جماعت کو ہمسایہ سے حسن سلوک کی تاکید
ہمارا یہ اصول ہے کہ کُل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کیلئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اسلام اس قوم کے بدمعاشوں کا ذمہ دار نہیں ہے۔ بعض ایک ایک روپیہ کی لالچ پر بچوں کا خون کر دیتے ہیں۔ ایسی وارداتیں اکثر نفسانی اغراض سے ہوا کرتی ہیں اور پھر بالخصوص ہماری جماعت جو نیکی اور پرہیزگاری سیکھنے کیلئے میرے پاس جمع ہے وہ اس لئے میرے پاس نہیں آتے کہ ڈاکوؤں کا کام مجھ سے سیکھیں اور اپنے ایمان کو برباد کریں۔ میں حلفاًکہتا ہوں اور سچ کہتا ہوں کہ مجھے کسی قوم سے دشمنی نہیں۔ ہاں جہاں تک ممکن ہے ان کے عقائد کی اصلاح چاہتا ہوں۔
(سراج منیر، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۲۸)
جو شخص اپنے ہمسایہ کو ادنیٰ ادنیٰ خیر سے بھی محروم رکھتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔
(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۱۹)