زیادتی ٔعلم کے لیے سوال کرنے کی اجازت
اسلام نے زیادتیٔ علم کے لیے سوال کرنے کی اجازت دی ہے۔ جیسا کہ فرمایا: فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ۔(النحل:۴۴)یعنی اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر سے پوچھ لو۔
لیکن کج بحثی کی خاطر لغو، بیہودہ اور بے ادبی والے سوال کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُم۔(المائدہ:۱۰۲) یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو وہ تمہیں تکلیف میں ڈال دیں۔اسی طرح فرمایا: اَمۡ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَسۡـَٔلُوۡا رَسُوۡلَکُمۡ کَمَا سُئِلَ مُوۡسٰی مِنۡ قَبۡلُ۔(البقرہ:۱۰۹) یعنی کیا تم اپنے رسول سے اسی طرح سوال کرنا چاہتے ہو جس طرح (اس سے) پہلے موسیٰ سے سوال کیے گئے تھے۔
چنانچہ صحابۂ رسولﷺ سوال کرنے کے بارے میں بہت زیادہ محتاط تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم خود سوال نہ کرتے بلکہ انتظار کرتے تھے کہ کوئی اعرابی آئے اور حضورﷺ سے سوال پوچھے تا کہ ہم وہ باتیں سن کر اپنا علم بڑھا لیں۔پھر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صحابہؓ کی اس علمی تشنگی کو اس طرح دُور فرما دیتا کہ بعض اوقات حضرت جبرئیل کو انسان کی شکل میں بھیجتا اور وہ حضور سے سوال کرتے اور حضورﷺ ان سوالوں کے جواب دیتے۔ جس سے صحابہ اپنی علمی پیاس بجھا لیتے۔(صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن بَاب قَوْلِهِ إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ)
… پس سوال کرنا تو منع نہیں اور اگر کوئی بات سمجھ نہ آ ئے تو ضرورپوچھنی چاہیےلیکن ہر بات میں بحث اور تکرار کے لیے سوال در سوال کی عادت بنا لینا بھی ٹھیک نہیں۔… دینی معاملات میں سے اگر کوئی بات سمجھ نہ آئے اور کسی دوسرے کے جواب سے بھی تسلی نہ ملے تو ایسی صورت میں ایک تو قرآن و حدیث کی محکم صداقتوں پر خود غور و تدبر کرکے ان مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیےاور دوسرا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرتے ہوئے اور اس کے آگے جھکتے ہوئے ان مسائل کے بارے میں اسی سے راہنمائی طلب کرنی چاہیے۔
(بنیادی مسائل قسط ۴۸
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲؍ فروری ۲۰۲۳ء)