امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین مجلس خدام الاحمدیہ کینیٹیکٹ (Connecticut) امریکہ کی ملاقات
مورخہ۱۴؍جنوری۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ امریکی ریاست کینیٹیکٹ (Connecticut) سے بطورِ خاص تشریف لائے ہوئےپچیس خدام پر مشتمل ایک وفدکو جن کی عمر اٹھارہ سے چالیس سال کے درمیان تھی اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔
ملاقات کے آغاز میں حضور انور نے تمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کہا۔ تمام خدام کو انفرادی طور پر اپنا تعارف پیش کرنے اور حضور انور سے مخاطب ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
سب سے پہلے جس خادم کو اپنا تعارف کروانے کا موقع ملا انہوں نے بتایا کہ وہ Yale یونیورسٹی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ حضور انور نے موصوف کے نام کو پہچانتے ہوئے دریافت فرمایا کہ آپ کی شادی کا کیا بنا؟تو انہوں نے عرض کیا کہ وہ جلد ہونے والی ہے۔ اسی طرح بہن بھائیوں کے متعلق دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ ان کا ایک چھوٹا بھائی ہے جو کہ اس وقت ان کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے۔
اس کے بعد ایک اَور خادم نے عرض کیا کہ اس کا یونیورسٹی میں دوسرا سال ہے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ وہ کس فیلڈمیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ جس پر موصوف نے بتایا کہ ابتدا میں ان کا ارادہ انجینئرنگ کاتھا لیکن فی الحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر پائےالبتہ وہ civilیاmechanicalانجینئرنگ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور نے انجینئرنگ کے ان دونوں شعبوں میں بنیادی فرق پر تبصرہ فرمایا۔
پھر ایک خادم نے عرض کیا کہ انہوں نے گذشتہ سال مئی میں بائیو میڈیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی ہے۔ حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں؟ جس کی انہوں نے تصدیق کی۔ مزید حضور انور نے مستقبل میں کیریئر (career)کے حوالے سے ان سے بطور خاص استفسار فرمایاکہ کیا وہ ریسرچ کا ارادہ رکھتے ہیں؟ اس پر موصوف نے ڈینٹل سکول میں داخلہ لینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
حضور انورنے مبلغ سلسلہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کینیٹیکٹ میں احبابِ جماعت کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا، جس پر انہوں نے عرض کیا کہ وہاں کی کل تجنید ۳۴۹؍ احباب پر مشتمل ہے۔ مزید دریافت فرمانے پر کہ کیا وہ سب لوگ مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئےہیں نیز وہاں کوئی سینٹر یا مسجد ہے؟ موصوف نے عرض کیا کہ وہاں ایک مسجد ہےنیز احبابِ جماعت مختلف جگہوں پر پھیلے ہوئے ہیں، کچھ تیس منٹ کی مسافت، کچھ ایک اور کچھ ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر مقیم ہیں جبکہ تقریباً دس خاندان مسجدسے بیس منٹ کے radiusمیں رہتے ہیں۔
اس کے بعد ایک خادم نے حضور انور کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ وہ اس وقت یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ ایک اَور خادم نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں پہلے سال میں ہیں نیز نیوکلیئرانجینئرنگ پڑھ رہے ہیں۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ ڈیجیٹل میڈیا اور ڈیزائن پڑھ رہے ہیں نیز مستقبل میں وہ ٹی وی شوز(shows) کرنے کے خواہشمند ہیں، حضور انور نے موصوف سے استفسار فرمایا کہ کیا وہ فلم انڈسٹری میں آنا چاہتے ہیں یا کسی نیوز چینل میں؟ حضورانورنے توجہ دلائی کہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ ایم ٹی اے میں اپنی مہارت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
