اداریہ: دعا کی چٹھی اور نبی کی پہچان۔نمبر۳ (ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار)
۱۶؍ جنوری کے پرچے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر ان کے ایک صحابی حضرت بابو فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ کے قبولِ احمدیت کا تذکرہ ہؤا تھاکہ کیسے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پیارے مسیح اور مہدی کی ٹھنڈی چھاؤں میں جگہ دی اور پھر عمر بھر اللہ تعالیٰ کے نبی کی برکات سے فیض یاب ہوتے رہے۔ آج جالندھر سے تعلق رکھنے والے خان صاحب حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہو گا جنہوں نے ۱۹۰۱ء میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں شمولیت اختیار کی۔آپؓ کا ابتدائی تعلیمی ریکارڈ بہت عمدہ رہا جس کی وجہ سے آپ وظائف کے مستحق قرار پاتے رہے۔ انٹرنس تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد شملہ کے محکمہ موسمیات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دو سال کے بعد کوشش کر کے دفتر ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس میں تبدیلی کرا لی۔ پہلی جنگِ عظیم میں آپ کی خدمات کے پیش نظر آپ کو حکومتِ ہند کی طرف سے ’’خاں صاحب‘‘ کا خطاب دیا گیا۔۱۹۳۲ء میں پنشن لے کر قادیان منتقل ہو گئے۔ ہجرت کے بعد ربوہ میں سکونت اختیار کی اور وہیں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ اس اداریے کے عنوان سے مطابقت رکھتا ہوا ایک بیان اصحابِ احمد جلد ۳ میں حضرت منشی برکت علی صاحبؓ سے منسوب ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں: قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء کے زمانہ میں روحانیت کا عام انتشار ہوتا ہے۔فرشتے مستعد طبائع کوصداقت کی طرف مائل کرتے ہیں۔اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ ہر انسان اپنی اپنی طبیعت کے مطابق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔جس شخص کو دلائل سے دلچسپی ہوتی ہے وہ اس میں ترقی کر جاتا ہے۔بعض کو عبادات سے دلچسپی ہوتی ہے وہ اس میں ترقی کرتے ہیں۔بعض طبائع مالی قربانی کی طرف مائل ہوتی ہیں اور وہ اس میں ترقی کر جاتی ہیں۔مَیں نے کہا۔برکت علی!تُو کس گروہ میں آتا ہے۔پھر خیال آیا کہ برکت علی!تُو سمجھ لے کہ تجھے دلائل دے کر اور معقولیت سے بات کرنے کا شوق تھا اور خدا تعالیٰ نے تجھے اس میں ترقی دے دی ہے۔
آپؓ کا احمدیت سے تعارف شملہ میں آپ کے ہمراہ رہائش پذیر کچھ احمدی دوستوں کے توسط سے ہوا جن سے آپ حیات و وفاتِ مسیحؑ سمیت دیگر مذہبی امور پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ چونکہ احمدی جابجا اپنی گفتگو میں آیاتِ قرآنیہ کا حوالہ دیتے تھے اس لیے آپ نے بھی قرآنِ کریم کے ترجمہ کو بغور پڑھا۔ آپ کی طبیعت میں رشد اور سعادت تھی اس لیے قرآنِ کریم کو احمدیوں کے حق میں پایا۔ ان ہی دنوں بعض واقعات کی بنا پر آپؓ مولویوں کی علمی خیانت کی وجہ سے ان سے بدظن ہو گئے۔
