جب کوئی امر سمجھ نہ آوے تو اسے پوچھ لینا چاہئے
بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے دل میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کو نکالتے نہیں اور پوچھتے نہیں جس سے وہ اندر ہی نشو و نما پاتا رہتا ہے اور پھر اپنے شکوک و شبہات کے انڈے بچے دے دیتا ہےاورروح کو تباہ کر دیتا ہے۔ ایسی کمزوری نفاق تک پہنچا دیتی ہے کہ جب کوئی امر سمجھ میں نہ آوے تو اسے پوچھا نہ جاوے اور خود ہی ایک رائے قائم کر لی جاوے۔ میں اس کو داخل ادب نہیں کرتا کہ انسان اپنی روح کو ہلاک کر لے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر سوال کرنا مناسب نہیں اس سے منع فرمایا گیا ہے لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ (المائدہ: ۱۰۲) اور ایسا ہی اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ آدمی جاسوسی کرکے دوسروں کی برائیاں نکالتا رہے۔ یہ دونو طریق برے ہیں لیکن اگر کوئی امر اہم دل میں کھٹکے تو اسے ضرور پیش کرکے پوچھ لینا چاہئے۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص خراب غذا کھالے اور وہ پیٹ میں جا کر خرابی پیدا کرے اور اس سے جی متلانے لگے تو چاہئے کہ فوراً قے کرکے اس کو نکال دیا جائے لیکن اگر وہ اس کو نکالتا نہیں تو پھر وہ آلات ہضم میں فتور پیدا کرکے صحت کو بگاڑدے گی۔ جیسے ایسی غذا کو فوراً نکالنا چاہئے اسی طرح جو بات دل میں کھٹکے اسے جلد باہر نکال دو۔
(ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۳۸۵، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)