اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
جون و جولائی۲۰۲۳ءمیں سامنےآنے والے چند تکلیف دہ واقعات سے انتخاب
ایک قابل توجہ نفرت انگیزی کا مرتکب شخص
ٹوئٹر۔۱۶؍جون۲۰۲۳ء:پاکستان میں نفرتیں بانٹنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ احمدی اکثر ہی ایسے لوگوں کے نشانے پر ہوتے ہیں ۔ اگرچہ کم ہی ایسے ہیں جو اس قدر عقل سے عاری طریق پر سوشل میڈیا کا ایسا استعمال کریں۔ جیسے ریاض حسین ستتر نامی صارف نے کیا۔وہ احمدیوں کے متعلق بہت زیادہ بہتان ترازی،نفرت انگیز اور لغو گفتگو کرتا ہے۔اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس کے پیغامات میں کوئی ربط یا فہم ہے حتیٰ کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ آیا یہ پیغام اپنے اندر سچائی کا کوئی معمولی سا حصہ بھی رکھتا ہےیا نہیں۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ اس رطب و یابس کےلیے کون اس کو معاوضہ دے رہا ہے اور وہ اس سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن نمونے کے طور پر اس کی ایک ٹوئٹ پیش خدمت ہے۔وہ لکھتا ہے کہ ’’کون لوگ قادیانی کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔در حقیقت اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ قادیانی ہیں۔ یہ سب بے غیرت قادیانی ہیں۔جو عمران خان کو امامت اور نبوت کا درجہ دے کر گمراہی اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔عمران لادین دجالی فتنہ ہے‘‘۔
اس کی بےسروپابات سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کا اصل نشانہ کون ہے؟ عمران خان ہے یا احمدی۔
شاید اس شخص کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ پاکستان بنانے میں جماعت احمدیہ نے کلیدی کردار ادا کیا تھا اور احمدی اس وقت بھی پاکستان کےحقیقی خیر خواہ ہیں۔
مفسدوں نے مسجد کے مینارے مسمار کر دیے
ڈیلی ڈان سے ماخوذ
کراچی میں احمدی مسجد مفسدوں کے ہاتھوں توڑ پھوڑ کا شکار(امتیاز علی کی رپورٹ):احمدیہ جماعت کے ترجمان اور پولیس کے مطابق فیصل کالونی،ڈرگ روڈ پر واقع احمدی مسجد کو شر پسندوں نے سخت نقصان پہنچایا۔کورنگی کے ایس ایس پی طارق نواز نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ۴ شر پسندوں نے مسجد کے مینارے مسمار کر دیے۔انہوں نے بتایا کہ پولیس اس معاملے سے آگاہ ہے اور جماعت کے ایک رکن کو اس معاملے کی ایف آئی آر درج کروانے کو بھی کہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلال نامی ایک شخص ایس ایچ او فیصل کالونی سے سوموار کی رات تک رابطے میں تھا۔اور انتظامیہ نے اسے مقدمہ درج کروانے کا کہا ہے۔نیز انہیں اس مفسدانہ واقعہ کے متعلق ایک درخواست موصول ہوئی ہے اور وہ جماعت کی انتظامیہ سے مشورہ کرنے کے بعد مقدمہ کی کارروائی کا آغاز کریں گے۔
جماعت احمدیہ کےترجمان عامر محمود نے کہا کہ پولیس کو اس واقعہ سے متعلق کارروائی کےلیے ایک درخواست دے دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سہ پہر تین بج کر پینتالیس منٹ پر درجن بھر شر پسند مسجد میں داخل ہوئے اور ہتھوڑوں کی ضربوں سے مینارے مسمار کردیے اور سیاہی سے دیواروں پر نفرت انگیز تحریریں بھی لکھ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی صدر اور مارٹن کوارٹرز میں دو احمدی مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور ان کے متعلق بھی مقدمات درج کروائے لیکن ابھی تک پولیس نے کسی پیشرفت کی کوئی اطلاع نہیں دی۔انہو ں نے کہا کہ یہ مسجد قیام پاکستان کے وقت سے یہاں موجود ہے۔اور حکومت احمدیوں کی مساجد کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔
