حضرت عیسیٰؑ کی نبوت اورعقیدہ ختم نبوت (قسط اوّل)
ختم نبوت کی بحث میں حضرت عیسیٰؑ کے عند النزول نبی ہونے کا مسئلہ نہایت اہم اور دلچسپ ہے۔خاکسار اس مضمون میں مندرجہ ذیل امور پر بحث کرے گا:
٭…حقیقی طور پر حضرت اقدس رسول اللہﷺ کے بعد ہر قسم کی تعریف کی رو سے مطلقا ًنبوت کے بند ہونے کا نظریہ کس فرقہ کا تھا؟ نیز علمائے اہل سنت کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
٭…کیا حضرت عیسیٰؑ نزول کے وقت نبی ہوں گے؟
٭…علماء حضرت عیسیٰؑ کی نبوت اور ختم نبوت کے نظریہ میں کیسے تطبیق کرتے ہیں؟
٭…علما ء کی دی گئی تطبیق میں سقم کی نشاندہی۔
٭…جماعتِ احمدیہ اور دیگر علماء کے درمیان محلِ اختلاف کی تعیین۔
٭…کیا حضرت اقدس رسول اللہﷺ کے بعد ہر قسم کی تعریف کی رو سے نبوت بند ہے؟
حضرت اقدس رسول اللہﷺ کے بعد مطلقاً نبوت کے بند ہونے کا نظریہ معتزلہ اور جہمیہ کا تھا۔چنانچہ قاضی عیاض (۵۴۴ھ) لکھتے ہیں:’’نُزولُ عيسى الْمَسيحِ وقَتْلُه الدَّجَّالَ حَقٌّ صَحيحٌ عِندَ أهلِ السُّنةِ؛ لصَحيحِ الآثارِ الوارِدةِ في ذٰلك، ولِأنَّه لَم يَرِدْ ما يُبْطِلُه ويُضعِفُه، خِلافًا لبَعضِ الْمُعتَزِلةِ والجَهْميَّةِ، ومَن رَأى رَأيَهم من إنكارِ ذٰلك، وزَعْمِهم أنَّ قَولَ اللّٰهِ تعالٰى عَن مُحَمَّدٍ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم: خَاتَمَ النَّبِيِّينَ، وقَولَه صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم لا نَبيَّ بَعْدِي وإجماعَ الْمُسْلِمينَ على ذٰلك، وعلى أنَّ شَريعةَ الإسلامِ باقيةٌ غَيرُ مَنسوخةٍ إلى يَومِ القيامةِ؛ يَرُدُّ هَذِه الأحاديثَ ‘‘۔ (إكمال المعلم بفوائد مسلم (۸/ ۴۹۲-۴۹۳) دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع)یعنی معتزلہ اور جہمیہ کا یہ مذہب ہے کہ نزول مسیح کی روایات آیت خاتم النبیین اور لا نبی بعدی کے خلاف ہیں اور اس بات پر اجماع ہے کہ شریعت اسلامی قیامت تک رہنے والی غیر منسوخ شریعت ہے۔یہ امورِ ثلاثہ (خاتم النبیین،لا نبی بعدی اورشریعت اسلامی کا غیر منسوخ ہونا) نزولِ مسیح کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کو رد کرتے ہیں۔
قاضی عیاض (۵۴۴ھ) اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ ولَيسَ كما زَعَمُوه؛ فإنَّه لَم يَرِد في هَذِه الأحاديثِ أنَّه يَأتى بنَسْخِ شَريعةٍ ولا تَجديدِ أمرِ نُبُوَّةٍ ورِسالةٍ، بَل جاءَت بأنَّه حَكَمٌ مُقْسِطٌ، يَجىءُ بما يَجَدِّدُ ما تَغَيَّرَ مِنَ الإسلامِ، وبِصَلاحِ الأمورِ والعَدْلِ، وكَسرِ الصَّليبِ، وقَتْلِ الخِنزيرِ‘‘۔ (إكمال المعلم بفوائد مسلم (۸/۴۹۳) طبع دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع)یعنی معتزلہ اور جہمیہ کی یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ احادیث میں یہ وارد نہیں ہوا کہ حضرت مسیح ؑشریعت کے نسخ یا نبوت /رسالت کی تجدید کی غرض سے مبعوث ہوں گےبلکہ وہ حکم عدل کے طور پر اصلاحِ امر،کسر صلیب اور قتل خنزیر کے لیے تشریف لائیں گے۔