پھر ایک خادم نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ یونیورسٹی کے چوتھے سال میں ہیں اور اس وقت بائیومیڈیکل انجینئرنگ پڑھ رہے ہیں نیز مستقبل میں میڈیسن میں combinedڈگری اور پی ایچ ڈی(Ph.D) کرنے نیز ریسرچ کے میدان میں آنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ حضور انور نے موصوف سے ان کے عزائم کی بابت دریافت فرمایا توانہوں نے عرض کیا کہ وہ ابھی تک محض سوچ و بچار کر رہے ہیں، بایں ہمہ مزید بتایا کہ حال ہی میں موصوف کو ریسرچ میں دلچسپی پیدا ہوئی ہے۔ حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ریسرچ بہتر رہےگی۔ اسی طرح موصوف نے عرض کیا کہ وہ وقفِ نَو کی بابرکت سکیم میں بھی شامل ہیں ، یہ سماعت فرما کر حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ پھر تو تم ریسرچ میں جا سکتے ہو۔
اگلے خوش نصیب خادم جنہیں حضور انور سے بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہ آبائی طور پر ہنجرا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پیشہ ورانہ طور پر وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ڈیزائن کوالٹی انجینئر کے طور پر کام کر رہے ہیں نیز ہسپتال کے مریضوں کی مانیٹرنگ میں تخصص (specialization) کررہے ہیں۔ اسی طرح بتایا کہ انہوں نے بائیولوجی اور میڈیکل انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرتے ہوئے ماسٹرز کیا ہواہے۔اس کے علاوہ موصوف نے بطور سیکرٹری تعلیم اپنے سپرد جماعتی خدمت کا تذکر ہ بھی کیا۔ حضور انورنے موصوف سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ امریکہ میں پیدا ہوئے ہیں؟ جس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ حضورانور کے دریافت فرمانے پر کہ کیا وہ میاں ریاض ہنجرا کے پوتے ہیں؟ موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔ حضور انور نے مزید استفسار فرمایا کہ کیا آپ کبھی پاکستان گئے ہیں اور آپ کو اپنی خاندانی تاریخ معلوم ہے؟ موصوف نے ان سوالات کا اثبات میں جواب دیا۔ پھرحضور انورنے دریافت فرمایا کہ کیا آپ پنجابی بول سکتے ہیں؟ جس پر موصوف نے نفی میں جواب دیتے ہوئے اس دلی خواہش کا فرط جذبات میں اظہار کیا کہ کاش مجھے پنجابی بولنی آتی ہوتی! حضور انورنے یہ سماعت فرما کر موصوف کو تلقین کی کہ آپ کو پنجابی سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ آپ کو اپنی خاندانی تاریخ سے واقفیت حاصل نہیں ہو گی۔ موصوف نے اس پر مضبوط عزم کا اظہار کیا کہ میں پنجابی سیکھنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔
اس کے بعد ایک نومبائع خادم کو حضور انور سے اپنا تعارف کروانے نیز بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ موصوف نے عرض کیا کہ انہیں ۲۰۱۴ء میں حضور انور کے دستِ مبارک پر شرف بیعت حاصل ہوا تھا، پیشے کے لحاظ سے وہ ایک بینک میں بطور مالیاتی مشیر(financial advisor) کام کر رہے ہیں۔ حضور انورنے موصوف کو ہدایت فرمائی کہ اپنے مربی صاحب سے کہیں کہ وہ آپ کے لیے کوئی اچھارشتہ تلاش کریں۔
پھر ایک خادم نے جو کہ برکت علی صاحب درویش قادیان کے پوتے ہیں عرض کیا کہ حال ہی میں انہوں نے کالج سے کمپیوٹر سائنس میںbachelorکی ڈگری حاصل کی ہے۔
اس کے بعد ایک خادم نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈینٹسٹ(dentist) ہیں۔
مؤخر الذکر ہنجرا خاندان سے تعلق رکھنے والے موصوف کے بھائی نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اور ان کی اہلیہ دسمبر سے مراکش میں تھے اور انہوں نے ایک سولہ ماہ کے بچہ ابراہیم کو گود لیا ہے، موصوف نے ان جملہ امور کی بابت خصوصی درخواستِ دعا کی۔
