صرف بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن عدّت کا حکم ہے
[دارالافتاء ربوہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک فتویٰ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:]
نظامت دارالافتاء کی طرف سے جاری کردہ فتاویٰ میں آپ نے ایک شخص کو اس کی والدہ کی عدّت وفات کے دوران اس شخص کی شادی کے بارے میں یہ فتویٰ دیا ہے۔’’سوگ اور بیٹے کی شادی کی خوشی کی تقریب میں شرکت دو متضاد چیزیں ہیں۔آپ کی شادی کی تقریب کی صورت میں آپ کی والدہ اپنی عدّت وفات سوگ کی حالت میں نہیں گزار سکتیں۔ لہٰذا آپ کو اپنی شادی کا پروگرام والدہ کی عدّت کے اختتام پر رکھنا چاہیے۔‘‘(فتویٰ زیر نمبر11.09.2021/13)
میرے نزدیک آپ کا یہ فتویٰ درست نہیں۔ احادیث میں تو صرف بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن عدّت گزارنے کا حکم ہے۔ لیکن آپ اپنے اس فتویٰ کے ذریعہ تو باقی لوگوں کو بھی پابند کر رہے ہیں کہ وہ بھی بیوہ کے ساتھ سوگ میں شامل ہوں اور اپنے ضروری کاموں کو عدّت کے اختتام تک مؤخر کر دیں۔
میری بیٹی کی شادی بھی اُس وقت ہوئی تھی جب میری والدہ عدّت میں تھیں۔ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات کے بعد اُمی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں راہنمائی کے لیے لکھا تو حضور ؒنے شادی مقررہ تاریخ پر ہی کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ عدّت میں گھر سے باہر جانا منع ہے، گھر میں رہ کر سادگی کے ساتھ شادی کی تقریب میں شامل ہونا منع نہیں۔ اسی لیے ہم نے خواتین کا انتظام گھر کے برآمدہ اور صحن میں کیا تھا اور اُمی حضورؒ کی ہدایت کے مطابق سادگی کے ساتھ گھر میں اس تقریب میں شامل بھی ہوئی تھیں۔
پس اگر وہ لوگ اس شادی کے پروگرام کو اپنے طور پر ملتوی کر دیں تو یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن آپ کا انہیں شادی سے منع کرنے کا فتویٰ دینا درست نہیں۔
(بنیادی مسائل کے جوابا ت قسط ۴۷ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۳؍جنوری ۲۰۲۳ء)