جو بات دل میں کھٹکے اس سے اجتناب کرو
عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ، قَالَ أَتَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ…یَقُوْلُ:يَا وَابِصَةُ اسْتَفْتِ نَفْسَكَ، الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ، وَاطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي الْقَلْبِ، وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ، وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ(مسند احمد بن حنبل۔ حدیث وابصۃ بن معبد الاسدی۔ جلد۷ صفحہ ۴۲۳)
ترجمہ: وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے نفس سے فتویٰ لو۔ نیکی وہ ہےجس پر تمہارا دل تسکین محسوس کرے اور تمہارا نفس اطمینان پاجائے اور گناہ وہ ہے جو تمہارے نفس میں کھٹکے اور تمہارے سینے میں تنگی پیدا کرے خواہ دوسرے لوگ تمہیں اس کے جائز ہونے کا فتویٰ ہی دیں۔
تشریح: آنحضرتﷺ کا ارشاد اس ابدی صداقت پر مبنی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو خالق فطرت ہے ہر انسان کو پاک فطرت عطا کی ہے اور یہ صرف بعد کے حالات ہیں جو اسے غلط رستہ پر ڈال کر اس کی پاک فطرت کو ناپاک پردوں میں چھپا دیتے ہیں لیکن پھر بھی فطرت کی نیکی اور ضمیر کی روشنی بالکل مردہ نہیں ہوتی اور زندگی بھر انسان کے لیے شمع ہدایت کا کام دیتی ہےحتٰی کہ بعض اوقات دنیا کے گندوں میں پھنسے ہوئے لوگ بھی جب علیحدہ بیٹھ کر اپنی حالت پر غور کرتے ہیں تو ان کی فطرت دنیاداری کے پردوں سے باہر آکرانہیں ملامت شروع کردیتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کا یہ مبارک ارشاد جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہےاسی فطری نور کی بنیاد پر قائم ہے۔ فرماتے ہیں کہ عام اصولی امور میں ایک عقل مند متقی انسان کے لیےکسی خارجی مفتی کی ضرورت نہیں کیونکہ خود اس کااپنا دل اس کے لیے مفتی کی حیثیت رکھتاہے۔اسے چاہئے کہ نیکی اور بدی کے متعلق اپنے دل سے فتویٰ پوچھے اور اپنے ضمیر کے نور سے روشنی کا طالب ہو کیونکہ نیکی دل میں شرح صدر اور تسکین اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرتی ہےاور بدی سینہ میں کھٹکتی اور دل میں چبھتی اور نفس پر ایک بوجھ بن کر بیٹھ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں دوسروں کے فتووں سے جھوٹا سہارا تلاش کرنا بےسودہےبلکہ انسان کو اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھرنا چاہئے اور اگر کسی بات پر ضمیر رکتا اور دل کی تنگی محسوس کرتا ہے تو انسان کو چاہئے کہ مفتیوں کے فتوے کے باوجود ایسے کام سے رک جائے اور نور ضمیر کے فتویٰ کو قبول کرے جو خالق فطرت کی پیدا کی ہوئی ہدایت ہے۔
لیکن جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسْتَفْتِ نَفْسَکَ (اپنے نفس سے فتویٰ پوچھ) کے الفاظ میں اشارہ فرمایاہےضروری ہے کہ دل کا فتویٰ لینے کے لیے انسان دوسروں سے علیحدہ ہو کر خلوت میں سوچے اور تقویٰ کو مدنظر رکھ کراپنے دل کا فتویٰ لے ورنہ دوسروں کی رائے اس کے ضمیر پر غالب آکر اس کی شمع فطرت پر پردہ ڈال دے گی لیکن اگر وہ علیحدگی میں بیٹھ کر اور تمام خارجی اثرات سے الگ ہو کر اپنے دل سے فتویٰ پوچھے گا تو اس کے دل کی فطری روشنی اس کے لیے ایسی شمع ہدایت مہیا کر دے گی جسے ازل سے نیکی بدی میں امتیاز کرنے کی طاقت حاصل ہوچکی ہے اور اگر غور کیا جائے تویہ نیکی بدی کا فطری شعور خدا کی ہستی پر بھی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ اگر نعوذباللہ خدا کوئی نہیں تو یہ نیکی بدی کا فطری شعور جو انسان کی دل کی گہرائیوں میں مرکوز ہو کر اس کی ہدایت کا سامان مہیا کررہا ہے کہاں سے آگیا ہے؟
(چالیس جواہر پارے صفحہ ۱۱۸تا۱۲۰)
(مرسلہ:تابندہ بشریٰ۔ آئیوری کوسٹ)