اس کے بعد جس خادم کو حضورانور سے بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی انہوں نے بتایا کہ وہorganicکیمسٹری میں پی ایچ ڈی(Ph.D) ہیں۔ برکت علی صاحب درویش ِقادیان کے ایک اَور پوتے نے عرض کیا کہ ان کی عمر اکیس سال ہے اور وہ اس وقت یونیورسٹی کے تیسرے سال میں کمپیوٹر سائنس پڑھ رہے ہیں۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ ان کا میڈیکل کا پہلا سال ہے نیز وہ اپنے مستقبل کے بارے میں حضور انورسے راہنمائی طلب کرنا چاہتے ہیں۔ حضور انور نے موصوف کی ترجیحات کے بارے میں دریافت کرتے ہوئے انہیں کارڈیالوجی میںspecialiseکرنے کامشورہ عطا فرمایا۔
برکت علی صاحب درویشِ قادیان کے تیسرے پوتے نےعرض کیا کہ وہ یونیورسٹی کے دوسرے سال میں کمپیوٹر سائنس پڑھ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ برکت علی صاحب کے جن تین پوتوں کا ذکر ہوا ہے وہ آپس میں کزن(cousin) ہیں۔
پھر ایک خادم نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ انہوں نے مکینیکل (mechanical)اور سافٹ ویئر (software)انجینئرنگ میں dual ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔
اس کے بعد اگلے خادم وہ تھے جنہوں نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اس وقت کمپیوٹر سائنس پڑھ رہے ہیں، اسی طرح بتایا کہ حال ہی میں ان کو ادائیگیٔ عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے نیز مستقبل میں وہ ماسٹر ڈگری حاصل کرنے اور پھر کام کے میدان میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایک خادم نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے حضورانور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ سائبر سیکیورٹی میں اپنا کیریئر بنانے کے خواہش مندہیں۔حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ کیا شادی کروا لی ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو حضورانور نے عمر کی بابت دریافت فرمایا کہ کتنے سال کے ہو؟ جس پر موصوف نے عرض کیا کہ ستائیس سال کا ہوں، حضور انور نے فرمایا کہ تو پھر شادی کراؤ ۔ موصوف کے جواب پر کہ ابھی ڈھونڈ رہے ہیں، حضور انور نے استفہامیہ انداز میں فرمایا کہ ڈھونڈ رہے ہو؟ آسمان سے تو نہیں ٹپکنا۔ کوئی نیک عورت تلاش کر لو۔اسی طرح حضور انور نے موصوف کو توجہ دلائی کہ اگر خود نیک ہو گے تو نیک عورت ملے گی ، اگر خود نیک نہیں ہو تو پھر نیک عورت کہاں سے ملے گی؟
اگلے خادم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ ان کے تین بچے ہیں اور ان کی عمر سینتیس سال ہے۔ پھر ایک واقفِ نَو خادم کو حضور انور سے بات کرنے کا شرف حاصل ہوا ، جنہوں نے عرض کیا کہ حال ہی میں انہیں بائیولوجی میں Bachelorکی ڈگری مکمل کرنے کی توفیق ملی ہے۔
اسی طرح بطور قائد مجلس کینیٹیک(Connecticut) خدمت کی توفیق پانے والے خادم کو اپنا تعارف کروانے اور بات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
بعد ازاں حضور انور نے اوّل الذکر نو مبائع خادم سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کے پسِ منظر کے بارے میں دریافت فرمایا تو موصوف نے عرض کیا کہ وہ پورٹو ریکن(Puerto Rican) ہیں اور ان کی پرورش ایک عیسائی گھرانے میں ہوئی تھی۔
مزید برآں شاملینِ مجلس کوحضور انور سے مختلف موضوعات پرمتفرق سوالات پوچھنے اور راہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ اپنے کام کے سلسلے میں مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ کمپنیاں اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ بھی کام کرتی ہیں۔نیز ان کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کس کمپنی کےساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔اس تناظر میں موصوف نے حضورانور سے راہنمائی طلب فرمائی ؟
