’’در دلم جوشد ثنائے سرورے‘‘
دل میں ہے جوشِ ثنائے سرورِ عالی تَبار
حُسن و خوبی لُطف و احساں میں ہے جو یکتا نَدار
وہ کہ جس کی جان محبوبِ ازل پر ہے نثار
وہ کہ جس کی روح کو حاصل ہے وصلِ کردگار
جو عنایاتِ خداوندی کے سائے میں پلا
جو ہر اِک لمحہ خدا کی گود میں پل کر بڑھا
وہ کہ جس کی نیکی و تقویٰ ہے اِک بحرِ عظیم
وہ کہ اپنے حسن و خوبی میں ہے اِک دُرِّ یتیم
وہ سخاوت اور بخشش میں ہے اِک ابرِ بہار
وہ کہ جو فیض و عطا میں بھی ہے اِک روشن منار
وہ مجسم رحم ہے، ہے رحمتِ حق کا نشاں
وہ سخی فیضِ خداوندی کا بحرِ بیکراں
اُس کے روشن دل نے ہر اِک دل منور کر دیا
سینکڑوں تیرہ دلوں کو ماہ و اختر کر دیا
اُس نے جب دنیا پہ رکھا اپنا بابرکت قدم
رحمتِ باری کا پھر نازل ہؤا اَبرِ کرم
احمدِ آخر زماں کے نور سے پا کر جِلا
ہر دلِ مُردہ مثیلِ نیَّرِ تاباں ہؤا
اُس کو حاصل ہے بنی آدم سے برتر اِک جمال
لعل و گوہر سے بھی روشن اُس کو حاصل ہے جلال
اُس کے لب سے علم و حکمت کا ہے اِک چشمہ رواں
اُس کے دل میں معرفت کا ایک کوثر ہے نہاں
عاشقِ صدق و سداد و راستی ہے وہ امیں
دشمنِ شرّ و فساد و کذب ہے وہ مہ جبیں
وہ مہربانی جو اُس نے کی خدا کی خَلق پر
وہ کسی کو اپنی ماں میں بھی نہ آئے گی نظر
ناتوانوں کا ہؤا رحم و کرم سے دوست دار
نااُمیدوں کا بھی شفقت سے ہؤا وہ غمگسار
اُس کا چہرہ ماہ و اختر سے بھی ہے بڑھ کر حسیں
مُشک و عنبر اُس کی رہ کی خاک سے بڑھ کر نہیں
اُس کے نفس پاک پر ہیں ختم ساری خوبیاں
ختم ہو جاتے ہیں اِس سے انبیاء سب بے گماں
وہ ہے ہر ملک و زماں کے واسطے اِک آفتاب
رہبرِ ہر اسود و احمر ہے وہ عالی جناب
مجھ کو اُڑنے کے لیے گر بال و پر ہوتے عطا
اُس کے کوچے کی طرف پرواز کرتا بے خطا
(تنویر احمد ناصر۔ قادیان)