آپؓ کی سیرت کے دو امتیازی پہلو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر باقاعدہ ایمان لانے سے قبل ہی ماہوار چندے کی ادائیگی کرنا اور باقاعدہ بیعت سے قبل اپنا نام احمدی لکھوانا ہیں۔ آپؓ نہ صرف مالی قربانی کرنے والوں میں شامل ہوئے بلکہ چندے کی برکت سے احمدیت کی حقانیت سے آشنائی بھی پائی۔ آپؓ خود اس کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں کہ شملہ میں قیام کے ’’دنوں میں ایک دو اَور باتیں ایسی پیدا ہوگئیں جن کی وجہ سے مجھے احمدیت کی طرف زیادہ رغبت ہوگئی اور چونکہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عقیدت پیدا ہوچکی تھی اس لئے مَیں نے احمدیوں کو چار آنہ ماہوار چندہ بھی دینا شروع کردیا۔اس کی وجہ محض حُسنِ ظن تھا جو مجھے ان لوگوں پر تھا کہ یہ لوگ روپیہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔چنانچہ میں نے کئی ماہ تک چندہ دیا۔ میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کوئی میرے رستہ میں خرچ کرتا ہے تو میں اُسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر دیتا ہوں۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ دوسرے جہان میں بڑھا چڑھا کردے گا۔لیکن بہت سے صاحبِ تجربہ اولیاء اورصوفیاء نے کہا ہے اور قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں بھی کئی گنا بڑھا چڑھا کر بدلہ دیتا ہے۔مَیں نے خیال کیا کہ مَیں نے یہ تھوڑی سی رقم خدا تعالیٰ کے رستہ میں دی ہے۔اگر یہ سِلسلہ فی الواقعہ سچا ہؤا تو خدا تعالیٰ مجھے اسی دنیا میں اس سے بڑھ چڑھ کر روپیہ دیگا لیکن حیران تھا کہ یہ کیسے ہوگا! میں ملازم ہوں سوائے تنخواہ کے زائد آمد کی کوئی صورت نہیں۔پھر میں رشوت نہیں لیتا۔پھر یہ بڑھ چڑھ کر روپیہ کس طرح ملے گا۔لیکن آخر وہ روپیہ مجھے ملا۔۱۹۰۱ء میں مردم شماری ہوئی۔مردم شماری کی کتاب میں کئی باب ہوتے ہیں اور مختلف محکموں کو کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا اپنا حصہ لکھیں۔ حفظانِ صحت کا باب ہمارے محکمہ کے ساتھ تعلق رکھتا تھا۔چنانچہ ہدایت ملی کہ یہ باب تم لکھو۔ہماری برانچ کا افسر انچارج ایک انگریز تھاجس کا نام کیپٹن رابرٹس تھا۔اس نے مجھے بلا کر کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ تم اس کے لئے مصالحہ تیا ر کرو۔مجھے یہ یہ اعدادو شمار چاہئیں اور یہ یہ نقشے درکار ہیں۔یہ تم مہیّا کرو۔مَیں نے اس کی ہدایت کے مطابق اور کچھ اپنی ذہانت سے کام لے کر اُسے تمام مواد بہم پہنچایا جس سے وہ بہت خوش ہوا اور اس نے بطور انعام پچیس روپیہ ماہوار کے حساب سے ڈیڑھ سو روپیہ مجھے انعام دیا۔اب دیکھو مَیں خود خیال کرتا تھا کہ بظاہر کوئی ایسی صورت نہیں کہ مجھے زائد روپیہ مل سکے۔لیکن خدا تعالیٰ نے وہ روپیہ دلوادیا۔اس طرح مجھے یقین پیدا ہوگیا کہ یہ سِلسلہ سچا ہے۔‘‘ قارئین غور فرمائیں کہ چار آنہ مہینہ کے حساب سے آپؓ نے نصف سال میں ڈیڑھ روپیہ چندہ دیا ہوگا۔ اور اس کا اجر ظاہراً بھی ایک سو گنا یعنی ڈیڑھ صد روپیہ پالیا۔سُبۡحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمۡدِہٖ سُبۡحَانَ اللّٰہِ الۡعَظِیۡم۔
قارئین! کسی سے عقیدت رکھنا ایک اَور امر ہے اور کسی کے ہاتھ میں اپنا تن من دھن رکھ دینا یعنی بیعت کی توفیق پانا الگ بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اس مخلص وجود کو ایک ایمان افروز خواب کے ذریعہ اپنے پیارے مسیح و مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے کی تحریک بھی فرمائی اور قلبِ سلیم کو تسلی بھی بخشی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ شملہ میں قیام ہی کے دنوں میںمَیں نے ایک خواب دیکھا۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر انسان میں اخلاص ہو تو خدا تعالیٰ خواب کے ذریعہ بھی اس کی راہنمائی کردیتا ہے۔