بنیادی مسائل کے جوابات (قسط۶۹)
٭…ہندو مذہب اور بدھ مذہب میں کیا فرق ہے؟
٭…گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان ہو سکتا ہے؟
٭… اسلام کی رُو سے لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتی ہے اور اسلام نے شادی کی عمر کیامقرر کی ہے؟
٭…بغیر بتائے صدقہ دینے کے بارے میں راہنمائی
سوال: امریکہ سے ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا کہ ہندو مذہب اور بدھ مذہب میں کیا فرق ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اسلام تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک عالمگیر اور آخری مذہب ہے اور اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔ اس سے قبل اللہ تعالیٰ مختلف وقتوں اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اپنے انبیاء اور فرستادے بھیج کر دنیا کی ہدایت کے سامان کرتا رہا ہے۔
یہ مذاہب اپنے اپنے علاقوں اور اپنے اپنے وقتوں کے لیے ہوتے تھے۔ مرور زمانہ کے ساتھ جب کسی مذہب کے پیروکار اپنے دین کی حقیقی تعلیمات میں بگاڑ پیدا کر کے راہ راست سے دور ہو جاتے تو اللہ تعالیٰ دنیا پر رحم کرتے ہوئے یا تو اسی دین کی اصلاح کے لیے اپنے کسی اور فرستادہ کو مبعوث کر دیتا، یا کسی نئے دین کو دنیا میں قائم فرما دیتا۔ اسی بنا پر ہمارا ایمان ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کی بعثت ہوئی۔
ہندو ازم اور بدھ ازم بھی انہی سابقہ مذاہب میں سے ہیں۔ اب تو یہ دونوں الگ الگ عقائد رکھنے والے دو الگ الگ مذاہب ہی سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اصل میں یہ دونوں ایک ہی مذہب کی دو شاخیں ہیں۔چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ بدھ مذہب کو اللہ تعالیٰ نے قریباً ۵۰۰ سال قبل مسیح میں ہندو مذہب کی اصلاح کے لیے دنیا میں قائم فرمایا۔ حضرت بدھ علیہ السلام ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے اور خدا تعالیٰ سے راہنمائی پا کر آپ نے ویدوں کی ان باتوں کی اصلاح کی جنہیں ہندو مذہب کی اصل تعلیمات میں تحریف کر کے بدل دیا گیا تھا۔ آپ نے ہندو مذہب میں دخل پا جانے والی غیر ضروری سختی والی تعلیم کے مقابلہ میں نرمی والی تعلیم دی۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو توحید کا سبق دیا اور لوگوں کو ایک ہی خدا کی طرف بلایا۔
حضرت بدھ علیہ السلام کی تحریرات اور پیشگوئیوں میں بدھ مذہب کے ۵۰۰ سال بعد ایک نئے بدھا کی آمد کا بھی ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے حضرت بدھ علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔
اگر آپ ان مذہب کی تفصیل جاننا چاہتی ہیں تو ان مذاہب پر لکھی جانے والی کتب کاآپ کو مطالعہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی تصنیفات میں بدھ مذہب اور ہندو مذہب کے بارے میں بہت کچھ تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ بدھ مذہب کے بارے میں حضور علیہ السلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں اور ہندو مذہب کے بارے میں حضور علیہ السلام کی تصنیفات سرمہ چشم آریہ، آریہ دھرم، سناتن دھرم، چشمہ معرفت اور نسیم دعوت وغیرہ میں بہت تفصیل ملتی ہے۔ ان کا آپ کو مطالعہ کرنا چاہیے۔
سوال: یوکے کے ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی چیز مسجد میں گم ہو جائے یا وضو کرنے کی جگہ پر کوئی شخص اپنی چیز بھول جائے اور کسی دوسرے کو ملے تو کیا ایسی گمشدہ چیز کا مسجد میں اعلان ہو سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۰؍نومبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشادات فرمائے۔ حضور نے فرمایا:
جواب: گمشدہ اشیاء کا مسجد میں اعلان کرنا منع ہے۔ حضور ﷺ نے اسے بہت زیادہ ناپسند فرمایا چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مسجد میں کسی گمشدہ چیز کا اعلان کرے اور اسے ڈھونڈتا پھرے تو سننے والا شخص اسے کہے کہ اللہ کرے کہ تجھے یہ چیز نہ ملے۔ کیونکہ مساجد اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئیں۔ (صحیح مسلم كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة – باب النَّهْيِ عَنْ نَشْدِ الضَّالَّةِ فِي الْمَسْجِدِ وَمَا يَقُولُهُ مَنْ سَمِعَ النَّاشِدَ)
