میری امی جان محترمہ نور الٰہی بیگم صاحبہ
عمر کے جو حصے گزر جاتے ہیں وہ یادوں کی صورت میںذہن میں اکٹھے ہوتے رہتے ہیں۔ یہی یادوں کے نقوش انسان کا اثاثہ اور سرمایۂ حیات ہوتے ہیں۔ آج میں اپنی یادوں کے خزانے کو کھول کر بیٹھی تو گلشنِ حیات کے گلدستہ میں ایک بہت ہی خوبصورت پھول پر میری نظریں جم گئیں۔ کیونکہ یہ پھول گلدستہ میں بہت ہی نمایاں ہے۔ یہ پھول میرے لیے ایک عظیم اور پُرشفقت ہستی ہے یعنی میری امی جان۔
ابتدائی حالات
میری امی جان محترمہ نور الٰہی بیگم صاحبہ کی ولادت ۱۹۱۹ء میں کھاریاں میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت چودھری ولی داد صاحب ؓحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔
اس وقت کھاریاں میں لڑکیوں کا سکول پرائمری تک تھا۔ کھاریاں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ لیکن حضرت ناناجان کی خواہش تھی کہ اپنی ذہین بیٹی کو آگے پڑھائیں۔ چنانچہ باقی کے امتحان پرائیویٹ دلوائے۔ حضرت ناناجان نے گھر میں دینی تعلیم دی۔ حدیث کا علم پڑھایا، کلامِ الٰہی اور اس کا ترجمہ و تفسیر حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحبؓ سے پڑھا جو بہت بڑے عالمِ دین تھے ۔انجام آتھم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر فرمودہ ۳۱۳؍صحابہؓ کی فہرست میں آپؓ کا نام دوسرے نمبر پر درج ہے۔ بعد میں ان کی بہو بنیں۔ حضرت ناناجان نے امی کی بہت اچھی تربیت کی، زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا، دینی تعلیم دلوائی، فارسی بھی پڑھائی۔
شادی
امی جان کی شادی میرے ابا جان چودھری سعدالدین صاحب ایم اے سے ۱۹۳۷ء میں ہوئی۔ اباجان حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحبؓ کے دوسرے بیٹے تھے اور یہ اباجان کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی اہلیہ وفات پا چکی تھیں۔ پہلی اہلیہ سے میرے اباجان کے دو بچے تھے محترم بھائی جان ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب مرحوم (واقفِ زندگی، نائیجیریا) اور آپا جان امۃ الحی صاحبہ۔ امی جان کے بطن سے چھ بچے پیدا ہوئے۔
خود نیک تو تھیں ہی پھر زندگی کا ساتھی بھی ایسا ملا جو بہت سی خوبیوں کا مالک اورخادم دین تھا۔ میرے ابا جان کا یہ طریق تھا کہ باوجودیکہ کافی تنخواہ ملتی تھی آپ مختلف چندہ جات کی ادائیگی اور بے کسوں اور ناداروں کی امدد کے بعد قلیل رقم اپنی حاجات کے لیے اپنے پاس رکھتے۔ امی جان نے کبھی اس بات پر شکوہ نہیں کیا کہ کچھ تو اپنے پاس جمع رکھا کریں۔ اباجان کے فوت ہوجانے کے بعد بھی یہی کہتی تھیں کہ انہوں نے جس بینک میں جمع کروایا ہوا ہے مجھے اللہ پر توکل ہے وہ بڑھا کر واپس کرنے والا ہے۔ واقعی انہوں نے زندگی میں ہی اپنی اولاد کو پھولتے پھلتے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اچھے حالات میں دیکھا۔
دینداری اور تقویٰ