حضورانور نے موصوف سے استفہامیہ انداز میں دریافت فرمایا کہ کیا امریکہ میں کوئی ایسا بھی کاروبار ہے جس میں اسرائیلی بالواسطہ یا بلاواسطہinvolved نہ ہوں؟ نیز انہیں نصیحت فرمائی کہ وہ اپنی آمدنی میں سے چندہ زیادہ ادا کیا کریں اور صدقہ دیا کریں۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے آرگن ٹرانسپلانٹ کروائے ہوں انہیں مدافعتی نظام کے لیے بہت سی ادویات لینی پڑتی ہیں، ہمارے پاس ہومیو پیتھک ادویات بھی ہوتی ہیں، لیکن ایسے معاملات میں ڈاکٹرز اکثر یہ تاکید کرتے ہیں کہ ہومیو پیتھک ادویات استعمال نہ کی جائیں، حضورانور اس سلسلہ میں راہنمائی فرمائیں کہ کیا ہمیں ہومیو پیتھک دوائی استعمال کرنی چاہیے جبکہ ڈاکٹر زنے اسے استعمال کرنے سے منع کیا ہو؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں صرف ایک ہی دوائی پر اعتبار اور بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کا یہ ایمان ہو یا آپ سمجھتے ہوں کہ اضافی طور پر ہومیو پیتھک دوائی آپ کے علاج یا بیماری کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے تو آپ وہ دوائی استعمال کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ہومیو پیتھک دوائی پر ایمان نہیں رکھتے ان پر وہ دوائی کوئی اثر نہیں کرے گی۔ یہ آپ پر منحصر ہے۔
ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ کوئی دوائی لے رہے تھے، آپؓ نے پہلے ایلوپیتھک دوائی لی، پھر آپؓ نے مقامی دیسی دوائی لی اور پھر آپؓ نے ہومیو پیتھک دوائی لی۔ ایک شخص جو پاس کھڑا تھا انہوں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی دوائیاں لی ہیں، کون سی دوائی کام کرے گی؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ مجھے کسی بھی دوائی پر کوئی بھروسہ نہیں ہے، مَیں اللہ پر توکّل رکھتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اللہ نے کس دوائی میں شفا رکھی ہے جو میری بیماری کو ٹھیک کر دے۔ اس لیے مَیں ساری دوائیاں استعمال کر رہا ہوں۔
پھر ایک خادم نے عرض کیا کہ مجھے پاکستان سے ایک رشتہ کی تجویز موصول ہوئی ہے اور وہ اس سلسلہ میں دعا کی درخواست کرنا چاہتے ہیں۔ مزید موصوف نے عرض کیا کہ الله تعالیٰ نے عدم سے تخلیق کے عمل کا آغاز فرمایا تھا لیکن کسی نہ کسی دن ہمارا خاتمہ بھی تو ہونا ہے یعنی ظاہر ہے کہ کسی دن زمین پر ہمارا وقت ختم ہو جانا ہے نیز دریافت کیاکہ کیا جنّت میں ہمارے قیام کا وقت محدود ہو گا اور کیا وہ وقت بھی کبھی ختم ہو جائے گا؟
حضور انور نے فرمایا کہ آخرت میں وقت کا تصوّر ہماری عقل و سمجھ سےبالا ترہے۔اگر وقت کی کوئی حدّہو بھی تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے،وہ ہمارے لیے لامحدود ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب ختم ہونے والا ہے؟ اس کا درست طور پراندازہ ہم نہیں لگا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میرا ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے، ایک اَور جگہ یہ لکھا ہے کہ میرا ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے، آپ اگر ان کو ضرب دیں تو یہ اربوں سالوں کے برابر ہے۔ مختصر طور پر یہ ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ وقت کب ختم ہو گا تو اس لیے ہمیں نہیں پتا، اللہ کی نظر میں time limitہے، لیکن وہ ہماری سوچ وسمجھ سے بالا بات ہے۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ میرا سوال آج صبح مسجد مبارک میں سورۂ بنی اسرائیل کی تفسیر سے دیے گئے درس کی بابت ہے جو عیسائیوں کے متعلق تھا کہ وہ رومی سلطنت سے دلچسپی اور ایک قسم کی رغبت رکھتے ہیں جبکہ انہوں نے انہیں ستایا اور مسلمانوں پر وہ لعنت بھیجتے ہیں جنہوں نے انہیں بڑی خوشی سے قبول کیا، ایسا کیوں ہے؟
