خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۳۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے) یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:آجکل ہم رمضان کے مہینے سے گذر رہے ہیں۔ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں ایک روحانی ماحول بن جاتا ہے اور مومنوں کی جماعت میں یہ ماحول بننا چاہیے۔ اس مہینے میں روزوں کے ساتھ عبادتوں کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ قرآن کریم پڑھنے ، سننے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہوتی ہے …قرآنِ کریم کی اہمیت، اس کے محاسن، اس کے روشن دلائل کے بارے میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعودؑنے خوب کھول کر ہمیں بتایا ہے۔کچھ عرصے سے خطبات میں حضرت مسیح موعودؑ کے حوالے سے مَیں مختلف اقتباسات میں یہ بیان کر رہا ہوں۔ پس انہیں بار بار سننے اور پڑھنے اور ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے تا کہ صحیح طور پر اس کا فہم و ادراک ہم اپنے اندر پیدا کر سکیں۔حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات کے حوالے سے آج بھی میں کچھ اقتباسات پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کےاحکامات اورمستقل شریعت ہونے کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں، بعض آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتا ہے۔‘‘چاہے وقتی ضرورت کے لیے ہوں لیکن ہیں یہ مستقل۔ ’’مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً سفر کے لئے نماز یا روزہ کے متعلق اَور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اَور۔‘‘یعنی سفر میں مثلاً نماز ہےتو نمازوں کے جمع کرنے کے بارے میں یا قصر کرنے کے بارے میں اجازت ہے اور عام حالات میں نمازیں پوری پڑھنی چاہئیں۔ اسی طرح روزے ہیں سفروں میں نہیں رکھنے ۔ عام حالات میں قیام میں روزے رکھنے ہر صحت مند کے لیے فرض ہیں۔ پھر فرمایا کہ مثلاً دوسرا ایک حکم یہ ہے کہ’’باہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی ہے۔‘‘یہ ایک ایسا حکم ہے جو عورت کے لیے ایک خاص حالات میں ہے۔ ’’گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کہ برقع لے کر پھرتی رہے۔‘‘ پردے کا حکم ہے تو گھر سے باہر پردے کا حکم ہے۔ پھر یہ بھی کہ کن کن سے پردہ کرنا ہے اور کن سے نہیں کرنا۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں۔’’…توریت اور انجیل کے احکام آنی‘‘موازنہ کرتے ہوئے کہ وہ تو وقتی ہیں ’’اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرتﷺ جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے۔ قرآن شریف قانونِ مستقل ہے اور توریت انجیل اگر قرآن شریف نہ بھی آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے۔‘‘پس قرآن کریم کی یہ اہمیت کہ قرآن کریم کی ہدایات ہر طرح کے حالات کے مطابق ہیں، بڑی مکمل تعلیم ہے اور ہر زمانے کے لیے ہے۔
سوال نمبر۳: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعثت کی کیاغرض بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس بات کو بھی دل سے سنو کہ میرے مبعوث ہونے کی علّتِ غائی‘‘(میرا مقصد) ’’کیا ہے؟ میرے آنے کی غرض اور مقصود صرف اسلام کی تجدید اور تائید ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ کوئی نئی شریعت سکھاؤں یا نئے احکام دوں یا کوئی نئی کتاب نازل ہوگی۔ ہرگز نہیں۔ اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت گمراہ اور بے دین ہے۔آنحضرتﷺپر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی۔ قرآن مجید خاتم الکتب ہے۔ اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرتﷺ کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا۔ وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے۔‘‘یعنی قرآنی تعلیم کو ہر ایک تو سمجھ نہیں سکتا۔ بعض باتیں ہیں جو تشریح طلب ہیں اور تفسیر چاہتی ہیں جن کو بیان کرنے کے لیے اس آخری زمانے میں آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قرآن کریم کی تعلیم اورپیشگوئیوں کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’قرآنِ شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآنِ شریف کا پہلا معجزہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں۔ رسول اللہﷺ کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرتﷺ کو ملی ہیں۔ کیا اس وقت جبکہ ساری قوم آپؐ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(القمر:۴۶)۔ چھوٹی بات ہو سکتی تھی اسباب کے لحاظ سے تو ایسا فتویٰ دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گامگر آپؐ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور آخراسی طرح وقوع میں آتا ہے‘‘یہ پیشگوئی جس کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے یہ آپؐ کو خدا تعالیٰ نے مکہ میں عطا فرمائی تھی اور وہ بھی ابتدائی حالات میں جبکہ آپؐ کے مکہ مکرمہ میں انتہائی کمزوری کے حالات تھے اور پھر پیشگوئی پوری کس طرح ہوئی۔ جنگِ احزاب میں عام طور پر ہم دیکھتے ہیں اس کو وہیں منطبق کیا جاتا ہے، اَور جگہوں پہ بھی ہے کہ جب کفار کا بھاری لشکر مسلمانوں کو پیٹھ دکھا کے بھاگ گیا۔پھرآپؑ فرماتے ہیں’’پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے والے سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لانظیر ہیں۔‘‘ یعنی مسیح موعودؑ کے زمانے کی پیشگوئیاں۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’قرآن کریم علوم حقّہ سےواقف کراناچاہتاہے‘‘ کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ جیسے یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس سے ڈریں ویسے ہی یہ بھی چاہتا ہے کہ لوگوں میں علوم کی روشنی پیدا ہووے‘‘صرف ڈر نہیں بلکہ علوم کی روشنی بھی پیدا ہو’’اور اس سے وہ معرفت کی منزلوں کو طے کر جاویں۔‘‘کیوں پیدا ہو، تاکہ معرفت پیدا ہو۔سوچیں وسیع ہوں ’’کیونکہ علومِ حقہ سے واقفیت جہاں ایک طرف سچی خشیّت پیدا کرتی ہے وہاں دوسری طرف ان علوم سے خداپرستی پیدا ہوتی ہے۔‘‘ایک مومن جب اس طرح سوچتا ہے، قرآن شریف پہ غور کرتا ہے اور علوم حاصل جو دنیاوی علوم ہیں ان کو بھی قرآن کریم پر پرکھتا ہے تو معرفت بھی پیدا ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کا خوف بھی پیدا ہوتاہے۔ خشیّت پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا لیکن ’’بعض بد قسمت ایسے بھی ہیں جو علوم میں منہمک ہوکر قضاء وقدر سے دُور جا پڑتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے وجود پر ہی شکوک پیدا کر بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو قضاء و قدر کے قائل ہو کر علوم ہی سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔‘‘یا تو ایک طرف یہ ہے کہ دنیاوی علم کے نام پر، نئے علم کے نام پر خداتعالیٰ کو بھول گئے یا دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف آنے کے نام پہ علوم سے گھبرا گئے اور اسے چھوڑ دیا اور کہہ دیا یہ غلط ہے۔ فرمایا ’’مگر قرآنِ شریف نے دونوں تعلیمیں دی ہیں اور کامل طور پر دی ہیں۔ قرآن شریف علومِ حقہ سے اس لئے واقف کرنا چاہتا ہے اور اس لئے ادھر انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اس سے خشیتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی معرفت میں جوں جوں ترقی ہوتی ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس سے محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور انسان کو قضاء وقدر کے نیچے رہنے کی اس لئے تعلیم دیتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کی صفت پیدا ہو اور وہ راضی برضا رہنے کی حقیقت سے آشنا ہو کر ایک سچی سکینت اور اطمینان جو نجات کا اصل مقصد اور منشاء ہے حاصل کرے۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے احباب جماعت کودعاکی بابت کیاتحریک فرمائی؟
جواب: فرمایا: رمضان میں دعاؤں کی طرف بھی خاص توجہ دیں پہلے بھی میں نے کہا تھا۔اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو ہر شر سے بچائے اوراللہ تعالیٰ کی نظر میں جو ناقابل اصلاح ہیں ان کو عبرت کا نشان بنائےتا کہ دوسرے لوگ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بن سکیں۔دنیا کے لیے عمومی طور پر بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جنگ کی آفت سے دنیا کو بچائے۔