صدر انجمن احمدیہ کی جانب سے ایک الگ اعلامیہ میں حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ احمدیوں کی مساجد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
جماعت کے ترجمان نے ان واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مخالفین احمدیت اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں۔اور احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کی کوئی حد باقی نہیں رہی۔اس سال دس سے زائد مساجد کو سنگین نقصان پہنچایا جا چکا ہے اور کسی ایک شخص کو بھی اِس جرم میں گرفتار نہیں کیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ احمدی خود کو اب اپنے شہر میں بھی محفوظ نہیں سمجھتے اور نفرت کے بیوپاریوں کی یہ کارروائیاں بین الاقوامی طور پر ملکی تشخص کو برباد کر رہی ہیں۔
اب وقت آن پہنچا ہے کہ ان نفرت انگیزی کرنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے تا کہ یہ لوگ ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو مزید نقصان نہ پہنچا سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ان مذہبی غنڈوں نے محرم کے دنوں میں ملک بھر میں احمدی مساجد کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ اور سوشل میڈیا پر اس بات کا اظہار کھلے عام کیا جارہا ہے۔انہوں نےکہا کہ احمدی مساجد کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔اور اس طریق پر کہ کوئی شر پسند ان پر حملہ نہ کر سکے۔
احمدیت کی مخالفت پنجاب کا خاصہ بن چکی ہے اور ملک کے نام پر داغ لگا رہی ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں کو بھی طیش دلانے کا سبب بن رہی ہے۔ گذشتہ ماہ احمدیوں کو قربانی سے روکنے کی لہر کے بعد ایک نئی لہر نے جنم لیا جس کا مقصد احمدی مساجد کے مینارے مسمار کرنا تھا۔اور اس لہر کی قیادت تحریک لبیک پاکستان کر رہی ہے۔سرائے عالمگیر کے تحریک لبیک کے سوشل میڈیا ونگ کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک اشتہار نشر کیا گیا جس میں درج تھا کہ شاندار چوک سے لےکر قادیانی مرکز تک سب مینارے مسمار کیے جائیں گے۔اور اس کا آغاز ۲۹؍جولائی (۱۰ محرم)کو صبح ۱۰ بجے تحریک لبیک کے سرائے عالمگیر مرکز سے ہو گا۔
۱۴؍جولائی کو تحریک لبیک نے پولیس پر دباؤ ڈالا کہ جہلم میں احمدی مسجد کے مینارے مسمار کریں۔اس کے بعد تحریک لبیک کے ایک مقامی جتھے نے اعلان کیا کہ وہ پورے ضلع جہلم میں موجود تمام احمدی مساجد کے مینارے مسمار کریں گے۔
ان میں سے کچھ مساجد سو سال سے بھی پرانی ہیں۔انسانی حقوق کے کمیشن نے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اور حکومت پاکستان کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی پامالی کے متعلق متنبہ کیا۔اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ ہم حکومت پاکستان کی توجہ اس بات کی طرف مرکوز کروانا چاہتے ہیں کہ بڑھتا ہوا امتیازی سلوک،نفرت انگیزی کے بڑھتے واقعات اور احمدی جماعت کے ساتھ بڑھتاہوا متشددانہ سلوک انتہائی تشویش ناک باتیں ہیں۔جس میں ان کی مساجد کے مینارے مسمار کر نا اور دوسرا تحقیرآمیز رویہ شامل ہے۔
ایک خط جنیوا سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے مستقل مندوب کو دیا گیا۔ جس کا مضمون یوں ہے کہ ہمیں احمدیہ اقلیتی جماعت کے خلاف ہونے والی متشددانہ کارروائیوں پر شدید تشویش ہے۔ہم اس سے قبل بھی کئی بار حکومت پاکستان کو درخواست کر چکے ہیں کہ ان کارروائیوں کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی کی جائے۔ لیکن احمدیہ جماعت کی حفاظت کامعاملہ بدسے بدتر ہوتا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ضمانت خارج ہونے کے بعد تھرپارکر میں ایک احمدی بزرگ کو گرفتار کر لیا گیا
