حضرت داؤد علیہ السلام
موسم سرد ہونے کے باعث محمود اور احمد کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ کُشتی کر رہے تھے اور دادی جان ان کو دیکھ رہی تھیں۔ محمود نے احمد کو نیچے گراتے ہوئے خوشی سے نعرہ لگایا:دادی جان دیکھیں!میں نے احمد بھائی کو ہرا دیا ہے۔ احمد جان بوجھ کر ہارنے کی ایکٹنگ کررہا تھا۔
دادی جان: واہ بھئی واہ !محمود میاں تو بہت مضبوط اور طاقتور ہوگئے ہیں ماشاءاللہ سے۔چلیں آج میں آپ کو ایک بہادر طاقتور بادشاہ نبی کی کہانی سناتی ہوں جنہوں نے ایک پہلوان کو ہرا دیا اور جنگ جیت لی۔
محمود اور احمد اکٹھے بولے: وہ کونسے نبی تھے ؟
دادی جان: وہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤدؑ تھے جو بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ہیں۔ فلسطین کے جس علاقے میں حضرت داؤدؑ رہتے تھے اس پر ایک اور فلستی نامی قوم کے لوگوں نے حملہ کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی مدد کے لیے سموئیل نبی کے ذریعے ساؤل کو بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کیا تاکہ وہ فلستی قوم کا مقابلہ کرسکیں۔ اسی دور میں حضرت داؤدؑ ایک بہادر نوجوان کے طور پر سامنے آئے۔ جنگ کے دوران ان کے والد نے انہیں کہا تھا کہ جاؤ اور اپنے دونوں بڑے بھائیوں کا حال پتاکر کے آؤ۔ حضرت داؤدؑ چونکہ ابھی نوجوان تھے اور جنگی امور سے واقف نہ تھے اس لیے جنگ پر نہ گئے تھے بلکہ گھر رہ کر اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ بھیڑ بکریوں کی رکھوالی کر رہے تھے اور انہیں چَرانے کے لیے لے جایا کرتے تھے۔ میدان جنگ میں پہنچ کر وہ اپنے بھائیوں سے باتیں کرنے لگے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فلستیوں کی طرف سے ایک اونچا لمبا اور صحت مند پہلوان نکل کر بنی اسرائیلیوں کی فوج کو للکارنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی بھی شکست نہیں دے سکے گا۔
احمد: سب نے مل کر حملہ کیوں نہیں کیا؟
دادی جان: جنگوں میں رواج یہ تھا کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے دونوں لشکر اپنے اپنے طاقتور سپاہی میدان جنگ میں بھیجتے تھے جو ایک دو سرے کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے۔ وہ پہلوان مسلسل بنی اسرائیل کی فوج کو برا بھلا کہہ کر اپنا آدمی بھیجنے کے لیے کہہ رہا تھا لیکن کوئی ایک شخص بھی مقابلے کے لیے نہیں گیا۔ یہ صورتحال خاصی پریشان کن تھی کیونکہ اس انفرادی مقابلے میں نہ نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ بنی اسرائیلی اپنے دشمن کے مقابل پر کمزور ہیں اور دشمن کے حوصلے بلند ہو رہے تھے۔
محمود: پھر کیا ہوا ؟
دادی جان: یہ دیکھ کر بنی اسرائیلی لشکر کے سپہ سالار اور بادشاہ نے اعلان کروا دیا کہ جو کوئی شخص اس پہلوان کو شکست دے گا میں اسے نہ صرف بہت سی دولت دوں گا بلکہ میں اسے اپنا داماد بھی بنا لوں گا۔ حضرت داؤدؑ کی طبیعت میں بھی جوش پیدا ہوا ۔ انہوں نے فوراً بادشاہ کے پاس پہنچ کرکہا کہ میں اس پہلوان سے مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔
تم؟ بادشاہ نے حیرت سے کہا۔ جسے جنگ لڑنی نہیں آتی بھلا کیسے اس پہلوان کامقابلہ کر سکے گا ۔ حضرت داؤدؑ نے کہا: بادشاہ سلامت! گو میں عمر میں چھوٹا ہوں اور میں مانتا ہوں کہ مجھے جنگ لڑنی نہیں آتی مگرمجھے یقین ہے کہ میں اس پہلوان کو شکست دے سکتا ہوں کیونکہ میں جنگل میں اپنی بکریاں چرانے کے لیے جا تا ہوں اور جب شیر یا ریچھ ہمارے ریوڑ سے کوئی جانور اٹھا کر لے جا تا ہے۔ ایسی صورت میں اس شیر یا ریچھ سے مقابلہ کر کے اپنا جانور واپس لے آتا ہوں۔ بادشاہ سلامت ! اگر میں شیر کو شکست دے سکتا ہوں تو پھر اس پہلوان کو کیوں نہیں ہراسکتا۔ یہ دلیل سننے کے بعدبادشاہ نے حضرت داؤ دؑ کو اس پہلوان سے مقابلہ کرنے کی اجازت دے دی اور سامان جنگ بھی دیا۔حضرت داؤدؑ کو چونکہ ان چیزوں کو استعمال کرنے کا تجربہ نہ تھا اس لیے وہ اپنی لاٹھی لے کر پہلوان سے مقابلے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں سے انہوں نے چند پتھر بھی اٹھا کر اپنے تھیلے میں رکھ لیے اور اپنی غلیل اپنے ہاتھ میں تھام لی۔ پہلوان نے جب یہ دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکا جو صرف ایک لاٹھی ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کی طرف آ رہا تھا تو اسے بہت غصہ آیا۔
احمد پلک جھپکائے بغیر سن رہا تھا دادی جان کے سانس لیتے ہی بولا: پھر کیا ہوا دادی جان!