گمشدہ اشیاء کے مساجد میں اعلانات کی ممانعت کی بابت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جب ہم اسلام کا اور خصوصاً قرون اولیٰ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے مساجد کو صرف ذکر الٰہی کی جگہ ہی نہیں بنایا بلکہ بعض دنیوی امور کے تصفیہ کا مقام بھی بنایا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی مجالس میں ہم دیکھتے ہیں کہ لڑائیوں کے فیصلے بھی مساجد میں ہوتے تھے۔ قضائیں بھی وہیں ہوتی تھیں۔تعلیم بھی وہیں ہوتی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد صرف اللہ اللہ کرنے کے لیے ہی نہیں بلکہ بعض دوسرے کام بھی جو قومی ضرورت کے ہوتے ہیں مساجد میں کیے جا سکتے ہیں۔ ہاں مساجد میں خالص ذاتی کاموں کے متعلق باتیں کرنا منع ہے مثلاًرسول کریم ﷺ نے فرمایاہے اگر کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق مسجد میں اعلان نہ کرے اگر وہ اس گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرے تو خدا تعالیٰ اس میں برکت نہ ڈالے۔ پس ایک طرف تو مساجد میں جنگی مجلسیں منعقد ہوتی ہیں، تعلیم دی جاتی ہے، قضائیں ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف گمشدہ چیز کے متعلق اعلان کرنا مسجد میں منع کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد میں جو کام ہوں وہ قومی ہوں، ذاتی نہیں۔ گویا مسجد اجتماعی جگہ ہے اور وہاں ایسے کام ہوسکتے ہیں جو اجتماعی اور قومی ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ جو کام وہاں ہوں وہ قومی فائدہ کے بھی ہوں اور نیکی کے بھی ہوں۔ گویا جو کام نیک ہے اور قومی فائدہ کا ہے اسے ذکر الٰہی کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔(خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ ۲۹؍اگست ۱۹۵۲ء، مطبوعہ روزنامہ الفضل لاہور ۱۱؍ ستمبر ۱۹۵۲ءصفحہ ۲)
پس ان ارشادات کی روشنی میں یہ بات تو واضح ہے کہ کسی ذاتی گمشدہ چیز کا مساجد میں اعلان کرنا منع ہے، کیونکہ یہ ذاتی نوعیت کا کام ہے اور اس کا قومی فائدہ سے تعلق نہیں۔ البتہ بچوں وغیرہ کی گمشدگی یا گمشدہ بچوں کے ملنے کا اعلان اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ کسی کی زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہےنیز اس کا شمار قومی فائدہ اور نیکی کے کاموں میں ہوتا ہے۔
تاہم کسی چیز کے مسجد میں گم ہونے یا مسجد سے کسی چیز کے ملنے کے متعلق مسجد میں آنے والے احباب کو مطلع کرنے کے لیے مسجد کے بیرونی دروازہ کے ساتھ کسی نوٹس بورڈ پر اس قسم کے امور کے نوٹس لگانے میں کوئی ہرج نہیں اور بعض پرانے فقہاء نے بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔
سوال: نیپال کے ایک مبلغ سلسلہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ اسلام کی رو سے لڑکی کس عمر میں بالغ ہوتی ہے اور اسلام نے شادی کی عمر کیامقرر کی ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۰؍ نومبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل ہدایات فرمائیں۔ حضور نے فرمایا:
جواب: قرآن کریم اور احادیث میں کہیں پر بھی لڑکے اور لڑکی کی شادی کے لیے صراحتاً کوئی عمر مقرر نہیں کی گئی۔ بلکہ اسلام نے علاقائی ماحول اور بچوں کی جسمانی قابلیت کو دیکھ کر شادی کرنے کی تعلیم دی ہے۔ تاہم لڑکے اور لڑکی کی شادی کی عمر اُن کے بالغ ہوجانے پر شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی نشانی لڑکی کو حیض کا آنا اور لڑکے کو احتلام ہونا ہے۔
پس بچوں کے بالغ ہونے کے بعد کسی وقت بھی ان کی شادی کی جا سکتی ہے، جس کے لیے ہر معاشرہ اور خاندان اپنے ماحول اور حالات کے مطابق بچوں کی شادی کی عمر کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے، البتہ اس کام میں بلا وجہ سستی اور کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ حدیث کی کتاب شعب الایمان میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: جس کو اللہ تعالیٰ اولاد دے تو چاہیے کہ وہ اس کا اچھا سا نام رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے اور اسے سلیقہ سکھائے۔ پھر جب وہ سن بلوغ کو پہنچے تو اس کے نکاح کا بندوبست کرے، اس کے بالغ ہونے کے بعد بھی اگر اس نے (اپنی غفلت اور بے پروائی کی وجہ سے) اس کی شادی کا بندوبست نہ کیا اور وہ اس وجہ سے کسی گناہ کے کام میں مبتلا ہو گیا تو اس گناہ کا ذمہ دار اس کا باپ ہو گا۔(شعب الایمان للبیہقی،باب الستون وهو في حقوق الأولاد والأهلين۔ جزء۱۸ صفحہ ۱۸۲،حدیث نمبر ۸۴۱۳)
