خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۴؍ مارچ ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: ۲۳؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یوم مسیح موعود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ کل تیئس مارچ تھی۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نےاپنے وعدے اور آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق بھیجے ہوئے زمانے کے امام، مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی…قرآنِ کریم کی سورۂ جمعہ کی جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق کے آنے اور اس کے ذریعہ سے ایک جماعت کے قیام کی خبر دی گئی ہے…اس وقت میں حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میںسورۂ جمعہ کی ان آیات کی وضاحت اور جو مختلف نشانیاں آنے والے کے زمانے کی بتائی گئی تھیں اور جو مختلف پیشگوئیاں تھیں اور پھر حضرت مسیح موعودؑکا اپنا دعویٰ کیا تھا وہ مختصراً حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےآنحضورﷺکےمعجزات اورجماعت احمدیہ کی صحابہؓ سےمشابہت کے بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:جیسا کہ صحابہؓ نے آنحضرت ﷺ کے معجزات دیکھے اور پیشگوئیاں مشاہدہ کیں ایسا ہی وہ بھی مشاہدہ کریں گے اور درمیانی زمانہ کو اس نعمت سے کامل طور پر حصہ نہیں ہو گا۔ چنانچہ آج کل ایسا ہی ہوا کہ تیرہ سو برس بعد پھر آنحضرت ﷺ کے معجزات کا دروازہ کھل گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ خسوف کسوف رمضان میں موافق حدیث دارقطنی اور فتاویٰ ابن حجر کے ظہور میں آ گیا یعنی چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان میں ہوا۔ اور جیساکہ مضمون حدیث تھا۔ اسی طرح پر چاند گرہن اپنے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات میں اور سورج گرہن اپنے گرہن کے دنوں میں سے بیچ کے دن میں وقوع میں آیا۔ ایسے وقت میں کہ جب مہدی ہونے کا مدعی موجود تھا اور یہ صورت جب سے کہ زمین اور آسمان پیدا ہوا کبھی وقوع میں نہیں آئی کیونکہ اب تک کوئی شخص نظیر اس کی صفحۂ تاریخ میں ثابت نہیں کر سکا۔‘‘کوئی ثابت نہیں کر سکتا تاریخ سے کہ کبھی ایسا ہوا ہو۔’’سو یہ آنحضرت ﷺ کا ایک معجزہ تھا جو لوگوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا۔ پھر ذُوالسِّنِین ستارہ بھی جس کا نکلنا مہدی اور مسیح موعود کے وقت میں بیان کیا گیا تھا۔ ہزاروں انسانوں نے نکلتا ہوا دیکھ لیا۔‘‘دمدار ستارہ۔’’ایسا ہی جاوا کی آگ بھی لاکھوں انسانوں نے مشاہدہ کی۔ ایسا ہی طاعون کا پھیلنا اور حج سے روکے جانا بھی سب نے بچشمِ خود ملاحظہ کر لیا۔ ملک میں ریل کا طیار ہونا، اونٹوں کا بے کار ہونا، یہ تمام آنحضرت ﷺ کے معجزات تھے جو اس زمانہ میں اسی طرح دیکھے گئے جیسا کہ صحابہؓ نے معجزات کو دیکھا تھا۔اسی وجہ سے اللہ جلّ شانہٗ نے اس آخری گروہ کو مِنْھُمْ کے لفظ سے پکارا تا یہ اشارہ کرے کہ معائنہ معجزات میں وہ بھی صحابہؓ کے رنگ میں ہی ہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ تیرہ سو برس میں ایسا زمانہ منہاجِ نبوت کا اَور کس نے پایا؟ اِس زمانہ میں جس میں ہماری جماعت پیدا کی گئی ہے کئی وجوہ سے اِس جماعت کو صحابہؓ سے مشابہت ہے۔ وہ معجزات اور نشانوں کو دیکھتے ہیں۔‘‘آج بھی دیکھتے ہیں۔ ’’جیسا کہ صحابہ نے دیکھا۔ وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں اور تازہ بتازہ تائیدات سے نور اور یقین پاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے پایا۔ وہ خدا کی راہ میں لوگوں کے ٹھٹھے اور ہنسی اور لعن طعن اور طرح طرح کی دلآزاری اور بدزبانی اور قطع رحم وغیرہ کا صدمہ اٹھا رہے ہیں جیسا کہ صحابہ نے اٹھایا۔‘‘آج بھی یہی حالت ہے۔ ’’وہ خدا کے کھلے کھلے نشانوں اور آسمانی مددوں اور حکمت کی تعلیم سے پاک زندگی حاصل کرتے جاتے ہیں جیسا کہ صحابہ نے حاصل کی۔‘‘…’’بہتیرے ان میں سے ہیں کہ نماز میں روتے اور سجدہ گاہوں کو آنسوؤں سے تر کرتے ہیں جیساکہ صحابہؓ روتے تھے۔ بہتیرے ان میں سے ایسے ہیں جن کو سچی خوابیں آتی ہیں اور الہام الٰہی سے مشرف ہوتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ ہوتے تھے۔ بہتیرے ان میں ایسے ہیں کہ اپنے محنت سے کمائے ہوئے مالوں کو محض خدا تعالیٰ کی مرضات کے لئے ہمارے سِلسلہ میں خرچ کرتے ہیں جیسا کہ صحابہؓ خرچ کرتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ کئی پاؤ گے کہ جو موت کو یاد رکھتے اور دلوں کے نرم اور سچی تقویٰ پر قدم مار رہے ہیں جیسا کہ صحابہؓ کی سیرت تھی۔ وہ خدا کا گروہ ہے جن کو خدا آپ سنبھال رہا ہے اور دن بدن ان کے دلوں کو پاک کر رہا ہے اور ان کے سینوں کو ایمانی حکمتوں سے بھر رہا ہے اور آسمانی نشانوں سے ان کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جیسا کہ صحابہ کو کھینچتا تھا۔ غرض اس جماعت میں وہ ساری علامتیں پائی جاتی ہیں جو اٰخَرِینَ مِنْهُمْ کے لفظ سے مفہوم ہو رہی ہیں۔ اور ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کا فرمودہ ایک دن پورا ہوتا۔!!!‘‘ فرمایا:’’اورآیت اٰخَرِینَ مِنْهُمْ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جیسا کہ یہ جماعت مسیح موعود کی صحابہؓ کی جماعت سے مشابہ ہے ایسا ہی جو شخص اس جماعت کا امام ہے وہ بھی ظلّی طو رپر آنحضرت ﷺ سے مشابہت رکھتا ہے جیساکہ خود آنحضرت ﷺ نے مہدی موعود کی صفت فرمائی کہ وہ آپ سے مشابہ ہو گااور دو مشابہت اس کے وجود میں ہوں گی۔ ایک مشابہت حضرت مسیحؑ سے جس کی وجہ سے وہ مسیح کہلائے گا اور دوسری مشابہت آنحضرت ﷺ سے جس کی وجہ سے وہ مہدی کہلائے گا۔‘‘
سوال نمبر۳: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت مسیح موعودؑکےدعویٰ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ بیان فرماتے ہیںکہ’’جب خدا تعالیٰ نے زمانہ کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اور زمین کو طرح طرح کے فسق اور معصیت اور گمراہی سے بھرا ہوا پا کر مجھے تبلیغِ حق اور اصلاح کے لیے مامور فرمایا اور یہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ …اس دنیا کے لوگ تیرھویں صدی ہجری کو ختم کر کے چودھویں صدی کے سر پر پہنچ گئے تھے تب مَیں نے اس حکم کی پابندی سے عام لوگوں میں بذریعہ تحریری اشتہارات اور تقریروں کے یہ ندا کرنی شروع کی کہ اس صدی کے سر پر جو خدا کی طرف سے تجدید دین کے لئے آنے والا تھا وہ مَیں ہی ہوں تا وہ ایمان جو زمین پر سے اٹھ گیا ہے اس کو دوبارہ قائم کروں اور خدا سے قوت پا کر اسی کے ہاتھ کی کشش سے دنیا کو اصلاح اور تقویٰ اور راستبازی کی طرف کھینچوں۔ اور ان کی اعتقادی اور عملی غلطیوں کو دور کروںاور پھر جب اس پر چند سال گزرے تو بذریعہ وحیٔ الٰہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کے لئے ابتدا سے موعود تھا اور وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہِ راست خدا سے ہدایت پانے والا اور اس آسمانی مائدہ کو نئے سرے سے انسانوں کے آگے پیش کرنے والا تقدیر الٰہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ مَیں ہی ہوں اور مکالماتِ الٰہیہ اور مخاطباتِ رحمانیہ اس صفائی اور تواتر سے اس بارے میں ہوئے کہ شک و شبہ کی جگہ نہ رہی۔ ہر ایک وحی جو ہوتی تھی ایک فولادی میخ کی طرح دل میں دھنستی تھی۔ اور یہ تمام مکالماتِ الٰہیہ ایسی عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے تھے کہ روزِ روشن کی طرح وہ پوری ہوتی تھیں۔‘‘پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’ایسے وقت میں اور ایسے زمانہ میں جبکہ خدا شناسی کی روشنی کم ہوتے ہوتے آخر ہزارہا نفسانی ظلمتوں کے پردہ میں چھپ جاتی ہے بلکہ اکثر لوگ دہریہ کے رنگ میں ہو جاتے ہیں اور زمین گناہ اور غفلت اور بے باکی سے بھر جاتی ہے خدا تعالیٰ کی غیرت اور جلال اور عزت تقاضا فرماتی ہے کہ دوبارہ اپنے تئیں لوگوں پر ظاہر فرماوے سوجیسا کہ اس کی قدیم سے سنت ہے ہمارے اس زمانہ میں جو ایسے ہی حالات اور علامات اپنے اندر جمع رکھتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھے چودھو یں صدی کے سر پر اس تجدیدِ ایمان اور معرفت کے لئے مبعوث فرمایا ہےاور اس کی تائید اور فضل سے میرے ہاتھ پر آسمانی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور اس کے ارادہ اور مصلحت کے موافق دعائیں قبول ہوتی ہیں اور غیب کی باتیں بتلائی جاتی ہیں اور حقائق اور معارفِ قرآنی بیان فرمائے جاتے اور شریعت کے مُعْضِلَاتْ و مشکلات حل کئے جاتے ہیں اور مجھے اس خدائے کریم وعزیز کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور وہ میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنا تمام کام پورا نہ کر لے جس کا اس نے ارادہ فرمایا ہے۔ اس نے مجھے چودھویں صدی کے سر پر تکمیل نور کے لئے مامور فرمایا اور اس نے میری تصدیق کے لئے رمضان میں خسوف کسوف کیا اور زمین پر بہت سے کھلے کھلے نشان دکھلائے جو حق کے طالب کے لئے کافی تھے اور اس طرح اس نے اپنی حجت پوری کر دی۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےحضرت اقدس مسیح موعودؑ کے’’مسیح ومہدی‘‘ ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں غیروں کی طرف سے جو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ سوال کرنا ان کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کر لیں…پھر اس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟ ٹھیک ہے زمانہ پہچان ہے، حالات بھی ایسے ہیں سب کچھ ہے اور نشانیاں بھی ظاہر ہیں لیکن یہ کس طرح پتہ لگے گا کہ مسیح موعود تم ہی ہو؟فرماتے ہیں کہ اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانے اور جس ملک اور جس قصبے میں مسیح موعودؑکا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اورجن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علت غائی ٹھہرایا گیا ہے اور جن حَوادِثِ ارضی اور سماوی کو مسیح موعودؑ کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعودؑکا خاصہ ٹھہرایا گیا ہے وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں اور میرے ملک میں جمع کردی ہیں۔حادثات بھی ہو رہے ہیں، بیماریاں بھی آ رہی ہیں، زلازل بھی آرہے ہیں، آسمانی نشانیاں بھی پوری ہو رہی ہیں، میرا دعویٰ بھی موجود ہے اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں سے نشان بھی دکھا رہا ہے تو پھر تم کس طرح کہتے ہو کہ میں نہیں ہوں۔ یہی تو دلیل ہے۔ وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانے میں ا ور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لیے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں اور آسمانی تائیدات میں آپؑ نے بتایا کہ دمدار ستارے، سورج چاند گرہن، طاعون کا پھیلنا، زلزلے آنا بہت ساری چیزیں ہیں۔
سوال نمبر۵:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخالفین احمدیت کےانجام کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں: ’’وہ ڈاکٹر ڈوئی جو امریکہ اور یورپ کی نگاہوں میں بادشاہوں کی طرح اپنی شوکت اور شان رکھتا تھا اس کو خدا نے میرے مباہلہ اور میری دعا سے ہلاک کیا اور ایک دنیا کو میری طرف جھکا دیا۔ اور یہ واقعہ دنیا کے تمام نامی اخباروں میں شہرت پاکر ایک عالمگیر شہرت کے رنگ میں زبان زدِ عوام و خواص ہو گیا۔‘‘پھر ایک اَور نشان کے بارے میں آپؑ بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تائید کس طرح آپؑ کے ساتھ ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’ہر ایک منصف مولوی غلام دستگیر قصوری کی کتاب کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور اپنی کتاب فیضِ رحمانی میں اس کو شائع کر دیا۔‘‘ اور پھر اس مباہلہ سے صرف چند روز بعد فوت ہو گیا اور کس طرح چراغدین جموں والے نے اپنے طور سے مباہلہ کیا اور لکھا کہ ہم دونوں میں سے جھوٹے کو خدا ہلاک کرے گا اور پھر اس سے صرف چند روز بعد طاعون سے مع اپنے دونوں لڑکوں کے ہلاک ہو گیا۔‘‘
سوال نمبر۶:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کےآخرپرالفضل انٹرنیشنل کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:کل تئیس مارچ سے الفضل انٹرنیشنل جو ہفتہ وار بلکہ ہفتہ میں دو دفعہ شروع ہو گیا تھا اب وہ روزنامہ الفضل کی صورت اختیار کر گیاہے۔اس لیے زیادہ سے زیادہ اردو جاننے والوں،پڑھنے والوں کو اس کو پڑھنا بھی چاہیے،خریدنا بھی چاہیے،سبسکرائب کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ اس سےفیض اٹھانے کی سب کو توفیق دے اور الفضل میں لکھنے والوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اعلیٰ مضامین لکھنےوالے ہوں۔