امام الرازی (۶۰۶ھ)نے اس نظریہ کی نسبت متکلمین کے ایک گروہ کی طرف کی ہے جس سے غالباً معتزلہ وغیرہ ہی مرادہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’ قال بَعْضُ الْمُتَكَلِّمِينَ: إِنَّهُ لَا يَمْنَعُ نُزُولَهُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الدُّنْيَا إِلَّا أَنَّهُ إِنَّمَا يَنْزِلُ عِنْدَ ارْتِفَاعِ التَّكَالِيفِ أَوْ بِحَيْثُ لَا يُعْرَفُ، إِذْ لَوْ نَزَلَ مَعَ بَقَاءِ التَّكَالِيفِ عَلَى وَجْهٍ يُعْرَفُ أَنَّهُ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ لَكَانَ إِمَّا أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَلَا نَبِيَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، أَوْ غَيْرَ نَبِيٍّ وَذَالِكَ غَيْرُ جَائِزٍ عَلَى الْأَنْبِيَاء‘‘۔ (مفاتيح الغيب (۱۱/ ۱۰۶) دار الفکر للطباعۃ و النشر والتوزیع)
یعنی حضرت عیسیٰ کا نزول صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر دنیا سے تکلیف شرعی اٹھا دی جائے یا وہ ایسی صورت میں نازل ہوں کہ پہچانے نہ جا سکیں کیونکہ اگر وہ تکالیف شرعیہ کے ساتھ ایسی صور ت میں نازل ہوں گے کہ پہچانے بھی جاسکیں تو یا تو وہ نبی ہوں گے (یہ ممکن نہیں کیوں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں) یا پھر نبی نہیں ہوں گے اور یہ صورت انبیاء کے حق میں جائز نہیں۔اس وہم کا جواب دیتے ہوئے علامہ الرازی (۶۰۶ھ)لکھتے ہیں:’’ وَهَذَا الْإِشْكَالُ عِنْدِي ضَعِيفٌ لِأَنَّ انْتِهَاءَ الْأَنْبِيَاءِ إِلَى مَبْعَثِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعِنْدَ مَبْعَثِهِ انْتَهَتْ تِلْكَ الْمُدَّةُ، فَلَا يَبْعُدُ أَنْ يَصِيرَ بَعْدَ نُزُولِهِ تَبَعًا لِمُحَمَّدٍ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ‘‘۔(مفاتيح الغيب (۱۱/ ۱۰۶) دار الفکر للطباعۃ و النشر والتوزیع)یعنی انبیاء علیہم السلام کا دور حضرت اقدس رسول اللہﷺ کی بعثت تک تھا۔آپﷺ کی بعثت کے بعد وہ مدت ختم ہو گئی ہے پس حضرت مسیحؑ کا نزول کے وقت حضورﷺ کا تابع ہونا ممکن ہے۔دوسرے لفظوں میں ایسا نبی جو آزاد نبوت نہ رکھتا ہو بلکہ حضرت اقدس رسول اللہﷺ کا تابع ہو آ سکتا ہے۔کیونکہ اب قیامت تک حضورﷺ کا ہی دورِ نبوت ہے کسی کی آزاد نبوت چل نہیں سکتی۔
پس ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد مطلقا ًکسی بھی قسم کے نبی کے آنے کا نظریہ معتزلہ/ جہمیہ/ بعض متکلمین کا ہے جس کو علماء نے قبول نہیں کیا۔
٭…کیا حضرت عیسیٰؑ نزول کے وقت نبی ہوں گے؟
اس بات کی علماء نے صراحت کی ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نزول کے وقت یقینی طور پر نبی ہوں گے:
۱)علامہ تقی الدین السبکی (۷۵۶ھ)لکھتے ہیں: لھذا يَأْتِي عِيسَى فِي آخَرِ الزَّمَانِ عَلَى شَرِيعَتِهِ وَهُوَ نَبِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى حَالَتِهِ، لَا كَمَا ظَنَّ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّهُ يَأْتِي وَاحِدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ… وَهُوَ نَبِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى حَالِهِ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْءٌ‘‘۔(فتاوى السبكي (۱/ ۴۰-۴۱) دار المعرفۃ بیروت)یعنی حضرت عیسیٰؑ آخری زمانہ میں حضورﷺ کی شریعت پر آئیں گے اور وہ نبی ہوں گے نہ کہ جیسا بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ ایک عام امتی ہوں گے… وہ نبی کریم ہوں گے اور ان کے مرتبہ میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی۔