نگر پارکر،ضلع تھرپارکر۔۷؍جولائی ۲۰۲۳ء:ایک احمدی کو ۲۷؍جولائی ۲۰۲۲ء کو اپنے تین ہندو رشتہ داروں کے ہمراہ ایک جھوٹے مقدمے میں نگر پارکر تھانہ میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کر لی گئی تھی۔۱۰؍جنوری ۲۰۲۳ء کو ایڈیشنل سیشن جج مٹھی ضلع تھرپارکر نے ان کی ضمانت خارج کر دی تھی۔اس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی جسے سندھ ہائی کورٹ نے خارج کر دیا۔اس کے بعد کراچی میں سپریم کورٹ کے نمائندہ دفتر میں درخواست دائر کی گئی لیکن ۳۰؍جون کو اسے وہاں سے بھی خارج کر دیا گیا۔ اس کے بعد انہیں اشتہاری مجرم قرار دیےجانے کی منصوبہ بندی کی جانے لگی لیکن انہوں نےخود کو عدالت کے سامنے پیش کر دیا جہاں سے انہیں گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا۔
احمدیہ مسجد کو سربمہر کرکے مقدمہ بھی احمدیوں کے خلاف درج کر دیا گیا
چک نمبر ۲۴،ضلع سانگھڑ۔۸؍جولائی ۲۰۲۳ء:مقامی صدر جماعت نے اپنے گھر کی مرمت کا کام شروع کیا۔ اسی گھر کے احاطے کے اندر مسجد بھی ہے۔ اسی مرمت کے کام میں مسجد کے محراب کا بھی کچھ کام شامل تھا۔اس بات کا فائدہ اٹھا کر مخالفین نے شور مچا دیا کہ احمدی اپنی عبادت گاہ میں محراب اور مینارے نہیں بنا سکتے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر اس بات کو نشر کر دیا اور آس پاس کے گاؤں سے شرپسندوں کو جمع کرلیا۔ ان مفسدوں کا سرغنہ ایک ملاں تھا جو انتہائی شدت انگیز تقاریر کر رہا تھا اور ساتھ ہی دھمکیاں بھی دے رہا تھا کہ اگراس مسجد کو خود سے مسمار نہ کیا گیا تو وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔
ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے متعلقہ جگہ کا دورہ کیا اور ان کو اس بات سے آگاہ کیا گیا کہ یہ مسجد احمدیت مخالف قوانین بننے سے بہت پہلے سے بنی ہوئی ہے اور ساتھ یہ مینارے اور محراب بھی۔پولیس نے ساری بات کا علم ہونے کے باوجود مسجد کو سیل کر دیا اور موصوف اور سینکڑوں کلومیٹر دور ربوہ میں مقیم ان کے بھائی پر توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیاجو کہ اس وقت وہاں موجود بھی نہ تھے اور جماعت میں نامور شخصیت ہیں۔ توہین کے ان مقدمات کی سزا دس سال تک ہو سکتی ہے۔پولیس کے مطابق یہ مقدمہ اس لیے درج کیا گیا کہ حالات کو قابو کیا جاسکے اور امن عامہ کی صورت حال برقرار رہے۔
احمدیوں کو ان کے ووٹ کا حق دیے جانے کا کوئی ارادہ نہیں
اسلام آباد۔۲۶؍جولائی ۲۰۲۳ء:وفاقی حکومت نے اپنی ایک اجتماعی نشست میں کئی ایک بل منظور کیے۔ان میں سے بہت سے انتخابی اصلاحات کے متعلق تھے۔پریس کے مطابق ۵۴؍ کے قریب معاملات زیر غور تھے۔لیکن ان میں سے ہمارے مطابق جو سب سے اہم تھی وہ احمدیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے سے متعلق ہونی چاہیے تھی۔لیکن اس کو تو ان میں شامل تک نہیں کیا گیا۔
وزیر قانون نےکہا کہ یہ ہم نےعمداً کیا ہے۔ اور یہ پوری قوم کے مشترکہ مفاد میں ہے۔اور ہم یہ ملک کی خدمت سمجھ کے کر رہے ہیں۔عرب نیوز نے اس بات کا اضافہ کیا ہےکہ اس معاملے میں کسی بھی قسم کی بد نیتی شامل نہیں ہے۔اور نہ کسی جلد بازی کی ضرورت ہے۔
یہ بات نہایت واضح ہے کہ جو طاقتیں پارلیمنٹ کے ذریعے کچھ بھی کرنےکی استعداد رکھتی ہیںان کے لائحہ عمل میں احمدیوں کو ووٹ کا حق دلانا شامل نہیں ہے۔
(مرتبہ: مہر محمد داؤد )