خلاصہ خطبہ جمعہ

جنگِ احد کے حالات وواقعات کا بیان نیزعالمی جنگ سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍جنوری۲۰۲۴ء

جنگِ احد کے حالات وواقعات کا بیان نیزعالمی جنگ سے بچنے کے لیے دعا کی تحریک

٭ … نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےاحد کے دن صحابہ کی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی تھی، بیعت کرنے والے خوش نصیبوں کی تعداد آٹھ بیان ہوئی ہے

٭…احد کے دن حضورِ اکرم صلي اللہ عليہ وسلم کے رخِ انور پر تلوار سے ستّر وار کيے گئے، مگر اللہ تعاليٰ نے ان تمام کے شر سے آپ صلي اللہ عليہ وسلم کو بچايا

٭ … ابو عامر فاسق نے میدانِ احد میں بہت سے گڑھے اس لیے کھود دیے تھے تاکہ مسلمان بےخبری میں ان میں گرتے پھریں

٭ … مکرم ابو حلمی محمد عکاشہ صاحب آف فلسطین،مکرمہ امۃ النصیر ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم حیدر علی ظفر صاحب،مکرمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ کاہلوں صاحب اور مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد ضمیر صاحب کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب

اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۱۲؍جنوری ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانا فیروز عالم صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ جنگِ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کےحوالے سے ذکر ہورہا تھا۔ اس حوالے سے مزید تفصیل اس طرح ہے کہ لوگوں میں سے دشمن کے سب سے زیادہ قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پندرہ صحابہ ثابت قدم رہے جن میں سے آٹھ مہاجر اور سات انصار صحابہ کرام تھے۔ مختلف روایات میں ثابت قدم رہنے والے صحابہ کی تعداد مختلف بیان کی گئی ہے۔

روایات میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن صحابہ ؓکی ایک جماعت سے موت پر بیعت لی تھی، بیعت کرنے والے خوش نصیبوں کی تعداد آٹھ بیان ہوئی ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ احد کے دن صحابہ کی جاںنثاری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے انہوں نے جو جاںنثاریاں دکھائیں دنیا ان کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔ یہ لوگ پروانوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومتے تھے، اور آپ کی خاطر اپنی جان پر کھیل رہے تھے۔ جو وار بھی پڑتا تھا صحابہؓ اپنے اوپر لیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاتے تھے، ساتھ ہی دشمن پر وار بھی کرتے جاتے تھے۔ یہ گنتی کے جاںنثار اِس سیلابِ عظیم کے سامنے کب تک ٹھہر سکتے تھے جو ہر لحظہ مہیب لہروں کی طرح چاروں طرف سے بڑھتا چلا آتا تھا۔ دشمن کے حملے کی ہر لہر مسلمانوں کو کہیں کا کہیں بہا کر لے جاتی تھی۔ مگر جب ذرا زور تھمتا تھا تو مسلمان لڑتے بھڑتے پھر اپنے محبوب آقا کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔

عیسائیوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ بولنا یا غلط بیانی کرنا جائز قرار دیا ہے۔ اس بےبنیاد الزام کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ہمارے سید و مولیٰ جنابِ مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اعلیٰ نمونہ اس جگہ ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس توریہ کو آپ کا یسوع شِیرِ مادر کی طرح عمر بھر استعمال کرتا رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حتی الوسع اس سے مجتنب رہنے کا حکم دیا۔

توریہ کے لفظی معنی ہیں کہ زبان سے کچھ کہنا اور دل میں کچھ اور ہونا۔ ایسی بات کرنا جو دو معنی رکھتی ہو۔

روایات میں آتا ہے کہ غزوۂ احد کے عَلم بردار حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے جھنڈے کی حفاظت کا حق خوب ادا کیا۔

ابنِ قمئہ نے حضرت مصعبؓ کے اس ہاتھ پر حملہ کیا جس سے انہوں نے جھنڈا تھاما ہوا تھا اور اس ہاتھ کو کاٹ دیا۔ حضرت مصعبؓ نے جھنڈا دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا ابنِ قمئہ نے اس ہاتھ کو بھی کاٹ ڈالا تو مصعب نے دونوں ہاتھوں سے جھنڈے کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ ابنِ قمئہ نے تیسری بار حملہ کرکے نیزہ آپ کے سینے میں گاڑھ دیا۔ نیزہ ٹوٹ گیا اور حضرت مصعب گر گئے۔ اس پر دو دیگر صحابہ آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا تھام لیا اور اس کی حفاظت کا حق ادا کردیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت مصعبؓ  کی شہادت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کردیا تھا۔

غزوۂ احد کے موقعے پر نیند اور غنودگی کے طاری ہونے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت زبیر بن عوّام رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ نے اس اونگھ کی تفصیل بیان کی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے اس غنودگی کے ذریعے مسلمانوں پر سکینت نازل کی۔

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ احد کے دن مَیں سر اٹھا کے دیکھنے لگا تو ہر آدمی سر جھکائے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا۔