۲)علامہ السیوطی(۹۱۱ھ)لکھتے ہیں:’’ فَإِنْ تَخَيَّلَ فِي نَفْسِهِ أَنَّ عِيسَى قَدْ ذَهَبَ وَصْفُ النُّبُوَّةِ عَنْهُ وَانْسَلَخَ مِنْهُ فَهٰذَا قَوْلٌ يُقَارِبُ الْكُفْرَ ‘‘۔(الحاوي للفتاوي (۲/ ۱۵۶) طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت)یعنی کوئی اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہے کہ عیسیٰؑ سے عند نزول وصف ِ نبوت جاتا رہے گا تو یہ قول کفر کے قریب ہے۔
۳)علامہ ابن حجر الهيتمي (۹۷۴ھ) لکھتے ہیں: ’’وَعِيسَى نَبِي كريم بَاقٍ على نبوته ورسالته، لَا كَمَا زَعمه مَنْ لَا يُعتَدَّ بِهِ أَنه وَاحِد من هَذِه الْأمة ‘‘۔(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي (صفحہ۱۸۱) دار المعرفۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع) یعنی عیسیٰؑ اپنی نبوت اور رسالت پر باقی رہیں گے نہ کہ جیسے بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ وہ محض ایک امتی ہوں گے۔
۴)شاہ ولی اللہ صاحب (۱۱۷۶) لکھتے ہیں: ’’ولا شکَّ قَطعًا اَنّہ رسولُ اللّٰہِ و نَبِیّہ و ھو مُنَزّل فَلَہ علیہ الصلوۃ و السالم مَرتبۃُ النبوۃِ بِلا شَکّ عندَ اللّٰہِ سُبحانَہ و تعالیٰ…یَنزِل فینا حَکَمًا مِن غَیرِ تَشرِیع وھُوَ نبی بلا شک ‘‘۔(قرۃ العیینین فی تفضیل الشیخین (۳۱۹-۳۲۰) طبع مجتبائی دھلی )یعنی اس میں قطعا ًکوئی شک نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور نبی ہیں اور اس حال میں نازل ہوں گے کہ بلا شبہ اللہ کے حضور ان کا مرتبہ نبوت ہی ہو گا…وہ ہم میں بغیر شریعت کے بطور حکم نازل ہوں گے اور بلا شبہ نبی ہوں گے۔
۵)علامہ الآلوسی(۱۲۷۰ھ) لکھتے ہیں:’’ فهو عليه السلام نبي رسول قَبلَ الرَّفعِ وفي السَّماء وبعدَ النُّزولِ وبعدَ المَوتِ أيضًا‘‘۔(روح المعاني (۸/ ۲۱۳) طبع دار الکتب العلمیۃ)یعنی حضرت عیسیٰؑ رفع سے قبل،آسمان میں،بعد نزول اور موت کے بعد بھی نبی ہی ہوں گے۔
۶)قاضی محمد سلیمان صاحب منصور پوری لکھتے ہیں: ’’رسول اللہﷺ نے جا بجا جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام لیا ہے وہاں عیسیٰ بن مریم رسو ل اللہ اور عیسیٰ بن مریم نبی اللہ فرمایا ہے۔جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باوجودیکہ وہ خلعت نبوت سے سرفراز ہوں گے۔مگر پھر مجدد دینِ محمدیہ بھی ہوں گے اور یہ امت کے لئے نہایت شرف کا مقام ہے‘‘۔ (احتساب قادیانیت (۶/۴۹-۵۰) طبع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)