سوال نمبر۷:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے خطبہ کےآخرپرکن مرحومین کا ذکرخیر فرمایا؟
جواب: فرمایا:۱۔منور احمد خورشید صاحب۔ مغربی افریقہ میں مبلغ سلسلہ تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا حضرت میاں عبدالکریم صاحب کے ذریعےسے آئی تھی جنہوں نے ۱۹۰۳ء میں جب حضرت مسیح موعودؑ کرم دین والے مقدمے میں جہلم تشریف لے گئے تھے اس وقت بیعت کی تھی۔جامعہ سے فارغ ہوئے، کچھ عرصےتک پاکستان میں رہے۔ پھر ۱۹۸۳ء میں یہ افریقہ چلے گئے۔گیمبیا میں اور سینیگال وغیرہ میں ان کی لمبے عرصے کی خدمات ہیں۔ سینیگال میں، گیمبیا میں بطور امیر کے بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ پھر بیماری کی وجہ سے ۲۰۰۵ء میں یہاں یوکے آگئے تھے لیکن جب تک وہاں کوئی باقاعدہ مربی نہیں چلا گیا اور باقاعدہ نظام قائم نہیں ہو گیا یہ یہاں سے بھی سینیگال جماعت کا نظام چلاتے رہے۔ پھر اس عرصےمیں یہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۲ء تک جامعہ یوکے میں بطور استاد کے بھی خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ جہاں بھی موقع ملا انہوں نے بڑا اعلیٰ کام کیا۔ بہت سی بیعتوں کی ان کو سعادت ملی۔ چالیس پارلیمانی ممبران نے ان کے ذریعےسے احمدیت قبول کی اور اس کامیابی پر حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے جلسہ سالانہ کے خطاب میں ان کو ’’فاتح سینیگال‘‘کے خطاب سے بھی نوازا۔ جلسہ سالانہ جرمنی میں ایک دفعہ یہ پندرہ ممبران اسمبلی کو لے کے آئے۔ پھر جو پاما (PAAMA) ایوارڈ ہیں جو مختلف مربیان کے لیے مقرر کیے ہوئے ہیں وہ عبدالرحیم نیر صاحب کا ایوارڈ ان کو بھی ملا۔ میرے کہنے پہ یہ سپین بھی جاتے رہے۔ وہاں جو افریقی آباد ہیں ان میں تبلیغ کی اور بڑا اچھا کام کیا۔ بہت بیعتیں وہاں ہوئی ہیں۔ انصارا للہ برطانیہ کے تحت آن لائن تعلیم القرآن کلاس بھی لیتے رہے۔ وفات تک یہ کام جاری رہا۔ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور تین بیٹیاں اور اہلیہ ہیں۔
۲۔اقبال احمد منیر صاحب مربی سلسلہ جوچودھری منیر احمد صاحب کے بیٹے ہیں۔ یہ پاکستان میں تھے۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ان کے خاندان میں بھی احمدیت کا نفوذ ان کے دادا چودھری غلام حیدر صاحب کے ذریعے۱۸۹۵ء میں ہوا تھا۔ انہوں نے ۱۹۸۳ء میں جامعہ سے تعلیم مکمل کی۔ پھر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کے تحت کام کیا۔ پھر ۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۸ء تک سیرالیون میں رہے پھر واپس آگئے۔ اس کے بعد پھر پاکستان کے مختلف ضلعوں میں کام کرتے رہے۔ دل کے مریض بھی تھے لیکن اس کے باوجود بڑی محنت سے کام کرنے والے تھے۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ نہایت محنت اور توجہ سے خدمت بجا لانے والے تھے اور لوگوں سے بڑا اچھا تعلق اور مخلص طبیعت کے مالک تھے۔ مرحوم کی اہلیہ اور تین بیٹے ہیں۔
۳۔سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اہلیہ میاں عبدالعظیم صاحب درویش مرحوم قادیان۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ کافی عرصےسے صاحبِ فراش تھیں۔ زمانہ درویشی میں صوبہ اڈیشہ سے شادی ہو کے آنے والی پہلی خاتون تھیں۔ مرحومہ نے اپنے خاوند کے ساتھ درویشی کا دَور صبر اور شکر سے گزارا۔ صوم و صلوٰة کی نہایت پابند، دعاگو، نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور قرآن کریم دوسروں کو پڑھانے والی تھیں۔ بہت سے بچوں اور عورتوں کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا۔خلیفۂ وقت سے خاص تعلق تھا۔ ہر تحریک میں حصہ لیتی تھیں۔ مرحومہ موصیہ بھی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں۔خورشید انور صاحب کی دوسری والدہ تھیں۔ دوست محمدشاہد صاحب مرحوم مؤرخ احمدیت کی یہ چچی تھیں۔