اسلام میں مرد اور عورت کے حقوق
اللہ تعالیٰ نےجب حضرت آدمؑ کو پیدا کیا تو ساتھ ہی ان کی زوج بھی پیدا فرمائی تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے تسکین کا موجب ہوں اور نسل انسانی کا تسلسل قائم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کی زوج کی تخلیق بھی آپؑ ہی کی طرح کی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں مرد اور عورت کےبنیادی انسانی حقوق یکساں ہیں۔ سب کے لیے یکساںطور پر ترقی کی راہ کھلی ہے۔ جس طرح مرد خدا کا بندہ ہے اسی طرح عورت خدا کی بندی ہے۔ پس اسلام اصل مقصد کے لحاظ سے مرد و عورت کی کامل مساوات کا علمبردار ہے۔ لیکن صنفی لحاظ یعنی ذمہ داریوں کے لحاظ سے سب انسان ایک جیسے نہیں۔ مرد قوّام اور مضبوط ہیں جبکہ عورت صنف نازک ہے۔ گویا ذمہ داریوں کے اعتبارسے نہ تو سب کے فرائض ایک جیسے ہوتے ہیں نہ ہی حقوق۔ ایک بادشاہ اور عام آدمی کے تمام کے تمام حقوق ہر گز ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ مالک اور نوکر،افسر اور ماتحت،والدین اور اولاد کے بعض فرائض بھی مختلف ہوتے ہیں اور حقوق بھی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ فطری صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے نہ تو خاوند اور بیوی کے فرائض ایک جیسے ہیں نہ ہی حقوق۔ مثلاًاسلام کے مطابق کمانا اور اہل خانہ کی ہر طرح کی ضروریات زندگی کی فراہمی مرد کا فرض ہے اور عورت کا حق ہے۔ اسی طرح نکاح کے موقع پر حسب استطاعت مہر کی ادائیگی کی رقم بھی مرد کا فرض اور عورت کا حق ہے۔ حمل اور بچہ کی پیدائش کی وجہ سے پوری دنیا میں بعض حقوق عورت کو حاصل ہو جاتے ہیں جن کا مطالبہ مرد نہیں کر سکتا۔ پس دستور دنیا بھی یہی ہے اور عقل کا بھی یہی تقاضا ہے۔
خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ (النساء:۳۵) ترجمہ: مرد عورتوں پر نگران ہیں۔ اسی لیے مرد کو عورتوں کی نسبت قویٰ زیادہ مضبوط دیے گئے ہیں کیونکہ ان پر ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’نئی روشنی کے لوگ مساوات پر زور دے رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق مساوی ہیں ان کی عقلوں پر تعجب آتا ہے۔ وہ ذرا مردوں کی جگہ عورتوں کی فوجیں بنا کر جنگوں میں بھیج کر دیکھیں تو سہی کہ کیا نتیجہ مساوی نکلتا ہے یا مختلف۔ ایک طرف تو اسے حمل ہے اور ایک طرف جنگ ہے وہ کیا کر سکے گی؟ غرض کہ عورتوںمیں مردوں کی نسبت قویٰ کمزور ہیں اور کم بھی ہیں…‘‘ (ملفوظات جلد ۷صفحہ ۱۳۴ ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: عام قانون بتا یا کہ مردوںاور عورتوں کے حقوق بحیثیت انسان ہونے کے برابر ہیں۔جس طرح عورتوں کےلئے ضروری ہے کہ وہ مردوں کے حقوق کاخیال رکھیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق ادا کریں۔اور اس بارہ میں کسی قسم کا ناواجب پہلو اختیار نہ کریں۔…چونکہ میاں بیوی نےمل کر رہنا ہوتا ہے اور نظام اُس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک ایک کو فوقیت نہ دی جائے اس لئے فوقیت مرد کو دی گئی ہے۔ اس کی ایک اور وجہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ مرد اپنا رو پیہ عو رتوں پر خرچ کرتے ہیں اس لئے انتظامی امور میں انہیں عوتوں پر فوقیت حاصل ہے۔(تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ۵۱۲۔۵۱۴)