۷)مولوی عبد الرشید صاحب لکھتے ہیں:’’اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو اصل صاحب شریعت اور امام جناب رسول اللہﷺ ہی ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپﷺ کے خلیفہ، وزیر اور تابع ہوں گے اور نبی بھی ہوں گے‘‘۔(احتساب قادیانیت (۳۶/۲۷)طبع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)نیز لکھتے ہیں:’’اجماع امت ہے کہ مسیح موعود با وجود رسول ہونے کے حضرت محمد ﷺ کی امت میں شمار ہو گا‘‘۔ (احتساب قادیانیت(۳۶/۲۹) طبع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان) پھر لکھتے ہیں:’’اگر شبہ ہو کہ بعد نزول عیسیٰ ان کے امتی ہونے سے رسالت چھن جائے گی تو جواب یہ ہے کہ یہ کہاں سے سمجھ لیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بعد نزول اپنی نبوت اور رسالت چھن جائے گی اور وہ معزول ہوں گے‘‘۔(احتساب قادیانیت (۳۶/۳۰) طبع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)
۸)مولوی محمد بدر عالم صاحب میرٹھی لکھتے ہیں:’’جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے تو ان کا تعلق آپؐ کی شریعت کے ساتھ وہی ہو گا جو تمام امت کا ہے اور اسی لئے اس اتباع سے ان کی نبوت میں کوئی ادنیٰ شائبہ نقصان بھی لازم نہ آئے گا‘‘۔(احتساب قادیانیت (۴/۳۶۹)طبع عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت حضوری باغ ملتان)
۹)مولوی محمد ادریس صاحب کانددھلوی لکھتے ہیں: ’’انبیائے کرام اپنے منصب نبوت سے کبھی معزول نہیں ہوتے اس لئے کہ حق تعالیٰ علیم و خبیر ہے…عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد منصب نبوت کے ساتھ موصوف ہوں گے…حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد نبی ہوں گے مگر شریعت محمدیہؐ کے تابع ہوں گے اور کتاب و سنت کی متابعت کریں گے‘‘۔(عقائد الاسلام صفحہ۸۰-۸۱)
۱۰)معاصر علماء کے ادارہ اللجنۃ الدائمۃ سے سوال ہوا کہ وهل وَرَدَ في القرآن نَص صَريح بِرجوعِ النّبي عيسى ابن مريم عليه السلام، وإن عَاد فَهَل يَعُودُ كَنَبِيّ أو رَسُول؟ اس کے جواب میں لکھتےہیں:’’وَرَدِ في القرآن نُصوص في رفعِ عيسى ابن مريم حيًّا إلى السماء ونُزُولِه نبيًّا رسولاً ‘‘۔(فتاوى اللجنة الدائمةللبحوث العلمیۃ والافتاء (۳/۲۳۷)فتوی :۲۹۸۲)یعنی کیا قرآنِ کریم میں حضرت عیسیٰؑ کے رجوع کی صریح نص موجود ہے؟ اور کیا جب وہ تشریف لائیں گے تو نبی ہوں گے؟اس کا جواب دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر زندہ جانے نیز بطور نبی ورسول نازل ہونے کی نصوص موجود ہیں۔
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا :
۱۔حضرت عیسیٰؑ نزول کے وقت نبی ہوں گے۔
۲۔ان سے وصف نبوت کے سلب ہونے کا خیال کفر ہے۔
٭…نزول عیسیٰؑ اور عقیدہ ختم نبوت میں تطبیق
علماء کو یہ بات مسلم ہے کہ لا نبی بعدی میں عموم کا احتمال ہمیں معتزلہ اور جہمیہ کے عقیدہ انکار نزول عیسیٰؑ کی طرف لے جاتا ہے۔ مثلاً مولوی محمد ادریس کاندھلوی لکھتے ہیں:’’احسن وجہ یہ ہے کہ لا نبی بعدہ میں عموم کی وجہ سے بظاہر عوام کے لئے ابہام کا اندیشہ تھا کہ کوئی غلط فہمی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا انکار نہ کر دے‘‘۔(احتساب قادیانیت (۲/۵۲)نیز لکھتے ہیں:’’مبادا اس ظاہری عموم کی وجہ سے حدیث لانبی بعدی کو نزول عیسیٰ بن مریم کے منافی اور معارض سمجھ جائیں‘‘۔ (احتساب قادیانیت (۲/۵۱) اس لیے وہ جابجا ان روایات کی نزول عیسیٰؑ کے نظریہ کے ساتھ تطبیق دیتے ہیں۔ذیل بعض میں حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں مثلاً:
