میزبان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاریؓ
پاکستان سے براستہ استنبول (سابق قسطنطنیہ) سویڈن آتے ہوئے اور ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب مربی سلسلہ و انچارج ترکش ڈیسک کے سانحہ ارتحال پر ترکی میں ہی مدفون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نامور صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی طرف دل کھچا چلا گیا۔اس مضمون میں ان کا ذکر خیر کرنا مقصود ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔
مسجد ایوب سلطان کمپلیکس
استنبول میں شہر کی بلند اور مضبوط فصیل کے باہر شاخ زریں کے قریب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار مبارک ہے جس کو مسجد ایوب سلطان کمپلیکس میں بعد میں شامل کر لیا گیا ۔
حضرت ابو ایوب انصاری کی قبر پر لگے کتبہ کا ترجمہ
اصل نام خالد بن زید بن کلیب بن ثعلبہ بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن النجار تیم اللہ بن ثعلبہ بن عمرو بن الخزرج الاکبر حضرت ابو ایوب انصاریؓ الخزرجی۔ ان کی والدہ کا نام ھند بنت سعید بن عمرو بن امرئ القیس بن مالک بن ثعلبہ بن کعب بن الخزرج بن الحارث بن الخزرج تھا حضرت ابوایوب انصاریؓ اپنی کنیت کی وجہ سے مشہور تھے۔
بیعت عقبہ،غزوہ بدر، غزوہ احد اور دیگر تمام مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر کے تشریف لائے تو ان کے ہاں اترے اور پھر انہی کے ہاں مقیم رہے یہاں تک کہ مسجد نبوی اور آپؐ کے حجرے تعمیر ہوئےتو آپ وہاں منتقل ہوگئے۔
حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے ۵۲؍ہجری میں وفات پائی۔ اس وقت آپؓ قسطنطنیہ کے محاصرے کے دوران یزید بن معاویہ کے لشکر میں شامل تھے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ بیمار ہوئے تو یزید نے ان کی عیادت کی اور پوچھا :آپ کی کیا خواہش ہے۔آپؓ نے کہا جب میں مر جاؤں تو مجھے ساتھ لے کر دشمن کی زمین میں دوڑ لگائیں۔ جہاں موقع ملے مجھے دفن کر دیں اور پھر لوٹ آئیں ۔آپؓ وفات پاگئے تو لشکر نے ایسا ہی کیا اور انہیں قسطنطنیہ کے قریب دفن کر دیا۔(ماخوذ از اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ)
میزبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
آپؓ انصار کے سر کردہ صحابی رسولؐ اور میزبان رسولؐ کہلاتے ہیں۔ ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص میزبانی کا شرف حاصل کرنے کا خواہشمند تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ اونٹنی بیٹھے گی وہیں آپؐ قیام فرمائیں گے۔ اونٹنی حضرت ابوایوب انصاریؓ کے دروازے پر بیٹھی۔ان کا مکان دو منزلہ تھا۔بوایوبؓ چاہتے تھے کہ آپؐ اوپر کی منزل میں قیام فرمائیں لیکن آپؐ نے اس خیال سے کہ ملاقات کے لیے آنے جانے والے لوگوں کو آسانی رہے نچلی منزل کو پسند فرمایا اور وہاں فروکش ہو گئے۔ رات ہوئی تو ابوایوبؓ اور ان کی بیوی کوساری رات اس خیال سے نیندنہیں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے ہیں اور ہم آپؐ کے اوپر ہیں اور مزید اتفاق یہ ہو گیا کہ رات کو چھت پر ایک پانی کا برتن ٹوٹ گیا اور ابوایوبؓ نے اس ڈر سے کہ پانی کاکوئی قطرہ نیچے نہ ٹپک جاوے جلدی سے اپنا لحاف پانی پر گرا کر اسے خشک کر دیا۔ صبح ہوئی تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بکمال اصرار آپؐ کی خدمت میں اوپر کی منزل میں تشریف لے چلنے کی درخواست کی۔ آپؐ نے پہلے توتامل کیا، لیکن بالآخر ابوایوب کے اصرار کودیکھ کررضامند ہو گئے۔ اس مکان میں آپؐ نے سات ماہ تک یاابن اسحاق کی روایت کی رو سے ماہ صفر سنہ ۲؍ہجری تک قیام فرمایا۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ ۲۰؍نومبر۲۰۲۰ء)
تسخیر قسطنطنیہ اورحضرت ابو ایوب انصاریؓ کی وفات
قسطنطنیہ مشرقی رومی بازنطینی حکومت کا دارالخلافہ تھا۔ فتح قسطنطنیہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب ہے۔ اس بارے میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث اور بشارتیں تھیں۔ آنحضرتﷺ کو خواب میں دکھایا گیا کہ آپؐ کی امت کے کچھ لوگ یہ شہر فتح کر رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃَ قَیْصَرَ مَغْفُوْرٌلَھُمْ۔(صحیح بخاری كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ۔ بَابُ مَا قِيلَ فِي قِتَالِ الرُّومِ)میری امت کا پہلا لشکر جو بلاد روم پر چڑھائی کرے گا ان کے لیے مغفرت ہے۔
علامہ قسطلانی شارح بخاری مدینہ قیصر کی تشریح فرماتے ہیں کہ اس سے مراد رومی سلطنت کا صدر مقام قسطنطنیہ ہے۔
صحابہ کرام ؓسے لے کر عثمانی ترکوں تک مسلمان ہزار سال تک اس شہر کو فتح کرنے کی کوشش کرتے رہے۔آخر کامیاب ہوگئے
حضرت امیر معاویہؓ کے عہد حکومت ( ۴۱ھ تا ۶۱ھ یعنی ۶۶۱ء تا ۶۸۰ء) میں قسطنطنیہ کی تسخیر کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا۔ جب مکہ اور مدینہ میں اطلاع ہوئی تو کئی اکابر صحابہ حضرت ابوایوب انصاریؓ سمیت اس مہم میں شریک ہوئے۔ پہلا حملہ ۶۶۹ء میں ہوا۔ شہر کا محاصرہ ۶ ماہ تک جاری رہا۔ شہر کے ارد گرد ایک مضبوط فصیل تھی۔ رومی بلند فصیل سے مسلمانوں پر آگ کے گولے برساتے رہے جس سے مسلمانوں کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔اس محاصرے کے دوران حضرت ابو ایوب انصاریؓ بیمار ہو گئے اور وفات پا گئے۔ان کی وصیت کے مطابق انہیں شہر کی فصیل کے نیچے لے جا کر دفن کیا گیا۔سالہا سال کی جد و جہد کے بعد سلطان محمد دوم نے قسطنطنیہ فتح کیا۔ عثمانی ترکوں کے زمانہ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر مقبرہ بنوایا گیا اور ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ اس مسجد کو اتنی اہمیت حاصل ہوئی کہ ہر ترک سلطان( حکمران) کی دستاربندی اس مسجد میں کی جاتی تھی۔ آج بھی ہزاروں مسلمان ان کے مزار پر آکر دعا کرتے ہیں اور اس مسجد میں نماز پڑھتےہیں۔
جامع القرآن
حضرت امام بخاریؒ نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو انصار کے ان پانچ افراد میں سے قرار دیا ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں ہی قرآن کو جمع کر کے اسے مرتب کیا تھا۔(بخاری التاریخ الصغیر جلد ۱)