مسلمان عورت کے کسی غیر مسلم مرد سے نکاح کی ممانعت
جب ہم مسلمان عورت کی کسی غیر مسلم مرد سے شادی کے معاملہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک مسلمان عورت کی ہر مشرک، ہر کافر اور ہر اہل کتاب مرد سے شادی کی ممانعت کا واضح حکم قرآن کریم میں ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ آیت 222میں حکم دیتا ہے کہ مشرکوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں اپنی عورتیں نہ بیاہو۔ اور سورۃ المائدۃ کی آیت 6میں جہاں مسلمانوں کےلیے اہل کتاب کا اور اہل کتاب کےلیے مسلمانوں کا کھانا جائز قرار دیا وہاں مسلمان مردوں کو اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی تو اجازت دی لیکن مسلمان عورتوں کے اہل کتاب مردوں سے نکاح کا ذکر نہ فرما کر اس امر کی ممانعت کو قائم فرمایا۔ اور سورۃ الممتحنۃ کی آیت 11 میں ہجرت کر کے آنے والی مسلمان عورتوں کو کفار کی طرف نہ لوٹانے اور ان عورتوں کو کفار کےلیے اور کفار کو ان مسلمان عورتوں کےلیے جائز نہ ہونے کی ہدایت فرما کر کفار سے بھی مسلمان عورتوں کو بیاہنے کی ممانعت فرما دی۔
ان قرآنی احکامات کے علاوہ آنحضورﷺ کی سنت اور آپؐ کے ارشادات سے کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ حضورﷺ نے اپنی کسی عزیزہ کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔ یا ان قرآنی احکامات کے نزول کے بعد صحابہ رسولﷺ نے خود یا حضورﷺ کے ارشاد پر اپنی کسی بچی کو کسی غیر مسلم سے بیاہا ہو۔ بلکہ اس کے برعکس حضورﷺ نے صحابہ کو عام نصیحت فرمائی کہ جب تمہارے زیر کفالت کسی مسلمان خاتون کا رشتہ کوئی ایسا شخص طلب کرے جس کا دین اور اخلاق تمہیں پسند ہو تو اس خاتون کو اس سے بیاہ دو، خواہ اس شخص میں کوئی نقص ہو۔ حضورﷺ نے (دین اور اخلاق والے) اس فقرہ کو تین دفعہ دہرایا۔ (سنن ترمذی کتاب النکاح)
(بنیادی مسائل کے جوابات قسط ۳۰
مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۱؍مارچ ۲۰۲۲ء)