۱)ابن قتیبۃ (۲۷۶ھ) قول عائشہ ؓ(قُولُوا لِرَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ)اور نزول عیسیٰؑ کے نظریہ میں تطبیق دینے کے لیے کہتے ہیں:’’ أَمَّا قَوْلُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهَا: ’’ وَلَيْسَ هَذَا مِنْ قَوْلِهَا، نَاقِضًا لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘ لِأَنَّهُ أَرَادَ: لَا نَبِيَّ بَعْدِي، يَنْسَخُ مَا جِئْتُ بِهِ، كَمَا كَانَتِ الْأَنْبِيَاءُ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ تُبْعَثُ بِالنَّسخِ، وَأَرَادَتْ هِيَ: ’’لَا تَقُولُوا إِنَّ الْمَسِيح لَا يَنزِل بعدَه‘‘۔ (تأويل مختلف الحديث صفحہ ۲۷۲) یعنی حضرت عائشہؓ کا فرمان لا نبی بعدی کے مخالف نہیں ہے اور نہ ہی نزول مسیحؑ کے مخالف ہے کیونکہ حضورﷺ کے فرمان کا یہ مطلب ہے کہ آپﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو شریعت اسلامیہ کو منسوخ کرنے والا ہو گا جیسے پہلے انبیاء سابقہ شرائع کے نسخ کے ساتھ مبعوث ہوتے تھے۔دوسرے الفاظ میں حضرت عائشہؓ کے کہنے کا مطلب ہے کہ یہ نہ کہو کہ حضرت عیسیٰؑ آپﷺ کے بعد نازل نہیں ہوں گے۔
۲)علامہ تقی الدین السبکی (۷۵۶ھ)لکھتے ہیں نَعَمْ هُوَ وَاحِدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لِمَا قُلْنَاهُ أَنَّ إتْبَاعَهُ لِلنَّبِيِّ – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – وَإِنَّمَا يَحْكُمُ بِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – بِالْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ؛ وَكُلُّ مَا فِيهَا مِنْ أَمْرٍ أَوْ نَهْيٍ، فَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِهِ كَمَا يَتَعَلَّقُ بِسَائِرِ الْأُمَّةِ، وَهُوَ نَبِيٌّ كَرِيمٌ عَلَى حَالِهِ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيْءٌ‘‘۔(فتاوى السبكي (۱/ ۴۰-۴۱)یعنی حضرت عیسیٰؑ امتی تو ہوں گے کیونکہ وہ حضورﷺ کی شریعت کی اتباع کریں گے اور قرآن و سنت سے فیصلے کریں گے اور شریعت میں جو اوامر ونواہی ہیں وہ ان سے ویسے ہی متعلق ہوں گے جیسے باقی ساری امت کے ساتھ متعلق ہیں یعنی وہ ان کے مخاطب ہوں گے البتہ وہ نبی کریمؐ ہوں گے اور اس مقام میں کچھ بھی کمی نہیں ہو گی۔
۳)علامہ القرطبی (۶۷۱ھ) لکھتے ہیں: ’’لا يَجُوزُ أن يُتَوَهّمُ أنّ عيسى يَنزِلُ نبيًا بِشَرِيعَة مُتَجَدِّدَة غيرَ شريعة محمد نبينا صلى اللّٰه عليه وسلم، بل إذا نَزَلَ فإنَّه يَكونُ يومئذ مِن أتباعِ محمد صلى اللّٰه عليه وسلم…فعيسىٰ عليه السلام إنّما يَنزِل مُقَرّرًا لِهذه الشَّرِيعةِ ومُجَدِّدًا لها إذ هي آخِرُ الشَّرائعِ‘‘۔(التذكرة للقرطبي صفحہ۱۳۰۱-۱۳۰۲) پس یہ وہم جائز نہیں کہ حضرت عیسیٰؑ شریعت محمدیہؐ کے علاوہ کوئی نئی شریعت لے کر آئیں گے بلکہ وہ محمدﷺ کے تابع کی حیثیت سے تشریف لائیں گے… اسی شریعت کی تقریر و تجدید کی غرض سے آئیں گے کیونکہ یہ آخری شریعت ہے۔