ساری قوم ایسے وقت میں نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ ہو، یہ کوئی اتفاقی بات نہیں۔ یہ اعجاز ہے، ایک معجزہ ہے۔

ایک روایت کے مطابق احد کے دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رخِ انور پر تلوار سے ستّر وار کیے گئے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام کے شر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچایا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

لڑائی میں سب سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا تھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بڑے خطرناک مقام میں ہوتے تھے۔ سبحان اللہ! کیا شان ہے! احد میں دیکھو کہ تلواروں پر تلواریں پڑتی ہیں۔ ایسی گھمسان کی جنگ ہورہی ہے کہ صحابہ برداشت نہیں کرسکتے، مگر یہ مردِ میدان سینہ سِپر ہوکر لڑ رہا ہے۔

اس میں صحابہؓ  کا قصور نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو بخش دیا۔ بلکہ اس میں بھید یہ تھا کہ تا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت کا نمونہ دکھایا جائے۔

ابو عامر فاسق نے میدانِ احد میں بہت سے گڑھے اس لیے کھود دیے تھے تاکہ مسلمان بےخبری میں ان میں گرتے پھریں۔ ایسے ہی ایک گڑھے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بےخبری میں جاگرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں گھٹنے زخمی ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جلدی سے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر اٹھا کر باہر نکالا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرنے کا سبب بدبخت ابن قمئہ بنا تھا کیونکہ اس نے آپ کی گردن پر تلوار سے حملہ کیا تھا۔

اس حملے سے آپ کی گردن میں ایسا جھٹکا آیا تھا کہ ایک مہینے یا اس سے زائد آپ کی گردن میں تکلیف رہی۔ ابنِ قمئہ نے آپ پر پتھر بھی چلائے، ان پتھروں میں سے ایک آپ کے پہلو میں لگا۔ عتبہ بن ابی وقاص نے بھی ایک پتھر مارا جو آپ کے منہ پر لگا جس سے آپ کا ایک دانت ٹوٹ گیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کے لیے دعا کی کہ اس پر ایک سال نہ گزرے کہ وہ کافر ہونے کی حالت میں مر جائے۔

یہ دعا یوں قبول ہوئی کہ اسی روز حاطب بن ابی بلتعہ نے عتبہ بن ابی وقاص کو قتل کردیا۔

غزوۂ احد کی تفصیل آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

۱۔ مکرم ابو حلمی محمد عکاشہ صاحب آف فلسطین۔ مرحوم کو چند روز قبل پچھتر سال کی عمر میں غزہ کے علاقے میں نہایت بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم ذکرِ الٰہی میں مصروف رہتے، جماعتی کتب کے پڑھنے کا اہتمام کرتے۔

آپ ایک کتاب بھی تالیف کر رہے تھے اسی طرح آپ کا ارادہ تھا کہ اپنے گھر میں لائبریری قائم کرسکیں۔ مرحوم سخی، ذہین، صاحبِ فراست، تبلیغ کا شوق رکھنے والے نہایت مخلص احمدی تھے۔

حضورِ انور نے مرحوم کی مغفرت کی دعا کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ غزہ اور فلسطین کے علاقے میں امن قائم فرمائے۔ ظالم کا ہاتھ روکے اور ظالم کا خاتمہ فرمائے۔

اسرائیل اب لبنان کی سرحد کے ساتھ بھی حزب اللہ کے خلاف محاذ کھول رہا ہے جس سے حالات مزید خراب ہوں گے۔

اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے حوثی یمنی قبائل کے خلاف جو محاذ کھولا ہے، یہ سب چیزیں جنگ کو مزید وسیع کر رہی ہیں۔

بہت سے لکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ

اب عالمی جنگ کے آثار بہت قریب نظر آرہے ہیں۔ پس بہت زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانیت کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

۲۔ مکرمہ امۃ النصیر ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم حیدر علی ظفر صاحب۔ مرحومہ چند روز قبل وفات پاگئی تھیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ واقفِ زندگی خاوند کا بھرپور ساتھ نبھانے والی، صوم و صلوٰۃ کی پابند، صدقہ و خیرات کرنے والی نیک خاتون تھیں۔

۳۔ مکرمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ کاہلوں صاحب آف گھٹیالیاں۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون مرحومہ کے چار بیٹے واقفِ زندگی ہیں۔ مرحومہ دینی غیرت رکھنے والی، نڈر، خلافت اور جماعت سے غیر معمولی محبت رکھنے والی، صوم و صلوٰۃ کی پابند، تہجّد گزار خاتون تھیں۔

۴۔ مکرمہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ رشید احمد ضمیر صاحب آف بشیر آباد سٹیٹ۔ مرحومہ گذشتہ دنوں وفات پاگئی تھیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ نیک، پاکباز، دینی خدمت کرنے والی، پردے کا اہتمام کرنے والی، خدمت خلق میں پیش پیش، ایماندار خاتون تھیں۔حضورِ انور نے مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button