سومری زبان کا تعارف
سومری زبان (Sumerian) انسانی دانائی اور بات چیت کی ترقی کا ثبوت ہے۔ یہ قدیم میسوپوٹیمیا سے وابستہ ہے اور انسانی تاریخ میں سب سے قدیم اور معروف لکھی گئی زبانوں میں سے ایک ہے۔ اس کی کہانی وقت کے ساتھ ایک دلچسپ سفر ہے، جو ایک قدیم تہذیب کے اسرار سے پردہ اٹھاتی ہے۔
سومری، تقریباً ۴۰۰۰ قبل مسیح میں جنوبی میسوپوٹیمیا کے باشندوں، سومریوں کی زبان تھی۔ اس کا ظہور میسوپوٹیمیا کی شہری ریاستوں مثلاً عروق، اور اور لگاش کی پیدائش کے دوران ہوا، جو دریائے دجلہ اور فرات کے کنارے تہذیب کا گہوارہ بنیں۔
جو چیز سومری کو واقعی قابل ذکر بناتی ہے وہ زبان کی الگ تھلگ ہونے کی حیثیت ہے، یعنی اس کا کوئی معروف لسانی رشتہ دار نہیں ہے۔ یہ واحد خصوصیت اس کی تحقیق و مطالعہ پر ایک انوکھی چمک لاتی ہے۔
اپنے عروج پر سومری میسوپوٹیمیا میں تجارت، ثقافت، اور انتظامیہ کی زبان تھی۔ یہ ایک پیچیدہ زبان تھی، جو کیونی فارم سکرپٹ (Cuneiform Script) یعنی خطِ میخی استعمال کرتی تھی، جو چکنی مٹی کی تختیوں پر لکھی جاتی تھیں۔ سومری بہت محتاط ریکارڈ رکھنے والے تھے، اس رسم الخط کا استعمال اپنے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو دستاویز کرنے کے لیے کرتے تھے، چاہے وہ عام تعاملات ہوں، دنیاوی لین دین یا مہاکاوی کہانیاں اور مذہبی نغمات ہوں۔
سومری زبان اپنے ادبی خزانوں کے لیے مشہور ہے۔ اس کے عظیم ترین کام میں ’’ایپک آف گلگامیش‘‘ شامل ہے، جو بہادری، دوستی اور امرت پانے کی تلاش کی داستان ہے۔ یہ نظم جو خطِ میخی میں لکھی گئی، سومریوں کی داستان سنانے کی صلاحیت اور ان کے انسانی فطرت پر گہرے مشاہدات کا ثبوت ہے۔
سومری زبان پر غور اور مطالعہ میں اس کی قدیم تاریخ اور باقاعدہ متنوں کی محدود تعداد کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس قدیم زبان کو سمجھنے کے لیےوقت کو وقف کرنے اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ علماء گرامر، الفاظ، اور سیاق و سباق کو دھیان سے دیکھتے ہیں تاکہ لکھائیوں کے پیچھے چھپے معانی کو سمجھ سکیں۔ سومری گرامر کی پیچیدگی، اس کا پیچیدہ کیس سسٹم اور اجتماعی نوعیت، لسانی تحقیق کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہے۔
وقت کے ساتھ، سومری ترقی کرتی رہی اور آخر کار اس خطے میں غالب زبان کے طور پر اکیدی زبان(Akkadian) کو راستہ دیا۔ اکیدی زبان نے سومری کے بہت سے عناصر جذب کر لیے، جبکہ سومری رفتہ رفتہ غائب ہو گئی۔ اس کے باوجود اس کی وراثت، قدیم متون اور اشیاء کے نمونوں کی صورت میں جاری ہے جو کہ انسانی تاریخ کی سب سے قدیم و ابتدائی ابواب میں انمول ہیں۔
سومری زبان اور ثقافت کا مطالعہ علماء اور دلچسپی رکھنےوالوں کو یکساں طور پر مسحور کرتا ہے، جو میسوپوٹیمیا کی تاریخ کے خوبصورت تنوّع کو پیش کرتا ہے، یہ انسانیت کی علم کے لیے جستجو اور قدیم تہذیبوں کی کہانیوں اور حکمت کو محفوظ رکھنے کے لیے زبان کی پائیدار طاقت کے ثبوت کے طور پر کھڑا ہے۔
(’در بیگ‘)
جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ نے لگ بھگ نصف صدی قبل سومیری اور اکیدی زبانوں پر تحقیقی مقالے تحریر فرمائے تھے جوآج سے چھیالیس برس قبل انگریزی رسالہ دی ریویو آف ریلجنز کے شمارہ
اپریل 1978ء میں
Sumerian Traced to Arabic
Akkadian Traced to Arabic
کے عناوین سے شائع ہوئے اوراس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے پڑھنے کے لائق ہیں۔
واضح رہے کہ محترم شیخ محمداحمد مظہر صاحب نے اس نوعیت کے دیگر بہت سے تحقیقی مقالہ جات حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزاغلام احمد آف قادیان مسیح موعود ومہدی موعود ؑ کی تصنیف منن الرحمٰن میں بیان کی گئی اس نظریہ اور حقیقت کو بنیاد بنا کر شائع کئے کہ عربی ام الالسنہ یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے۔ نیزفرمایا کہ پہلی زبان اور پہلے زمانہ کی بولی صرف عربی ہے اور اس کا غیر اس کا مالِ موروثی ہے۔اسی طرح آپ نے توریت کا حوالہ بھی پیش فرمایا جس میں لکھا ہے کہ ابتدا میں تمام زمین کی بولی ایک تھی پھر جب وہ عراق عرب میں داخل ہوئی توبابل شہر میں بولیوں میں اختلاف پڑا۔(منن الرحمٰن ۔ روحانی خزائن جلد 9۔ صفحہ 212 )۔
واضح رہے قدیم عراق اور بابل میسوپٹیمیا میں شامل تھے۔جہاں اکیدی سلطنت قائم ہوئی۔ اور سومیری زبان اکیدی زبان میں ضم ہوگئی۔جیسا کہ مضمون نگار نے تحریر کیا ہے۔
محترم شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے ثابت کیا ہے کہ سومری زبان کی (اور اکیدی کی بھی ) لسانی رشتہ داری عربی سے ہے۔