ایک مجلس سوال و جواب میںحضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے قرآن کریم میں مرد کو قَوَّامقرار دینے کی فلاسفی دریافت کی گئی تو آپؒ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: تمہارا دل بھی اس بات کو مانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد کو عورت پر فضیلت دی ہے۔ اور کوئی بھی مساوی حقوق کی تھیوری اس اصولی فرق کو مٹا نہیںسکتی ہے۔ او لمپکس کی کھیلوں کو ہی دیکھ لوکہ دوڑ میں حصہ لینے والے مرد عورتیں کیا مقابلہ میں اکٹھے دوڑتے ہیں؟ کیا مردوں اور عورتوں کے تیراکی کے مقابلے اکٹھے ہوسکتے ہیں؟کیا وہ فٹ بال،ہاکی اور کسی بھی کھیل میںاکٹھے کھیلتے ہیں؟ اور خاص طور پر امریکن فٹ بال میں کبھی آپ نے دیکھا کہ عورتیں اور مرد اکٹھے ایک ہی ٹیم میں کھیل رہے ہوں؟ یہ سوال کرنے والے مغربی دنیا کے لوگ جانتے ہیں اور اس بات کے گواہ ہیںکہ مردوں اور عورتوں کو الگ الگ جسمانی صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ اور قرآن بتاتا ہے کہ مردوں کے حقوق کے لحاظ سے عورتوں پر کوئی برتری اور فضیلت نہیںدی گئی بلکہ فطری استعدادوں اور صلاحیتوں کی بنا پر فضیلت ہے جو خداتعالیٰ نے عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ رکھی ہیں اور ہر کوئی جانتا ہے کہ وہ فطرتی صلاحیتیں کیا ہیں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ مرد اپنی بیوی بچوںکے لئے نان نفقہ کا انتظام کرتا ہے اس لحاظ سے جو روٹی کپڑے کا بندو بست کرتا ہے قدرتی طور پر اسے ایک برتری حا صل ہوتی ہے جو ہاتھ کھلاتا ہے۔جو ہاتھ کھانا کھلاتا ہے اسے بہر حال قدرتی طور پر اسے ایک فضیلت حاصل ہوتی ہے… یہ برتری مرد کو اس وقت تک حاصل رہتی جب تک وہ اس ذمہ داری نبھاتا ہے۔‘‘ (الفضل انٹرنیشنل مورخہ ۱۹ تا ۲۵؍ فروری ۹۹۹اء)
حضرت مصلح موعود ؓدونوں مرد اور عورت کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’انسانیت ایک علیحدہ چیز ہے۔ وہ نفس واحدہ ہے اس کے دوٹکڑے کئے گئےہیں۔ آ دھے کا نام مرد اور آدھے کانام عورت۔ جب یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو ٹکڑے ہیں تو جب تک یہ دونوں نہ ملیں گے اُس وقت تک وہ چیز مکمل نہیں ہوگی۔ وہ تبھی کامل ہوگی جب اس کے دو نوں ٹکڑے جوڑ دیئے جائیں گے۔‘‘ ( فضائل القرآن صفحہ ۱۶۱)
نکاح انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اسی لیے آنحضورﷺ نے ہرمومن مرد اور عورت کو شادی کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا : جس نے نکاح کرلیا اس نے آدھا ایمان مکمل کر لیا، اب اسے چاہیے کہ باقی آدھے کے بارے میں خدا سے ڈرتا رہے ( یعنی تقویٰ اختیار کرے )‘‘ ( مشکاۃ المصابیح)
اگر انسان شادی کے بعد اصل مقصد کو بھول جائے تو وہی رشتہ جو خدا کے نام پر جُڑتا ہے وہ اخلاقی کمزویوں اور انائوں کی وجہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ آج کل اخلاقی کمزوریوں کی وجہ سے ( مغرب میں بالخصوص اور مشرق میں بالعموم ) گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ پس اگر ہم اپنے گھروں کو ٹوٹنے سے بچانا چاہتے ہیں تو خوف خدا کرتے ہوئےبے راہ روی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا پڑے گی۔ دنیوی فائدہ کے لیے آخرت کو خراب کرنا ہرگز فائدہ مند ہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی انائوں کو چھو ڑ کر قرآنی حکموں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین