حصولِ تقویٰ کے لیے نہایت اہم اور دلگداز نصائح
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍جنوری۲۰۱۲ء)
یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ۔وَ مَا یَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ فَلَنۡ یُّکۡفَرُوۡہُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِیۡنَ۔ (آل عمران: 115-116)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یومِ آخر پر اور اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی ہیں وہ جو صالحین میں سے ہیں۔ اور جو نیکی بھی وہ کریں گے تو ہرگز اُن سے اس کے بارہ میں ناشکری کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اور اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔
مومنوں کی نشانی نیکیوں کا حکم دینا، برائیوں سے روکنا، اپنی اصلاح اور نیک اعمال بجا لانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا ہے۔ پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اُس میں یہ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ یہ سورۃ آل عمران کی آیت تھی اور اس سورت میں یہ باتیں دوسری جگہ بھی دہرائی گئی ہیں کہ یہی باتیں ہیں جو انسان کو صالحین میں شامل ہونے والا بناتی ہیں۔ یہ باتیں ایمان میں مضبوطی کی نشانی ہیں۔ اور یہی باتیں ہیں جو فلاح اور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے دئیے گئے حکموں پر چلنے والوں کے عمل ضائع نہیں کرتا۔ اس لئے لازماً نیک اعمال کرنے والوں اور نیکیاں پھیلانے والوں کو، نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں کو اللہ تعالیٰ نوازتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں جو میں نے تلاوت کی، اُس میں بتا دیا کہ میں علیم ہوں، عالم الغیب والشہادۃ ہوں، غیب کا علم بھی رکھتا ہوں، ظاہر کا علم بھی رکھتا ہوں، ہر عمل جو تم کرتے ہو اُسے میں جانتاہوں کہ کس نیت سے کیا جا رہا ہے؟ اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ کام ہیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس فساد زدہ زمانے میں مسیح موعود و مہدی معہود ؑکو بھیجا۔ زمانے کے امام کو بھیجا اور ہمیں یہ توفیق دی کہ اس کو مان کر اُس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنے ایمان کو اُس معیار پر لائیں گے یا لانے کی کوشش کریں گے جس کی تصریح اور تفسیر آپؑ نے قرآنِ کریم اور سنت کی روشنی میں ہمیں بیان فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’زبان کو جیسے خدا تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف کسی بات کے کہنے سے روکنا ضروری ہے۔ اسی طرح امرِ حق کے اظہار کے لئے کھولنا لازمی امر ہے‘‘۔ (یعنی اگر برائیوں سے زبان کو روکنا ضروری ہے تو حق بات کو کہنے کے لئے زبان کو کھولنا، منہ کھولنا، اُس کو استعمال کرنا بھی ضروری ہے) فرمایا کہ ’’یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر (آل عمران: 115) مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت سے ثابت کر دکھائے کہ وہ اُس قوّت کو اپنے اندر رکھتا ہے‘‘ (جب یہ باتیں کر رہے ہیں تو اپنی عملی حالت سے یہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ نیکیاں جو مَیں کہہ رہا ہوں میرے پاس موجود ہیں ) فرمایا ’’کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور اندازِ بیان ایسا ہو نا چاہیے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلا ف بھی زبان کا کھولنا سخت گنا ہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ281-282۔ ایڈیشن 2003ء)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ ہم یہ معیار حاصل کریں اور ہمارا ہر قول اور فعل نیکیاں بکھیرنے والا اور برائیوں کو روکنے والا ہو۔ ورنہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہم الٹا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے بن جائیں کہ ایک عہد کر کے پھر اُسے پورا نہیں کر رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’مَیں باربار کہہ چکا ہوں کہ جس قدر کوئی شخص قرب حاصل کرتا ہے، اسی قدر مؤاخذہ کے قابل ہے۔ … وہ لوگ جو دُورہیں، وہ قابل مؤاخذہ نہیں، لیکن تم ضرور ہو۔ اگر تم میں اور اُن میں کوئی ایمانی زیادتی نہیں، تو تم میں اور ان میں کیا فرق ہوا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ28، ایڈیشن 2003ء)
پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا بلکہ اب اپنی حالتوں کی طرف پہلے سے زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارا مؤاخذہ ہو گا، تم پوچھے جاؤ گے۔ پس ہمیں اس بات کی بہت فکر کرنی چاہئے کہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں۔ کسی کا دینی علم حاصل کر لینا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا، اگر عمل اُس کے مطابق نہیں ہے۔ کسی کا جماعتی خدمت پر مامور ہونا، کوئی عہدہ مل جانا اُسے مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتا اگر اُس کے عمل اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق نہیں ہیں۔ کسی کا کسی خاندان کا فرد ہونا، بزرگوں کی خدمات اُس کو مؤاخذہ سے بچا نہیں سکتیں، اگر عمل اُس کے مطابق نہ ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور جگہ بھی بڑا واضح فرمایا ہے کہ صرف بیعت کر لینے سے تم متبعین کے جو انعامات ہیں اُن کے وارث نہیں بن جاتے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’یقیناً سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولت مند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں‘‘۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ’’منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے، جو فرمایا: وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ (آل عمران: 56)‘‘ (یعنی جو تیرے پیرو ہیں اُنہیں ان لوگوں پر جو کافر ہیں یا منکر ہیں اُن پر قیامت تک بالادست رکھوں گا، فوقیت دوں گا۔ ) فرمایا کہ ’’یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا جب تک اپنے اندر وہ اتّباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ596 ایڈیشن 2003ء)
پس ہمیں بہت غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے مومن کی تعریف فرمائی ہے کہ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ (آل عمران: 115)۔ اس کی حقیقی تصویر ہم تبھی بن سکتے ہیں، حقیقی مومن ہونے والے ہم تبھی کہلا سکتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق ہیں، ہم آپ کی نصائح اور ارشادات پر عمل کرنے والے ہوں۔ آپؑ کو جو ہمارے سے توقعات ہیں اُن پر پورا اُترنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعض نصائح لی ہیں جو ہماری دینی اور روحانی حالتوں کو سنوارنے کے لئے بلکہ دنیاوی ترقی کے لئے بھی ضروری ہیں۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر ہم آپ کی باتوں پر پوری طرح توجہ کرکے اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم حقیقی متبع نہیں کہلا سکتے، اتباع کرنے والے نہیں کہلا سکتے۔