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بچوں کے بالغ ہوتے ہی فوراً ان کی شادی کرنی ضروری ہو جاتی ہے، بلکہ اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ بالغ ہونے کے بعد جب وہ شادی بیاہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہو جائیں تو پھر بلاوجہ انہیں نکاح کے بغیر بٹھائے نہیں رکھنا چاہیے۔
چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ۱۹۲۹ء میں گورنمنٹ انڈیا کی طرف سے تجویز کیے جانے والے شاردا قانون کے سلسلہ میں قرآنی آیت وَاَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَالصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَاِمَآئِکُمۡ۔ (النور:۳۳) کے حوالہ سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ ان میں صلاحیت پیدا ہوتے ہی فوراً نکاح کردو۔بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ صلاحیت کے بعد بھی بغیر شادی کے نہ بیٹھے رہیں۔مگر یہ قانون شادی کو بالکل بند تو نہیں کرتا۔بند تو جب کرتا کہ شادی کو ہی ممنوع قرار دیتا ہے۔واضعین قانون تو اس بات کے مدعی ہیں کہ ہمارے نزدیک صلاحیت وہ ہے جو تمدنی طورپر ملک کے لیے مفید ہوسکےاور آئندہ نسلوں کی نشوونما کو جس سے نقصان نہ پہنچے۔اور ڈاکٹری اصول کے رو سے ایسی صلاحیت اکیس سال کی عمر میں ہوتی ہے۔اور چونکہ ابھی اتنی بڑی عمر تک اپنے بچوں کو بغیر شادی رکھنے کے لیے ملک تیار نہیں اس لیے ہم نے چودہ اور اٹھارہ سال کی شرط رکھی ہے۔ جب عوام الناس اسے برداشت کرلیں گے اور اس سے زیادہ کی برداشت ان میں پیدا ہوجائے گی تو پھر زیادہ عمر کے لیے قانون بنایا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ عام طورپر جسے صلاحیت سمجھا جاتا ہےوہ دراصل صلاحیت نہیں ہوتی۔بلکہ صلاحیت کے آثار ہوتے ہیں اور ہمارا یہی منشاء ہے کہ صحیح صلاحیت پیدا ہونے پر شادی کی جائے۔(اخبار الفضل قادیان دارلامان مورخہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۶)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اگرچہ شاردا قانون بنانے والوں کے موقف کو بیان کرنے کے لیے ہے، لیکن اس میں حضورؓ واضعین قانون کے دلائل کو غلط قرار نہیں دے رہے، بلکہ ان کی تائید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اور موقع پر حضورؓ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ہم اصولاً اس بات کی تائید میں ہیں کہ لڑکیوں کی شادی اُس عمر میں جائز ہونی چاہیے جبکہ وہ اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکیں اور اسلامی حکم یہی ہے کہ شادی عورت کی رضامندی کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اور جب تک عورت اس عمر کو نہ پہنچ جائے کہ وہ اپنے نفع و نقصان کو سمجھ سکے اس وقت تک اس کی رضامندی بالکل دھوکا ہے۔لیکن ہمارے مذہب نے اشد ضرورت کے وقت اس بات کی اجازت دی ہے کہ چھوٹی عمر میں بھی لڑکی کی شادی کی جا سکتی ہے۔لیکن اس صورت میں لڑکی کو اختیار ہو گاکہ وہ بڑی ہو کر اگر اس شادی کو پسند نہیں کرتی تو مجسٹریٹ کے پاس درخواست دے کر اس نکاح کو فسخ کرائے۔ (الفضل قادیان دارالامان، مورخہ ۲۲؍اکتوبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۱)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی آیت وَلَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا… (النساء:۴)کی وضاحت کرتے ہوئے اس مسئلہ کے بارے میں فرماتے ہیں : اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس کے) وہ تمام مال اُس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالہ مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت اُن کے کھانے اور پہننے کے لیے دے دیا کرو اور اُن کو اچھی باتیں قولِ معروف کی کہتے رہو یعنی ایسی باتیں جن سے اُن کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے اُن کے مناسب حال اُن کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے اُن کو سکھلاؤ اور اگر کوئی اَور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسب حال اُن کو پختہ کردو۔ غرض ساتھ ساتھ اُن کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہو جاویں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ اُن میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہو گئی ہے تو اُن کا مال اُن کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر اُن کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے، ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اُس کو نہیں چاہیئے کہ اُن کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے۔(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۳۴۶)
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلام نے بعض حکمتوں کے پیش نظر لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی کے لیے کوئی معین عمر مقرر نہیں فرمائی، بلکہ ہر معاشرہ کو اپنے ماحول اور ہر خاندان کو اپنے حالات کے مطابق اس بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے۔ البتہ لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ ہونے پر شادی کے قابل ہوتے ہیں، یہی فطرت کا قانون ہے اور ان کے بالغ ہونے کے بعد ہی ان کی شادی ہو سکتی ہے۔ اور چونکہ شادی کے ساتھ لڑکے اور لڑکی دونوں پر بہت سی ذمہ داریاں پڑنی ہوتی ہیں، اس لیے بلوغت کے بعد جب لڑکی گھریلو ذمہ داریاں ادا کرنے کی اہل ہو جائے اور لڑکا معاشی ذمہ داریاں نیز بیوی اور بچوں کی دیگر ذمہ داریاں ادا کرنے کے اہل ہو جائے تو بلاوجہ انہیں شادی کے بغیر بٹھائے رکھنا درست نہیں۔
سوال: ایک مربی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ الفضل میں ’’بنیادی مسائل کے جوابات‘‘میں ایک سوال کا یہ جواب پڑھا کہ’’کسی کو صدقہ بتا کر دینا چاہیے۔‘‘جبکہ میں یہی سمجھتا رہا کہ صدقہ دیتے وقت بتانا ضروری نہیں بلکہ ضرورت مند کی ضرورت پوری کر دو، چاہےصدقہ بطور تحفہ اسے دیا جائے۔ میں حسب استطاعت بعض سفید پوش احباب کی مالی مدد کرتا ہوں مگر کسی کو نہیں بتاتا کہ یہ صدقہ ہے اگرچہ میں جانتا ہوں کہ ان پیسوں میں بڑا حصہ صدقہ کے پیسوں کا ہوتاہے۔ کیونکہ اگر میں انہیں بتا دوں کہ یہ صدقہ ہے تو وہ میرا یہ تحفہ قبول نہیں کریں گےاور میں اس خدمت سے محروم ہو جاؤں گا۔ اس بارے میں راہنمائی کی درخواست ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مکتوب مورخہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۲۲ء میں اس سوال کے بارے میں درج ذیل راہنمائی فرمائی۔ حضور نے فرمایا:
جواب: آپ نے تحفہ اور صدقہ کو آپس میں ملا جلا دیا ہے۔ جبکہ تحفہ اور صدقہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اور ’’بنیادی مسائل کےجوابات‘‘میں شائع ہونے والے جس جواب کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس میں آنحضور ﷺ کے فعل سے اس امر کی وضاحت بیان ہوئی ہے کہ آپؐ کے پاس اگر تحفہ آتا تو آپؐ اس میں کچھ خود بھی کھا لیتے تھے۔ لیکن اگر صدقہ آتا تو آپؐ وہ سارے کا سارا اصحاب صفہ کو بھجوا دیتے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کی خدمت میں صدقات اور ہدیہ جات پیش کرنے والے آپ کو بتایا کرتے تھے کہ یہ صدقہ ہے اور یہ ہدیہ ہے۔ پس صدقہ اور ہدیہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
باقی جہاں تک آپ کا بعض غریب احباب کی مالی مدد کرنے کا سوال ہے تو اگر آپ کو علم ہو کہ کوئی صدقہ نہیں لیتا تو آپ کو اسے صدقہ بہرحال نہیں دینا چاہیے۔ اور اگر وہ ضرورت مند ہے تو صدقہ کی بجائے ہدیہ کی نیت سے بھی آپ اس کی مدد کر سکتے ہیں۔
اسی طرح آپ جب کچھ رقم کسی غریب بھائی کی مدد کے لیے الگ کرتے ہیں تو اسے صدقہ کی بجائے ہدیہ کی نیت سے بھی تو الگ کر سکتے ہیں۔ پھر جو غریب اور ضرورت مند ہو اور صدقہ قبول کر لیتا ہو اسے صدقہ کی رقم میں سے دے دیا کریں اور جو غریب اور ضرورت مند ہو لیکن صدقہ نہ لیتا ہو اور آپ ہمدردی کی خاطر اس کی مدد بھی کرنا چاہیں تو ایسے شخص کو ہدیہ کر کے دے دیا کریں۔
پس میرے نزدیک تو جو شخص صدقہ قبول نہیں کرتا اسے ہمیں صدقہ بہرحال نہیں دینا چاہیے۔ اور اگر وہ ضرورت مند ہو تو کسی اَور طریقہ سے اس کی مدد کی کوشش کرنی چاہیے۔