الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت سیّدہ اُمّ طاہرمریم النساء بیگم صاحبہؓ
(گذشتہ سوموار کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ سے پیوستہ)
محترمہ صاحبزادی امۃالرشید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اماں جانؓ اور آپا جانؓ (حضرت اُمّ طاہرؓ)کا باہم سلوک ماں بیٹی جیسا تھا۔ حضرت اماں جانؓ کسی کام کے لیے بلواتیں تو آپؓ فوراًپہنچتیں۔خاندان حضرت اقدسؑ سے آپؓ کو والہانہ محبت تھی۔خاندان کا ہر فرد آپؓ سے پیار کرتا تھا۔ جلسہ سالانہ پر آپؓ کی مصروفیات اس قدر بڑھ جاتیں کہ کھانے کا ہوش نہ رہتا۔آ پؓ کا کمرہ خواتین کا دفتر جلسہ سالانہ بنا ہوتا اور سب ڈیوٹی دینے والیوں کے بستر بھی وہیں ہوتے۔ جلسہ سالانہ کا کام بہت دن پہلے شروع ہو جاتا۔ آپؓ ڈیوٹیاں تقسیم کرتیں، بار بار جا کر جلسہ گاہ کا معائنہ کرتیں، ہدایات دیتیں، نئی نئی تجاویز سوچتیں۔دوران جلسہ مستورات کو خاموش کرانے کے کٹھن کام کے لیے جلسہ گاہ کو رسیوں سے چھوٹے چھوٹے حلقوںمیں تقسیم کرکے نگرانی کا کام آپؓ نے تجویز کیا۔ آپؓ بہت سویرے جلسہ گاہ میں پہنچ جاتیں۔شام تک وہاں رہتیں، انتظام کی خاطر ساری جلسہ گاہ میں گھومتی پھرتیں، دیگر اجتماعات پر بھی بہت مستعد رہتیں۔جلسہ سالانہ خواتین ۱۹۳۰ء میںآپؓ منتظمہ جلسہ سالانہ تھیں۔ آپؓ نے ’’عورتوں کی اصلاح خود اُن کے ہاتھ میں‘‘ کے موضوع پر تقریر بھی کی جس کے فوراً بعدہی سوا دو صد عورتوں نے بیعت کی۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: حضرت اُمّ طاہرؓ بہت سی غیرمعمولی خوبیوں کی مالک تھیں۔مرحومہ کا نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا۔یہ وصف اس قدر ممتاز تھا کہ ان کا نمونہ اکثر مجاہد مَردوں کے لیے بھی قابل رشک تھا۔ صحت کی خرابی کے باوجود یوں نظر آتا تھا کہ گویا ان کی روح جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے لیے ہر وقت چوکس سپاہی کی طرح ایستادہ اور چشم براہ رہتی ہے۔حضرت خلیفۃالمسیح یا جماعت کی طرف سے جو تحریک بھی ہوتی تھی، آپؓ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ اس کا خیرمقدم کرتی تھیں اور پھر اپنے ذاتی اثر اور دن رات کی جدوجہد کے ساتھ اس کے متعلق مستورات میں ایک غیرمعمولی حرکت پیدا کردیتی تھیں۔ احمدی خواتین کا جھنڈا اُن کی ذاتی توجہ سے بنا۔ اس کا ڈیزائن حضرت صاحبؓ سے منظور کرایا اور پھر جھنڈا تیار کرانا اور خواتین کے جلسہ میں اس کا نصب ہونا اور لہرانا سب کچھ انہی کی کوشش کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ لوائے احمدیت کی تیاری میں بھی ہماری اس بہن کا وافر حصہ تھا۔حضرت صاحب کے ارشاد پر صحابیات سے اس کے لیے آپؓ نے سوت کتوایا۔ صحابیات کو اطلاع کروائی، چرخوں کا انتظام فرمایا اور پھر دارالمسیحؑ میںسارا سوت کتوا کر وقت پر مجھے بھجوا دیا۔ مالی قربانی میں بھی سیدہ موصوفہ کو خداتعالیٰ نے ممتاز حیثیت عطا کی تھی اور مَیں جب ان کے چندوں کو دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ اس قلیل آمد پر اتنے بھاری چندے کس طرح ادا کرتی ہیں۔ حضورکی طرف سے جو ماہوار خرچ گھروں میں ملتا ہے وہ بہت ہی نپا تلا ہوتا ہے۔ مگر باوجود اس کے سیدہ موصوفہ نا معلوم کس طرح اپنے گھر کے اخراجات سے رقمیں کاٹ کر ہر تحریک میں پیش پیش رہی تھیں۔ حتیٰ کہ تحریک جدید کے امانت ذاتی کے شعبہ میں بھی محض شرکتِ ثواب کی خاطر حصہ لے رکھا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ سوائے حضرت خلیفۃالمسیح والی باری کے دن کے، عموماً گھر کا کھانا پینا نہایت درجہ سادہ بلکہ غریبانہ ہوتا تھا۔ مرحومہ موصیہ تو شروع سے ہی تھیںمگر کئی سال سے اپنے حصہ وصیت کو دسویں حصہ سے بڑھا کر ایک تہائی کر دیا تھا۔
ایک صدی قبل حضرت مصلح موعودؓ نے یورپ میں مسجد کی تعمیر کے لیے جب خواتین سے مالی قربانی کا مطالبہ کیا تو فرمایا: ’’عورتوں کی مالی بنیاد زیورات پر ہوتی ہے وہ اس سے چندہ دے سکتی ہیں۔‘‘ حضرت سیدہ ؓ نے ایک طلائی زیور سمیت کُل ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دیا۔ پہلے یہ تحریک ۳۰؍ ہزار روپے کی تھی جسے بعد میں ۷۰؍ ہزار تک بڑھادیا گیا۔ قریباً تہتّر ہزار روپے جمع ہوئے جن سے مسجد فضل لندن تعمیر ہوئی۔
حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں کہ آپؓ کی یادوں کے ہراول دستوں میں ہمیشہ مجھے آپؓ کا جذبۂ خدمت خلق نظر آتا ہے۔ بیکسوں، یتیموں، مساکین، مصیبت زدگان اور مظلوموں سے گہری ہمدردی آپؓ کی شخصیت کا ایک لا ینفک جزو تھا۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ جذبۂ ہمدردی ان کے خون میں گھل مل کران کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔یہ ہمدردی جذباتی بھی تھی،قولی بھی اور فعلی بھی۔اور یہ رنگ ایسا غالب تھا گویا سیرت کے دوسرے تمام پہلوؤں میں سرایت کرگیا تھا۔اس جذبہ کو تسکین دینے کے لیے آپؓ نے مالی قربانی بھی بہت کی،جانی بھی اور جذباتی بھی۔
حضرت سیدہ مہرآپا صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپؓ میں رحم کا جذبہ بدرجہ اتم تھا۔ اگر کوئی اپنے دکھ کا ذکر کرتا تو آپؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ آپؓ چین نہ لیتیںجب تک اُس کی ہر قسم کی مدد نہ کرتیں اور اس کے لیے اس قدر بےدریغ خرچ کرتیںکہ اس بات کا مطلق احساس نہ رہتا کہ اپنے اخراجات بھی نگاہ میں رکھنے چاہئیں۔یہ رحم کا جذبہ صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ ہر مخلوق کے لیے تھا۔ آپؓ کو بنفس نفیس عملاً خود کام کرتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔ سارا سارا دن مشین پر بیٹھی ہوئی ہوتیں۔ خدمت کی شوقین دوسری مستورات کو لگایا ہوتا اور غرباء کے لیے لحاف،کپڑے بن رہے ہوتے۔طبیعت میں ذرا بھر نمائش اور نمودکا نام نہ تھا۔ سب کچھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا کرتیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ان کے گھر میں غریبوں،بیواؤں اور یتیموں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ آپؓ نے کئی یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اپنے گھر میں پالا اور ہمیشہ اپنے بچوں کی طرح سلوک کیا، ان کے دکھ کو اپنا دکھ اور ان کی راحت کو اپنی راحت سمجھا۔
محترم سید بشیر احمد شاہ صاحب (کارکن دوا خانہ خدمت خلق)کا بیان ہے کہ ایک ہمسایہ بیوہ ہندو عورت کا آپؓ بہت خیال رکھتی تھیںاور اس کی مالی امداد خوب کرتی تھیں۔ آپؓ کی تدفین سے واپسی پر مَیں نے اسے سڑک بہشتی مقبرہ کے پُل پربیٹھے دیکھا کہ وہ رو رو کر کہہ رہی تھی کہ ہائے! میری ماں تو اب فوت ہوئی ہے۔میَں اب بیوہ ہوئی ہوں پہلے نہیں تھی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: وہ مہمان نواز انتہا درجہ کی تھیں۔ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیںاور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں۔خود تکلیف اٹھاتیں۔بچوں کو تکلیف دیتیںلیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بو جھ لاد لیتیںکہ مَیں بھی خفا ہوتا کہ آخر لنگرخانہ اسی غرض کے لیے ہے۔تم کیوں اپنی صحت برباد کرتی ہو۔ آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اٹھانی پڑتی ہے۔
حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ بیان کرتی ہیں: آپؓ کے گھر میں مہمانوںکا سلسلہ رات دن رواں دواںرہتا۔ بعض مہمان تو کئی کئی ماہ قیام کرتے اور آپؓ کی خاطرمدارت کا یہ عالم ہوتا کہ دیکھنے والے یہ سمجھتے کہ یہ مہمان ابھی اور اسی وقت آئے ہیں۔روز مرہ لوگوں کی آمدورفت کا یہ عالم تھاکہ چائے اور کھانا جو گھر کے افراد کے لیے پکتا اس سے دوچند کا ہمیشہ اہتمام ہوتا۔ وہ تمام کا تمام کھانا ختم ہو جاتا اور اکثر مزید کھانا تیار کرنا پڑتا اور یہ سلسلہ صرف کھانے کا ہی نہ ہوتا بلکہ چائے وغیرہ کے اوقات پر بھی یہی سلسلہ رہتا۔ بعض اوقات کام کرنے والے چِڑ جاتے کہ سب کچھ ختم ہو کر پھر بھی پوری نہیں پڑتی، بار بار کھانا پکانا پڑتا ہے۔ تو پھر مسکرا کر فرماتیں: خوشی خوشی مہمانوں کو خوش آمدید کہا کرو اور ان کی خدمت کیا کرو، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے پیغامبر ہیں۔
حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ فرماتے ہیں: امی کی طبیعت میں مہمان نوازی بہت تھی۔ چونکہ خود کھانا بہت اچھا پکاتی تھیںاس لیے دعوتوں اور مہمانوں کی آمد پر کوئی نہ کوئی کھانا اپنے ہاتھ سے ضرور پکاتی تھیں۔ روزمرہ کاکھانا جس صوفیانہ حد تک سادہ ہوتا تھا اسی قدر دعوتیں پُررونق ہوا کرتی تھیں۔جلسہ سالانہ کے دنوں میںتو مہمان اس کثرت سے آتے تھے کہ ہمارے ہاں ایک چھوٹی سی نَوآبادی بن جاتی تھی اور محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ یہ مہمانوں کی گہما گہمی گھر کے کسی فرد پر کبھی بارخاطر نہیں ہوئی بلکہ معاملہ برعکس تھا۔ جلسہ کے مہمانوں کی آمد کی خوشی سے ہمارے دل بلیوں اچھلنے لگتے تھے۔ سیکرٹری لجنہ اماءاللہ ہونے کی وجہ سے مستورات کے جلسہ سالانہ کے انتظامات،کثرت سے ملنے والی مہمان خواتین کا آنا جانا۔گھر کے مہمانوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام۔ صرف کھانا لگوانے اور برتن لگوانے اور اٹھوانے کا کام ہی ایک اچھی خاصی مصروفیت تھی۔