خوراک کا بھی انسانی ذہن اور طبیعت پر اثر پڑتا ہے
زینت اور لباس تقویٰ کے ذکر کے بعد فرمایا کہ کھاؤ اور پیو لیکن حد سے تجاوزنہ کرو۔ ایک تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کیونکہ خوراک کا بھی انسانی ذہن پر اثر پڑتا ہے طبیعت پر اثر پڑتا ہے۔ خیالات میں سوچوں پر اثر پڑتا ہے اس لئے پاکیزہ، صاف اور حلال غذا کھاؤتاکہ کسی بھی لحاظ سے تمہارے سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جو تمہیں تقویٰ سے دُور لے جانے والا ہو۔ جن چیزوں کے کھانے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے کھانے سے رک جاؤ۔ جن چیزوں کے پینے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان کے پینے سے رک جاؤ۔ کیونکہ ان کا کھانا اور پینا اس حکم کے تحت ناجائز ہے۔ اگر کھاؤ پیو گے تو اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرو گے۔
اسراف کا ایک مطلب گھن لگنا بھی ہے۔ آج کل دیکھ لیں بہت سی بیماریاں جو پیدا ہو رہی ہیں اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں۔ ٹھیک ہے اور بہت سے عوامل بھی ہیں لیکن جب علاج ہو رہا ہو تو ڈاکٹروں کی تان دوائیوں کے علاوہ خوراک پہ بعض دفعہ آ کے ٹوٹتی ہے۔ اور اس زمانے میں جبکہ انسان بہت زیادہ تن آسان ہو گیا ہے سستی اور آرام کی اتنی زیادہ عادت پڑ گئی ہے یہ خوراک ہی ہے جو کئی بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ یہاں یورپ میں بھی کہتے ہیں کہ جوبرگر وغیرہ زیادہ کھانے والے لوگ ہیں ان کوانتڑیوں کی بعض بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ پھر چاکلیٹ کھانے والے بچوں کو کہتے ہیں کہ زیادہ چاکلیٹ نہ کھاؤ دانت خراب ہو جاتے ہیں، کیڑا لگ جاتا ہے۔ اور جب انسان پہ بیماریاں آ جائیں تو پھر یکسوئی سے عبادت بھی نہیں ہو سکتی۔ اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے۔… پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نظر انداز کرتے ہوئے بعض دوسری چیزیں مثلاً شراب وغیرہ اور دوسری نشہ آور چیزیں جو استعمال کرتے ہیں ان کا بھی اسی وجہ سے مذہب سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ سے بھی دُور چلے جاتے ہیں۔ تو اس لئے فرمایا کہ کھانے پینے میں حدود سے تجاوز نہ کرو ورنہ ایسی قباحتیں پیدا ہوں گی، ایسی حالت پیدا ہو گی، ایسی تکلیفیں ہوں گی جو گھن کی طرح تمہاری صحت کو کھا لیں گی اور نیکیوں، عبادتوں سے محروم ہو جاؤ گے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍نومبر ۲۰۰۵ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۰۲؍دسمبر ۲۰۰۵ء)