اس پر حضور انورنے فرمایا کہ کیونکہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور عیسائی یہ مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں اور یہ کہ وہ تمام انسانوں، انبیاء اور مذاہب سے بالا تر ہیں، اس وجہ سے بھی ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف کچھ دشمنی ہے، وہ اصل عیسائی ہی سچے مومن تھے جو ایک خدا کو مانتے تھے۔ وہ یہ نہیں مانتے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ہیں۔ پھر بعد میں جب عیسائیت پھیلی اور رومن بادشاہ نے عیسائیت قبول کر لی، تب انہوں نے عیسائیت کی تعلیم کو بگاڑ دیا اور اپنی کچھ رسومات اور مذہب کی تعلیم کو ساتھ ملا دیا۔ اب موجودہ دَور کی عیسائیت رومی نظریات اور عیسائیت کا مرکب ہے، اس وجہ سے وہ رومیوں کے خلاف نہیں ہیں۔
ایک واقفِ نَو خادم نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ سول انجینئرنگ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ وہ دیگر شعبہ جات جیسا کہ میڈیسن وغیرہ کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں، انہوں نے اس تناظر میں ایک مخصوص فیلڈ کے انتخاب کے بارے میں اپنی الجھن کا اظہار کیا نیزحضور انور سے اس حوالے سے راہنمائی طلب فرمائی؟حضور انور نے فرمایا کہ اگر ان مضامین کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ وہ میڈیسن بھی پڑھ لیں تو یہ فائدہ مند ہو گا، نیز اس بات پر زور دیا کہ میڈیسن بہتر ہے، بایں ہمہ تجویز فرمایا کہ میڈیکل فیلڈ میں ریسرچ کرنا اس سے بھی زیادہ بہتر option ہو گا۔
مزید برآں موصوف نے عرض کیا کہ خدام نے اپنی انگوٹھیاں جمع کرادی ہیں نیز عاجزانہ درخواست ہے کہ کیا آپ انہیں متبرک فرما سکتےہیں؟ اس پر حضور انور نے اَز راہِ شفقت ایک ایک کرکے انگوٹھیوں کو حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام کی انگوٹھی سے مَس کر کے متبرک فرمایا۔
ایک خادم نے ذکر کیا کہ ان کا یہ وفد مُربی صاحب کے ساتھ اس نیت سے آیا تھا کہ روزانہ پانچوں نمازیں حضور انور کی اقتدا میں ادا کرنے اور بالمشافہ ملاقات کے ذریعہ حضور انور کی صحبت صالحہ سے فیضیاب ہونے کی توفیق پائیں گے۔ اس پر حضور انور نے تلقین فرمائی کہ پھر یہی آپ کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
اسی طرح موصوف نے عرض کیا کہ ہم امریکہ واپس جارہے ہیں تو خلافت سے ایک مضبوط رشتہ قائم کرنے کے واسطے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
حضور انور نے فرمایا کہ سب سے ضروری بات تو یہ ہے کہ پنج وقتہ نماز وقت پر ادا کریں، جو مرضی حالات ہو جائیں کبھی کوئی نماز مت چھوڑنا، یہ وہ اہم چیز ہے جس پر آپ زور دیں اور اس پر خاص توجہ کریں۔
اس کے بعد ایک خادم نے حضور انور سے اجازت طلب فرمائی کہ کیا مَیں آپ کی موجودگی میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکتا ہوں؟اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئےپوچھا کیا آپ شاعر ہیں؟ اس پرتمام حاضرینِ مجلس بھی مسکرا دیے۔موصوف نے نفی میں جواب دیتے ہوئےعرض کیا کہ جب ہم ہرجمعہ کے خطبہ کے لیے ایم ٹی اے پر حضورکو دیکھتے ہیں تو یہ ہمارے لیےروحانی طور پر ترقی کرنے کا تجربہ ہوتا ہے لیکن گذشتہ چند دنوں سے حضور انور کی صحبت میں رہ کر روحانی انقلاب پیدا کرنے کا ایک ایسا خاص تجربہ تھا جن کو الفاظ میں ڈھالنا ایک مشکل امر ہے۔ حضور انور سے بارہ فُٹ کے فاصلہ پر بیٹھ کر میرے دل کو قرار اور خوشی محسوس ہوئی، خلافت کے لیے میری محبت مضبوط ہے اور مَیں حضور سے بہت محبت کرتا ہوں۔