۴)علامہ ابوحیان (۷۴۵ھ)لکھتے ہیں: ’’وَيَنْزِلُ عَامِلًا عَلَى شَرِيعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰہُ عليه وسلّم مُصَلِّيًا إِلَى قِبْلَتِهِ كَأَنَّهُ بَعْضُ أُمَّتِهِ‘‘۔(البحر المحيط في التفسير ۷/ ۲۲۸)یعنی حضرت عیسیٰؑ اس حال میں نازل ہوں گے کہ ایک امتی کی طرح شریعت محمدیہ پر عامل اور قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے ہوں گے۔
۵)ابن المُلَقِّن(۸۰۴ھ)لکھتے ہیں: ’’أَنه خَاتم النَّبِيين وَلَا يُعَارضهُ مَا وَرَدَ مِن نزُولِ عِيسَى عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَام آخِرَ الزَّمَان فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي بِشَريعة ناسِخَة بَل مُقرِّرا لَهَا عَاملا بهَا ‘‘۔ (غاية السول في خصائص الرسول صفحہ۲۵۶)یعنی حضورﷺ خاتم النبیین ہیں اور یہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے معارض نہیں کیونکہ وہ شریعت ِ ناسخہ کے ساتھ نہیں تشریف لائیں گے بلکہ شریعت محمدیہ کی ہی تقریر کی غرض سے اس پر عمل کرنے والے کی حیثیت سے آئیں گے۔
۶)علامہ السیوطی (۹۱۱ھ)لا نبی بعدی کو ظاہر پر محمول کرنے کا نتیجہ لکھتے ہیں:’’ثُمَّ يُقَالُ لِهَذَا الزَّاعِمِ: هَلْ أَنْتَ آخِذٌ بِظَاهِرِ الْحَدِيثِ مِنْ غَيْرِ حَمْلٍ عَلَى الْمَعْنَى الْمَذْكُورِ، فَيَلْزَمُكَ عَلَيْهِ أَحَدُ أَمْرَيْنِ: إِمَّا نَفْيُ نُزُولِ عِيسَى، أَوْ نَفْيُ النُّبُوَّةِ عَنْهُ وَكِلَاهُمَا كُفْرٌ ‘‘۔(الحاوي للفتاوي ۲/ ۱۵۷)یعنی مذکورہ معنی ( جن کو آگے نقل کیا جائے گا۔ناقل) کو تسلیم نہ کرنے اور حدیث کے الفاظ کو ظاہر پر حمل کرنے کا نتیجہ یہ ہے یا تو نزول عیسیٰؑ کا انکا رکر دیا جائے یا پھر ان کی نبوت پر انکار کر دیا جائے اور یہ دونوں باتیں کفر ہیں
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے ایسے معنی ہیں جن کو تسلیم کرنے سے نہ نزول مسیح کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نہ ان کی نبوت بعد از نزول کا؟ علامہ السیوطی لکھتے ہیں:’’انَّ الْمُرَادَ لَا يَحْدُثُ بَعْدَهُ بَعْثُ نَبِيٍّ بِشَرْعٍ يَنْسَخُ شَرْعَهُ كَمَا فَسَّرَهُ بِذَالِكَ الْعُلَمَاء‘‘۔ (الحاوي للفتاوي ۲/ ۱۵۷)یعنی آپﷺ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپﷺ کی شریعت کو منسوخ کرے جیسا کہ علماء نے یہ وضاحت کی ہے۔ نیز لکھتے ہیں:’’ لَا تَنَافِيَ بَيْنَ كَوْنِهِ يَنْزِلُ مُتَّبِعًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ كَوْنِهِ بَاقِيًا عَلَى نُبُوَّتِهِ‘‘۔ (الحاوي للفتاوي ۲/ ۱۵۷)یعنی حضرت عیسیٰؑ کے آنحضرتﷺ کے متبع ہونے میں اور نبوت پر باقی رہنے میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