مَیں نے خواب میں دیکھاکہ ساتھ والے کمرہ میں جہاں احمدی دوست رہتے رہے تھے۔وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں۔اُن سے مل لو۔چنانچہ مَیں گیا اور مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ آپ (تَہ بند باندھے)ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں۔اور آپ کے (سر کے)بال لمبے لمبے ہیں(اور سر اور جسم مبارک کے اوپر والے حصے پر کپڑا نہیں)مَیں نے اس وقت تک آپ کی شکل نہیں دیکھی تھی بلکہ آپ کی تصویر بھی نہیں دیکھی تھی۔خواب میں آگے بڑھا اور عرض کیا: حضرت !السلام علیکم…فرمایا(وعلیکم السلام)’’برکت علی تم ہماری طرف کب آئو گے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضور !اب آہی جائوں گا۔‘‘ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور یہ صبح کا وقت تھا۔ مَیں نے اس خواب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ہدایت کے لئے اشارہ سمجھا۔ (خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بدن پر جو مَیں نے کپڑا نہیں دیکھا بلکہ صرف تَہ بند بندھا ہوا دیکھا تو اس کی تعبیر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے نے یہ بتائی کہ حضور علیہ السلام دنیا کی زیب وزینت سے آزاد ہیںا ور درویشانہ زندگی رکھتے ہیں۔)
پھر ایک واقعہ پیش آیا: ۱۹۰۱ء کی مردم شماری ہورہی تھی۔غالباً مارچ کا مہینہ تھا۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع کیا کہ اب مردم شماری ہونے والی ہے۔بعض لوگ ایسے ہیں جنہیں یقین ہوچکا ہے کہ میں سچا ہوں۔اور احمدیت کی صداقت ان پر ظاہر ہوچکی ہے۔لیکن کسی وجہ سے انہوں نے بیعت نہیں کی۔ایسے لوگ گو انہوں نے ابھی بیعت نہیں کی اپنے آپ کو احمدی لکھا سکتے ہیں یا لکھا دیں۔صحیح الفاظ یاد نہیں ہیں۔مَیں نے وہ اشتہار پڑھااور اپنے آپ کو احمدی لکھا دیا اور خیال کیا کہ جب اجازت ہوگئی ہے تو اس بارہ میں کیوں انتظار کیا جائے۔چند دنوں کے بعد مَیں نے تحریری بَیعت بھی کرلی۔
بیعت کے بعد جب پہلا جلسہ سالانہ آیا تو مَیں قادیان گیا۔اس وقت کوئی وسیع مہمان خانہ نہیں تھا۔ مہمان مختلف جگہوں پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ہمیں حضر ت میاں بشیر احمد صاحبؓ کے مکان (کی بیٹھک )میںرہنے کا اتفاق ہؤا۔وہاں بھی جلسہ کے موقع پر مہمان ٹھہرا کرتے تھے۔ایک دن صبح چارپائی سے جو اٹھے۔آٹھ بجے کے قریب وقت تھا۔ہمیں پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں۔(بیٹھک کی )چھت پر ایک شہ نشین (چبوترہ )بنا ہوا تھا۔(اور سامنے صحن تھا)آپ ا س پر تشریف فرما تھے۔حضور نے وسمہ لگایا ہوا تھا اور ابھی نہا کر آئے تھے اور بال کھلے تھے۔(صرف تَہ بند باندھا ہوا تھا)آپ کو دیکھ کر مجھے اپنا خواب یاد آگیا۔ یہ وہی شکل تھی جو مجھے اس خواب میں دکھائی گئی تھی۔ ایمان تازہ ہؤا۔
آپؓ نے اس پختہ ایمان کی بدولت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاوقتِ وفات تحریر و تقریر کے ذریعے سلسلے کی گرانقدر علمی نیز بےمثالی مالی خدمات کی توفیق پائی۔ آپ کے تفصیلی حالاتِ زندگی اصحابِ احمد جلد ۳ میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان عاشقانِ پاک طینت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پختہ ایمان نصیب فرمائے اور ہم قلمی، علمی، مالی، وقتی، جس بھی لحاظ سے ممکن ہو خدمات پیش کرکے اسلام احمدیت کے قافلے کو آگے بڑھانےمیں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ آمین