شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے سے بچو
شادی بیاہ پر فضول خرچی کرنے سے بچو۔ صرف دکھاوے کے لئے اپنی بیٹی کا جہیز نہ بناؤ بلکہ ضرورت کے مطابق بناؤ۔ اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو جہیز لے کر جانے والی بچیاں ہی بعض دفعہ ظالم خاوندوں کے ہاتھوں یا ظالم سسرال کے ہاتھوں تکلیف اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ اس لئے ہمیشہ اللہ کا فضل مانگنا چاہئے۔ صرف جہیز پر انحصار نہیں۔ دعاؤں کے ساتھ بچیوں کو رخصت کرنا چاہئے نہ کہ اپنی دولت اور لڑکی کے جہیز یا فلیٹ یا مکان جو اس کو دیا گیا ہے اس پر انحصار کرتے ہوئے، اس پر گھمنڈ کرتے ہوئے۔ کبھی کسی غریب یا اپنے سے کم پیسے والے کی بچی کی رخصتی کو تحقیر کی نظر سے کبھی نہ دیکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل شامل ہوں گے تبھی بچیاں بھی اپنے گھروں میں خوش رہیں گی،آباد رہیں گی۔(جلسہ سالانہ سوئٹزرلینڈ ۲۰۰۴ء میں خواتین سے خطاب مطبوعہ روزنامہ الفضل ۱۷؍مارچ ۲۰۰۵ء)
ایک تو میں عموماً لڑکے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا کا خوف کریں، ان کی بھی بچیاں ہوں گی، بلاو جہ کے مطالبے نہ کیا کریں۔ تقویٰ پر قدم ماریں۔ آپ بیٹے کی شادی کر رہے ہیں یا کوئی لڑکا اپنی مرضی سے اپنی شادی کرتا ہے۔ یہ شادی ہے کوئی کاروبار نہیں ہے کہ اتنا جہیز ہو گا، اتنا زیور ہو گا، اتنا سرمایہ ہو گا، اتنی فلاں چیز ہو گی تو شادی ہو گی۔ یہ سب دنیا کے دکھاوے کی چیزیں ہیں۔ ایک احمدی کو یہ زیب نہیں دیتیں۔ بعض ایسے خط بچیوں کی طرف سے آتے ہیں۔ شادی کے بعد سسرال کی طرف سے بھی اور لڑکے کی طرف سے بھی یہ طعنے ملتے ہیں کہ کچھ نہیں لے کے آئی۔ بعض لڑکے پاکستان سے بیاہ کرباہر آتے ہیں اور شاید اس سوچ کے ساتھ آ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے وہاں جاکے سب کچھ سسرال سے ہی لینا ہے۔ وہ مطالبے شروع کر دیتے ہیں کہ گھر ہمارے نام کرو اور فلاں چیز ہمارے نام کرو یا فلاں چیز ہمیں دو۔ تو پھر بعض ایسے لوگ ہیں جو اپنے عزیزوں کے زیر اثر اس طرح کے گھٹیا قسم کے مطالبے کر رہے ہوتے ہیں۔ شرم آتی ہے۔ بعض ان میں سے اپنے آپ کو بڑے خاندانی بھی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ تو ایسے لڑکے اور ایسے خاندان اپنی اصلاح کریں اور خدا کا خوف کریں ورنہ بہتر ہے کہ ایسے گھٹیا لوگ جماعت سے قطع تعلق کر لیں اور جماعت کی بدنامی کا باعث نہ بنیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ۳؍جون ۲۰۰۵ء
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۷؍جون ۲۰۰۵ء)