حضورانور نے جزاک اللہ کہا اور مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ آپ کی پیمائش کی صلاحیت تو بہت اچھی ہے ۔آپ نے ۱۲؍فُٹ ناپے ہیں، کیا یہ واقعی ۱۲؍فُٹ ہی بنتے ہیں؟ موصوف نے عرض کیا کہ شاید ۱۵؍فُٹ ہوں۔
حضور انور کے دریافت فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ مسجد بیت الفتوح میں رہائش کا انتظام تھا، اس پرحضورانور نے فرمایا کہ پھر آپ فجر کی نماز پر تو نہیں آ سکتے ہوں گے؟ موصوف نے عرض کیا کہ آج صبح ایسا ممکن ہو سکا تھا کیونکہ ہمارے لیے سواری کا انتظام کر دیا گیا تھا۔
حضور انور کے کھانے کے معیار کے متعلق استفسار فرمانے پر موصوف نے عرض کیا کہ کھانابہت اچھا اور فائیو سٹار ہوٹل کی طرح کا تھا ۔حضور انور نے استفسار فرمایا کہ لنگر خانہ کے کارکنان آپ کا اچھا خیال رکھ رہے ہیں؟ اس پر موصوف نے الحمد لله کہتے ہوئے مکمل تسلی اور اطمینان کا اظہار کیا۔
حضور انور نے کھانے کے حوالے سے مزیدیہ بھی دریافت فرمایا کہ کسی کا پیٹ خراب تونہیں ہوا؟ موصوف کے نفی میں جواب پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ کرے نہ ہو۔ اسی طرح حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ لنگر خانہ کے کھانے کے متعلق اگر کوئی منفی بات ہو اس کو اجاگر کریں اور اسے تحریر میں لائیں تاکہ وہ improveکریں۔اسی طرح improvementہوتی ہے کہ جو ہماری کمزوریاں یا کمیاں ہیں وہ سامنے آ جائیں۔ پھر ہم جان سکیں گے کہ کس طرح ہم نے بہتری پیدا کرنی ہے۔اگر ہر کوئی جھوٹی موٹی تعریفیں کرتا رہے تو پھر آپ اپنے اندر بہتری پیدا کر ہی نہیں سکتے۔ اس لیے negative commentsکو بھی برداشت کرنا چاہیے۔
ایک خادم نے حضور انور سے درخواست کی کہ آپ ہمارے مربی صاحب کے لیے بھی دعا کریں جنہوں نے سب کو اکٹھا کیا اور اس tripکو ممکن بنانے کے لیے بھر پور محنت کی۔
اس پر حضورانور نے فرمایا کہ نوجوان ہونے کے ناطے انہیں نوجوانوں میں اتفاق و اتحاد کی مربوط قوت ہونا چاہیے۔
ایک سوال کیا گیا کہ ہم تبلیغ کو مزید مؤثر کس طرح بنا سکتے ہیں؟
اس پر حضورانور نے فرمایا کہ ہمارا کام صرف پیغام پہنچانا ہے نیز لٹریچر، پمفلٹس اور بروشرزتقسیم کر کےاور سوشل میڈیاکا استعمال کرکے جتنا بھی ممکن ہوسکے تبلیغ کرنی ہے، جبکہ ثمرات اور نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب وہ چاہے گا توتمہیں پھل بھی عطا کرے گا۔
ایک خادم نے عرض کیا کہ ہمارے گروپ میں بہت سارے خدام ایسے ہیں جو شادی شدہ ہیں، ابھی ابھی بعض کا یا تو نکاح ہوا ہے یا منگنی ہو گئی ہے، یا ہم میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو غیر شادی شدہ ہیں اور ان شاء اللہ جلدشادی شدہ ہو جائیں گے یا شادی کے مراحل میں سے گزر رہے ہیں۔ آپ ہمیں کوئی ایک ایسی نصیحت فرما سکتے ہیں، ایک وصف یا بات جو ہم اپنے اندر پیدا کر سکتے ہوں اور جس سے ہم اپنی ہونے والی شریکِ حیات سے ایک کامیاب عائلی تعلق قائم کر سکیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ کوئی بھی پرفیکٹ(perfect) نہیں ہے۔ ہمیشہ اپنی بیویوں کے ساتھ تحمل سے پیش آؤ۔ جب بھی تم کوئی چیز یا کوئی کمزوری دیکھو تو اپنی آنکھوں، اپنے کانوں اور اپنی زبان کو بند رکھو۔ آپ کی زندگی بہترین گزرے گی۔یہ فرماتے ہوئے حضور انور مسکرائے اور تمام حاضرینِ مجلس بھی خوب محظوظ ہوئے۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے خدام کو قلم عطا فرمائے نیز اپنےساتھ گروپ فوٹوبنوانے کی سعادت عطا فرمائی۔
حضور انورنے آخر پر سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ کہا اوراس طرح سے یہ ملاقات بخیر و خوبی انجام پذیر ہوئی۔