۷)علامہ الزکریا الانصاری(۹۲۶ھ)لکھتے ہیں:’’وَلَا يُعَارِضُهُ مَا ثَبَتَ مِنْ نُزُولِ عِيسَى – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – آخِرِ الزَّمَانِ؛ لِأَنَّهُ لَا يَأْتِي بِشَرِيعَةٍ نَاسِخَةٍ بَلْ مُقَرِّرَةٌ لِشَرِيعَةِ نَبِيِّنَا – صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِلًا بِهَا‘‘۔ (أسنى المطالب في شرح روض الطالب ۶/۲۵۲) یعنی آنحضرت ﷺ کے آخری نبی ہونے کی نزول عیسیٰ ؑ سے کوئی معارضت نہیں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ شریعت ناسخہ کے ساتھ تشریف نہیں لائیں گے بلکہ شریعت محمدیہ کی ہی تجدید اور اس پر عمل کرنے والے ہوں گے۔
۸)علامہ ابو السعود (۹۸۲ھ) لکھتے ہیں:’’ إنَّما ينزلُ عملا على شريعةِ محمدٍ صلَّى اللّٰه عليه وسلم مُصلِّيًا إلى قِبلَتِه كأنَّه بعضُ أمَّتهِ‘‘۔(إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم ۷/ ۱۰۶)یعنی وہ اس حال میں نازل ہوں گے کہ ایک امتی کی طرح شریعت محمدیہ پر عامل اور قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے ہوں گے۔
۹)علامہ ابن حجر الهيتمي (۹۷۴ھ) لکھتے ہیں: ’’وَعِيسَى نَبِي كريم بَاقٍ على نبوته ورسالته، لَا كَمَا زَعمه مَنْ لَا يعتدَّ بِهِ أَنه وَاحِد مِن هَذِه الْأمة، لِأَن كَونه وَاحِدًا مِنْهُم يَحكُمُ بِشَريعتِهِم لَا يُنَافِي بَقَاءَهُ على نبوته ورسالته‘‘۔(الفتاوى الحديثية لابن حجر الهيتمي صفحہ ۱۸۱)یعنی حضرت عیسیٰؑ کا امت میں سے ہی ہونا اور شریعت محمدیہ کے حوالہ سے ہی فیصلہ کرنا ان کی نبوت و رسالت کے منافی نہیں ہے۔
۱۰)علامہ محمد طاھر الفتنی(۹۸۶ھ) لکھتے ہیں: وهذا أيضًا لا ينافي لا نبي بعدي، لأنه أراد لا نبي يَنسِخُ شَرعَه‘‘۔ (مجمع بحار الأنوار ۵/ ۴۶۴ طبع مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ بحیدرآبار دکن الھند) یعنی نزول عیسیٰؑ لانبی بعدی کے منافی نہیں ہے کیونکہ آپﷺ کی مراد یہ تھی کہ ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ ﷺکی شریعت منسوخ کرے۔
۱۱)علامہ اسماعیل حقی (۱۱۲۷ھ)امام مہدی اور مسیح موعود کے منصب کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’والمَهدى الذي مِن عترةِ النبي عليه السلام امام عادل ليس بِنَبيّ ولا رسول والفرق بينهما اَنّ عيسى هو المَهدِىّ المُرسَل المُوحى اِليه والمَهدِىُّ ليس بِنَبِيّ مُوحى اليه وايضًا اَنَّ عيسىٰ خاتَم الولاية المُطلَقَة والمَهدى خاتَم الخِلافة المطلقة‘‘۔ (روح البيان (۳/ ۴۳۷ طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت)یعنی مہدی حضرت رسول اللہ ﷺ کی نسل سے ہو گا عادل امام ہو گا نبی اور رسول نہیں ہو گا ان دونوں میں فرق یہ ہو گا کہ حضرت عیسیٰؑ ایسے مبعوث مہدی ہیں جن کی طرف وحی کی جائے گی جبکہ امام مہدی ایسے نہیں ہوں گے اور حضرت عیسیٰ ولایتِ مطلقہ کے خاتم ہوں گے اور مہدی خلافتِ مطلقہ کے خاتم ہوں گے۔
۱۲)علامہ السفارینی (۱۱۸۸ھ) لکھتے ہیں:’’ انَّهُ يَنْزِلُ وَيَحْكُمُ بِهَذِهِ الشَّرِيعَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ وَلَيْسَ يَنْزِلُ بِشَرِيعَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ عِنْدَ نُزُوْلِهِ مِنَ السَّمَاءِ وَإِنْ كَانَتِ النُّبُوَّةُ قَائِمَةً بِهِ وَهُوَ مُتَّصِفٌ بِهَا ‘‘۔(لوامع الأنوار البهية (۲/ ۹۵)یعنی حضرت عیسیٰؑ شریعت محمدیہ کے ساتھ ہی فیصلہ کریں گے اور آسمان سے نزول کے وقت شریعت مستقلہ کے حامل نہیں ہوں گے اگرچہ ان کی نبوت قائم ہو گی اور وہ وصف نبوت سے متصف ہوں گے۔
