جس سے اس کا پڑوسی خوش ہے وہ اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے
پھر پڑوسی ہیں، اگر پڑوسی، پڑوسی سے خوش ہو تو اس پڑوسی کو جس سے اس کاپڑوسی خوش ہے اعلیٰ اخلاق کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے آپؐ نے اپنے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں بہت سی نصائح فرمائی ہیں۔ صحابہ ؓ بھی اس و جہ سے بہت زیادہ کوشش میں رہتے کہ کس طرح پڑوسی کو خوش رکھیں۔ ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! مجھے کس طرح علم ہو کہ مَیں اچھا کررہا ہوں یا برا کررہا ہوں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بڑے اچھے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے۔ اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بہت بُرے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا رویہ برا ہے۔ یعنی خود تم اپنے جج نہ بن جاؤ۔ بعض لوگ اپنے آپ کی خود ہی تعریف کرتے ہیں کہ ہم اچھے ہیں۔ بلکہ تمہارے پڑوس تمہارے اچھے ہونے کی گواہی دیں۔ اگر ہر کوئی اس بات پر عمل کرے تو ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہوجاتا ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ پڑوسی سے اچھا سلوک کرنا اتنا بڑا خلق ہے کہ جبریل علیہ السلام ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال پیدا ہوا کہ وہ اسے وارث ہی نہ بنادے۔ اتنی اہمیت ہے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی۔… آج ہمارا بھی فرض ہے کہ جو اخلاق آپؐ نے ہمیں سکھلائے ان کو اختیار کریں اور دنیا کو بتائیں کہ یہ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اس معلم اخلاق نے ہمیں سکھائے اور آج بھی حسین معاشرے کے قیام کے لیے ان کو اپنانا ضروری ہے۔ پس اپنے نمونوں سے ہمیں ان کو دنیا کو دکھانا ہوگا۔ اللہ توفیق دے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۹؍اگست ۲۰۰۵ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۹؍ستمبر ۲۰۰۵ء)