دادی جان: حضرت داؤدؑ نےکہا میرا خدا میرے ساتھ ہے۔ بنی اسرائیل کا خدا میرے ساتھ ہے وہ طاقتور ہاتھ میرے پیچھے ہے۔ وہ صرف مجھے غلبہ دے گا اور تجھے تباہ و برباد کر دے گا۔ یہ کہہ کر حضرت داؤدؑ نے پھرتی کے ساتھ اپنی غلیل نکالی اور ایک پتھر اس میں رکھ کر نشانہ لے کر پہلوان کو مارا۔ یہ پتھر پہلوان کے ماتھے پر لگا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کے ماتھے میں گھس گیا۔ یہ چوٹ اتنی شدید ثابت ہوئی کہ پہلوان لڑ کھڑا کر زمین پر گر گیا۔ داؤد آگے بڑھے اور انہوں نے اس کی میان میں سے تلوار نکال کر اس کا کام تمام کر دیا۔ پہلوان کا مرنا تھا کہ فلستیوں کے حوصلے پست ہو گئےاور بنی اسرائیلی پورے جوش اور جذبے کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑے اور جنگ میں فتح حاصل کر لی۔بادشاہ حضرت داؤدؑ سے بہت خوش تھا ۔ اس نے حضرت داؤدؑ کو بلا کر شاباش دی اور انعام و اکرام کا وعدہ کیا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تم اب ہمارے محل میں ہمارے ساتھ رہو گےاور آپ کو ایک جنگی دستے کا سالار بھی مقرر کر دیا تھا۔
محمود: وہ بھی بادشاہ بن گئے؟
دادی جان: جی ہاں! حضرت داؤدؑ نے اپنے اچھےاخلاق سےجلد ہی محل میں موجود تمام لوگوں کے دل جیت لیے اور نہ صرف یہ بلکہ علاقے کے لوگ حضرت داؤدؑسے بہت خوش تھے۔ اور لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت اور عزت روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔ پھر حضرت داؤدؑ حبرون چلے گئےوہاں بنی اسرائیل نے متفقہ طور پر آپ کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ یہ قریباً 1050قبل مسیح کی بات ہے۔حضرت داؤدؑ کی طاقت دن بدن بڑھتی چلی گئی اور آپ ایک عظیم بادشاہ کے طور پر دنیا کے سامنے آئے۔ آپ کی حکومت کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور آپ کو ترقیات پر ترقیات عطا ہوتی رہیں۔ گو بعض دفعہ فتنوں نے بھی آپ کی حکومت میں سر اٹھایا لیکن آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل اور خاص راہنمائی کی وجہ سے ان فتنوں پر قابو پا لیا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت فراست اور دانائی عطا کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اپنی عقلمندی کی بنا پر حکومت کو مضبوط کیا۔ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہر لمحہ آپ کے ساتھ تھی۔قرآن کریم میں حضرت داؤدؑکا ذکر نو سورتوں میں سولہ مرتبہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بنایا اور ایک کتاب زبوربھی عطا کی تھی ۔آپ نے اپنے دور حکومت میں بہت سے شرارتی اور فسادی لوگوں کا خاتمہ کیا۔حضرت داؤدؑ کی تربیت کے نتیجے میں بڑے بڑے لوگ اور علماء بھی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے ساتھ مل کر عبادات بجا لاتے اور تسبیحات کرتے تھے جنہیں قرآن کریم نے پہاڑ اور پرندے بیان کیا ہے جو آپ کے ساتھ مل کر خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے تھے۔
گڑیا: ان کے بیٹے حضرت سلیمانؑ بھی نبی تھے۔
دادی جان: جی ہاں! ان شاءاللہ !اُن کی کہانی کسی اور دن ۔ اب سونے کا وقت ہوچلا ہے۔
(درثمین احمد ۔ جرمنی)