۔ اس میں یکدم بڑے زور سے خون نکلتا ہے۔ اپی کاک کے مریض میں جب بھی کہیں سے خون جاری ہوتا ہو متلی بھی ضرور ہوتی ہے۔(صفحہ ۴۷۶)
اپی کاک معدے کی بہت اچھی دواؤں میں سے ہے۔ اگر معدہ میں ہوا کا تناؤ محسوس ہو تو اپی کاک مفید ہے۔ایسی پیچش جس میں پیٹ میں شدید بل پڑیں اور بار بار اچانک حاجت محسوس ہوتو اس میں اپی کاک بہت کار آمد ہے۔ بچوں کی پیچش میں سبزی مائل آؤں آتی ہے۔ بعض دفعہ خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ متلی اور قے کا رجحان بھی ملتا ہے۔ ناف کے چاروں طرف ایسا درد جیسے کسی نے چٹکی بھر لی ہو۔ جسم اکڑ بھی جاتا ہے۔ ان علامتوں میں اپی کاک مفید ہے۔(صفحہ ۴۷۶)
متلی اپی کا ک کا خاصہ ہے اس لئے اگر متلی ہو مگر قے نہ آئے تو اس صورت میں اپی کاک کے زیادہ امکانات ہیں۔ ہاں متلی کے بغیر یا معمولی متلی سے قے کا رجحان ہوتو یہ انٹی مونیم ٹارٹ کی علامت ہے سوا ئے اس کے کہ سینہ بلغم سے بھرا ہوا ہوتو کمزوری کی وجہ سے اس کو باہر نکالنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔ (صفحہ ۴۷۷)
رحم کی تکالیف میں بھی اپی کاک مفید ہے۔ اگر بکثرت اور بہت زور سے سرخ رنگ کا خون بہے اور متلی بھی ہو تو اس میں اپی کاک اچھا اثر دکھاتی ہے۔ ایام حمل کی متلی میں بھی مفید ہے۔ (صفحہ ۴۷۷)
آئرس ٹینیکس
Iris Tenax
۱۸۸۵ء میں ڈاکٹر جارج وگ نے اس دوا کی آزمائش کی اور اسے ایسے مریضوں پر استعمال کیا جنہیں آنتوں میں شدید درد اور سبز رنگ کی قے آنے کی شکایت تھی۔(صفحہ۴۷۹)
آئرس ورسیکولر معدے کی کھٹاس اور تیزابیت کی بہترین دوا ہے جبکہ آئرس ٹینکس میں معدے کی کھٹاس پائی جاتی ہے لیکن اس تکلیف کے ساتھ گلے اور منہ میں بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ (صفحہ۴۷۹)
آئرس ٹینیکس میں منہ میں جلن کا احساس ہوتا ہے۔ زبان، گلے اور منہ کی اندرونی جلد متاثر ہوتی ہے۔ گلا خشک ہوجاتا ہے اور ٹھنڈے پانی سے آرام نہیں آتا۔ جب یہ تکلیف بڑھتی ہے تو سر میں شدید درد ہونے لگتا ہے جو بسا اوقات دائیں طرف اپنا مقام بنا لیتا ہے مگر بائیں طرف بھی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ قے آتی ہے جس میں صفراوی مادہ نکلتا ہے۔ پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے جس کے ساتھ کھچاؤ اور تناؤ کا احساس ہوتا ہے۔ تشنج بھی ہوتا ہے اور اسہال بھی شروع ہوجاتے ہیں۔(صفحہ ۴۷۹)
سر درد عموما ً دائیں آنکھ پر اپنا مقام بناتا ہے۔ ہفتہ میں ایک دفعہ سر درد کا دورہ ہوتا ہے۔ کھٹی سبز رنگ کی قے آتی ہے۔(صفحہ ۴۸۰)
آئرس ٹینیکس میں اسہال بھی ہوتے ہیں۔ پیٹ کے نچلے حصے میں درد اور تشنج ہوتا ہے۔ چونکہ اس دوا کا دائیں طرف سے نسبتاً زیادہ تعلق ہے اس لیے یہ اپنڈکس کے لیے بھی بہترین دوا ہے۔ (صفحہ ۴۸۰)
آئرس ٹینیکس میں دردیں دائیں طرف سے شروع ہوکر سارے پیٹ میں پھیل جاتی ہیں۔ شدید قے کی طرف رجحان ہوتا ہے۔(صفحہ ۴۸۱)
آئرس ٹینیکس میں صبح کے وقت جاگنے پر اور کھڑے ہونے پر معدہ ڈوبنے کا احساس ہوتا ہے، پیٹ میں شدید درد جو دائیں سے بائیں حرکت کرتا ہے۔ بسااوقات رات کے وقت اسہال کی تکلیف ہوتی ہے اور آدھی رات کو شدید اسہال شروع ہوجاتے ہیں۔ اگر معدہ میں تیزابیت زیادہ ہوجائے تو بار بار پیشاب آنے لگتا ہے۔ کھلے پیشاب کے ساتھ جلن ہونے لگے اور بار بار حاجت ہو اور پیشاب کی رنگت نسواری ہوجائے تو یہ آئرس ٹینیکس کی علامت ہے۔(صفحہ ۴۸۱)
تیزابیت کے نتیجہ میں پیشاب کا پیلا ہوجانا اور دواؤں میں بھی ملتا ہے۔ تیزابیت کی وجہ سے بار بار پیشاب آئے تو بہت کمزوری ہوجاتی ہے۔ چلنا پھرنا دو بھر ہوجاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو آئرس ٹینیکس دینی چاہیے۔ (صفحہ ۴۸۱)