صبح سے لے کر شام تک کام کا ایسا چکر چلتا تھا کہ اس کی حرکت کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ایک عام قویٰ کے آدمی کے سانس اکھیڑ دینے کے لیے بہت کا فی تھا۔ عام طور پر تھکان دُور کرنے کے لیے گرم پانی کی بوتلیں بستر میں رکھ کر سوتی تھیںلیکن کبھی پیشانی پر بل نہیں آیا۔ چہرے پر کبھی بھی بیزاری کے آثار ظاہر نہیںہوئے۔ امی کو اپنی اولاد سے بھی بہت ہی محبت تھی اوراس کے نیک اور صالح ہونے کا اتنا خیال رہتا تھاکہ اکثر خدا کے حضور اولاد کی نیکی اور تقویٰ اور طہارت کے لیے اور ہر قسم کی دینی ترقیات کے لیے گڑ گڑا کر دعائوں میں مصروف رہتیں۔ اور خاص طور پر میرے لیے۔ امی کے یہ الفاظ مجھے تا زندگی نہ بھولیں گے جب امی کی آنکھیں غم سے ڈبڈبائی ہوئی تھیں اور امی نے بھرائی آواز سے مجھے کہا کہ ’’طاری! مَیں نے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ اے خدا! مجھے ایک ایسا لڑکا دے جو نیک اور صالح ہو اور حافظ قرآن ہو۔‘‘ خدا کے پاک کلام قرآن کریم سے بےانتہا محبت تھی۔مجھے اکثر کہتیں: ’’طاری !قرآن کریم کی بہت عزت کیا کرو۔‘‘ مجھے نماز پڑھانے کا ایسا شوق تھا کہ بچپن سے ہی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر مجھے نماز کے لیے مسجد میں بھیج دیا کرتی تھیں۔جب مَیں نماز پڑھ لیتا تو امی کا چہرہ وفور مسرت سے تمتما اٹھتا۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: انہیں اپنی اولاد کی بہتری اور بہبودی اور اس سے بڑھ کر ان کی دینداری کا بےحد خیال رہتا تھا اور وہ ان کے واسطے نہ صرف خود بےانتہا دعائیں کرتی تھیں بلکہ دوسروں کو بھی کثرت کے ساتھ تحریک کرتی رہتی تھیں۔ اور پھر اولاد کے سا تھ ان کی محبت کا رنگ بھی نرالا تھا۔ ان کی عادت تھی کہ بچوں کوبےتکلّف عزیزوں کی طرح اپنے ساتھ لگائے رکھتی تھیں۔بایں ہمہ ان کے بچوں میں اپنی والدہ محترمہ کا بےحد ادب تھا اور وہ اپنی والدہ کے لیے حقیقتاًقرّۃالعین تھے۔ آپؓ نے اپنے پیچھے تین لڑکیاں اور ایک لڑکا چھوڑا ہے۔ وہ اس بات کے لیے ہمیشہ دعائیں کرتی تھیںاور کرواتی تھیں کہ ان کا لڑکا طاہر احمددین و دنیا کی اعلیٰ ترین ترقیاں حاصل کرے اور اس کی تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔
حضرت سیّدہ کی آخری بیماری میں طبّی مشورہ کے ماتحت حضورؓ آپؓ کو لاہور لے گئے۔ پہلے لیڈی ولنگٹن ہسپتال اور پھر سرگنگا رام ہسپتال میں داخل رہیں لیکن حالت نہ سنبھلی اور آخر ۵؍مارچ ۱۹۴۴ء کو ۳۹؍سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ حضورؓ نے پہلے لاہور میں اور پھر قادیان میں نماز جنازہ پڑھائی جہاں دس ہزار افراد شامل ہوئے۔
آپؓ کی وفات پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے ایک نظم بعنوان ’’اپنی مریم کا جنازہ دیکھ کر‘‘ میں فرمایا:
الٰہی کس دلہن کی پالکی ہے
ملائک جس کو آئے ہیں اٹھانے
بصد تکریم جاتے ہیں جلو میں
فرشتے چادرِ انوار تانے
ہزاروں رحمتوں کے زیرِ سایہ
دعاؤں کے لیے بھاری خزانے
ہمارے گھر کی زینت جا رہی ہے
بساطِ گلشنِ جنت سجانے
………٭………٭………٭………