۱۳)شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں: فعَلِمنا بِقَولِہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لا نبی بعدی ولا رسول انّ النبوۃَ قد انقَطَعَت والرسالۃَ اِنَّما یُرِیدُ بھا التَّشرِیعَ…علِمنا اَنَّ التشریعَ امرعارِض بِکونِ عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام یَنزِلُ فِینا حَکَمًا مِن غَیرِ تَشرِیع وھُوَ نبی بلا شک۔(قرۃ العیینین فی تفضیل الشیخین (۳۱۹-۳۲۰) پس ہم نے احادیث لا نبی بعدی اور ان النبوۃ و الرسالۃ قدانقطعت کے یہ معنی جان لیے کہ آپﷺ کی اس سے مراد تشریعی نبوت ہے…ہم نے حضرت عیسیٰؑ کے بطور حَکَم بغیر شریعت کے نبی کی حیثیت کے آنے سے یہ جان لیا کہ شریعت نبوت پر ایک زائد امر ہے (نبوت کی ماہیت میں شامل نہیں)۔
۱۴)معاصر علماء کا ادارہ اللجنۃ الدائمۃ اس سے متعلق جواب دیتے ہوئے فتویٰ دیتے ہیں :’’ دلَّت الأحاديثُ على نُزُولِه آخِر الزمان، وعلى أنه يحكُم بشَريعةِ نَبِيِّنا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم…وعلى ذٰلك لا تكونُ هُناكَ مُنافاة بَينَ نُزُولِه وبَينَ خَتمِ النُّبُوَّةِ بِنَبِيِّنا محمد صلى اللّٰه عليه وسلم؛ حَيثُ لَم يَأتِ عيسى برِسالة جديدة‘‘۔ (فتاوى اللجنة الدائمةللبحوث العلمیۃ والافتاء (۳/۲۲۰)یعنی احادیث حضرت عیسیٰؑ کے نزول پر آگاہی دے رہی ہیں نیز بتا رہی ہیں کہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی شریعت سے فیصلے فرمائیں گے…یہ سب دلالت کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول اور ہمارے نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت میں کوئی منافات (تضاد) نہیں ہیں کیونکہ وہ کسی نئی شریعت کے ساتھ نہیں تشریف لائیں گے۔
۱۵)بعض علماءاسی تطبیق کے ساتھ حضرت خضر اور حضرت الیاس کی قیامت تک حیات کے قائل ہیں چنانچہ علامہ الزرقانی لکھتے ہیں:’’ ولا يَقدَحُ نزولَ عيسى بعدَه؛ لِأنّه يكونُ على دينِه… وكذا الخضر والياس على بقائِهِما إلى آخرِ الزَّمانِ تابِعان لأحكامِ هذه المِلَّةِ‘‘۔(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (۷/ ۲۳۶)یعنی حضرت عیسیٰؑ کا حضورﷺ کے بعد نزول مذموم نہیں کیونکہ وہ آپﷺ کے دین پر ہوں گے…اسی طرح حضرت خضر و الیاس آخری زمانہ تک ملت محمدیہ کے احکامات کی پیروی کریں گے۔
ان تمام حوالہ جات سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
۱۔تمام علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ بطور نبی کے تشریف لائیں گے۔ ورنہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ نبی کی نبوت کے وصف سے معزولی تصور کرنا کفر ہے۔
۳۔ حضرت عیسیٰؑ کا امتی ہوتے ہوئے نبوت پر فائز رہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔(باقی آئندہ)