میری امی کی دین کے ساتھ گہری وابستگی تھی۔ امی جان اپنے ہر عمل کو ارشادِ خداوندی کی روشنی میں ہی ترتیب دینے کی کوشش کرتیں۔ آپ کی زندگی خلوص، محبت اور عبادت کے اوصافِ نمایاں سے مزین تھی۔ان اوصاف نے ان کے اندر ایک مقناطیسی کشش رکھ چھوڑی تھی۔ ان سے جو بھی ملتا وہ اپنے لیے اپنائیت اور جاذبیت کا احساس پاتا۔
آپ کی ذات بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھی۔ عبادت کی پابندی، آخر شب کی عبادت میں التزام سے نوافل ادا کرنے والی، دعا گو، باقاعدگی سے تلاوت قرآن کریم کرنے والی، دین کی روح کو سمجھنے والی ایک نیک خاتون تھیں۔
خدمتِ دین کا جذبہ
جماعت کے کاموں میں سرگرمی سے حصہ لیتیں۔ ہر تحریک پر لبیک کہتیں۔ ایک لمبے عرصہ تک مقامی لجنہ کی جنرل سیکرٹری اور بعد ازاں صدر منتخب ہوئیں۔ کھاریاں سے لاہور منتقل ہونے تک ایک لمبا عرصہ صدر رہیں۔ آپ کو کئی سندات ملیں جو اچھی کارکردگی پر صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ حضرت چھوٹی آپا سے عطا ہوئی تھیں۔
آپ موصیہ تھیں اور وصیت کا چندہ شرح سے کچھ زیادہ ہی ادا کرتیں۔ دوسری جماعتی تحریکات میں بھی فراخ دلی سے حصہ لیتیں۔ جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تو فوراً لبیک کہا اور دفتر اوّل کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہوئیں۔اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر سناتیں:
زِ بذلِ مال در راہش کسے مفلس نمی گردد
خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا
یعنی اللہ کی راہ میں مال دینے سے کوئی مفلس نہیں ہوتا۔ بلکہ اگر اپنے میں یہ ہمت پیدا کر لو تو خدا خود مدد کرتا ہے۔
صبر و رضا کی پیکر
میری امی کی زندگی امتحانوں کی لمبی داستان ہے۔ مگر وہ ہر آزمائش میں کامیاب اور ثابت قدم رہیں۔ انہوں نے زندگی میں بہت سے غم سہے اور صدمے اٹھائے۔ پہلے عین جوانی میں بیوگی کا گہرا گھاؤ لگا۔ اپنی زندگی کا ساتھی کھویا۔بعدازاں اپنے ایک جوان بھائی کی وفات کا دکھ اٹھایا۔ایسا بھائی جس نے امی کے بیوہ ہونے کے بعد انہیں بہت سہارا دیا۔ ہمارے یہ ماموں ہر وقت اپنی بہن کا درد بانٹنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ پھر ہماری خالہ کی وفات ہو گئی۔ امی کی اس بہن نے ان کو ماں کا پیار دیا، اور ہر دکھ بانٹا۔ اباجان کی وفات کے بعد ہر قدم اور ہر مشکل میں امی کا سہارا بنیں۔ کسی صدمہ پر امی نےصبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ پر توکّل کیااور اپنے دکھوں کا کبھی اظہار نہ کیا۔
ہر ایک کو متبسم چہرہ سے ملتیں۔ تمام اقرباء اور ہمسایوں سے خوش گوار تعلقات رکھے اور ہر کوئی اُن کی عزت کرتا۔ جب ہمارے اباجان کی وفات ہوئی توہم سب بہت چھوٹے تھے۔ بلکہ میری چھوٹی بہن اباجان کی وفات کے ایک ماہ بعد پیدا ہوئی۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہم باقی بہن بھائی کتنے بڑے ہوں گے۔ ہم اتنے چھوٹے تھے کہ امی کے غم کو نہ سمجھ سکتے تھے۔ نہ ڈھارس بندھا سکتے، نہ دکھ بانٹ سکتے تھے۔ ان کے سامنے زندگی کی طویل مسافت تھی مگروالدہ صاحبہ نے اولاد پر کبھی غم کی پرچھائیں نہ پڑنے دی۔ کبھی ان کی زبان سے یاس و نااُمیدی کے الفاظ نہیں سنے۔ اولاد کے سامنے اپنے آنسو نہیں بہنے دیے کہ کہیں وہ کسی احساسِ محرومی کا شکار نہ ہو جائے، یا ان کے حوصلے پست ہو جائیں۔ ہمیں ماں کا پیار دیا، باپ کی شفقت دی، دوست کا اعتماد دیا۔ اور زندگی کی راہوں میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ تحفظ کا ایسا احساس دیا کہ وہ ہمارے لیے امن کا حصار تھیں۔ بچپن میں ان باتوں کا احساس نہیں ہوتا۔ اب جو ان تمام امور پر غور کرتی ہوں تو اس وجود کی قدر کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔
توکّل علی اللہ
آپ کااللہ پر بہت توکّل تھا ۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اباجان کی وفات کے وقت صرف بھائی ضیاء الدین ہی بڑے تھے جو ایف ایس سی میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ذہن میں سوچا کہ اب اباجان نہیں رہے،میری پڑھائی کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ اور پھر چھوٹے بہن بھائیوں کا سہارا بننا بھی میرا فرض ہے۔ انہوں نے امی کو بتایا کہ میں ہوسٹل سے رخصت ہوتے وقت دوستوں سے کہہ آیا تھا کہ شاید میں پڑھائی جاری نہ رکھ سکوں، اب اپنا سامان لینے ہی ہوسٹل جاؤں گا۔ اس پر امی نے کہا اللہ مسبب الاسباب ہے تمہارے اباجان نے تمہاری زندگی وقف کی ہوئی ہے اور ان کا خواب تھا کہ تمہیں ڈاکٹر بنا کر سلسلہ کو دیں۔ وقف نہیں توڑنا ان کا خواب پورا کرنا ہے۔ اللہ کوئی سبیل پیدا کر دے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اورحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ازراہ شفقت تعلیم کاخرچ اٹھایا۔
بڑا کٹھن دور تھامگر آپ نے ہمت سے حالات کا مقابلہ کیا۔آپ نے کھاریاں گرلز سکول میں ملازمت شروع کردی۔ چونکہ امی نے ٹیچر ٹریننگ نہیں لی ہوئی تھی اس لیے پورا گریڈ نہیں ملتا تھا۔ بعد میں قانون لاگو ہو گیا کہ ہر ٹیچر کے لیے ٹیچر ٹریننگ لازمی ہے ورنہ ملازمت نہیں ملے گی۔ اس لیے امی نے ٹریننگ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ایک سال کے لیے امی کو ہوسٹل میں رہنا پڑا اور ہماری دیکھ بھال کے لیے ہماری خالہ ہمارے پاس آ گئیں۔ انہیں امی سے بہت پیار تھا، اور بہت بڑی ڈھارس تھیں۔ امی ہفتہ کے بعد چھٹی والے دن گھر آتیں۔ امی کا یہ دن بہت مصروف گزرتا۔ ہفتہ بھر کے لیے ہمیں ہدایات دیتیں، سودا سلف کی فہرست بناتیں کہ گھر میں کس کس چیز کی ضرورت ہے۔ محلے کے ایک دکان دار کو یہ کہا ہوا تھا کہ میرے بعد بھی اگر بچوں کو ضرورت پڑےتو سودا پہنچا دینا۔ بچوں کے یونیفارم وغیرہ تیار کر جاتیں۔ آپ اللہ کے فضل سے گھریلو ذمہ داریوں کے باوجود اچھے نمبروں سے پاس ہوئیں۔ چونکہ سکول سے ایک سال کی چھٹی لے کر گئی تھیں، آکر وہیں ملازمت پر حاضر ہو گئیں۔
ایک محنتی اور ہمدرد استاد
آپ ایک بہت محنتی اور ہمدرد استاد تھیں۔ ڈسٹرکٹ انسپکٹرس بھی ان کی محنت اور شرافت اور اخلاق سے اتنی متاثر تھی کہ جب تک رہیں،امی کا تبادلہ کسی دوسرے شہر میں نہیں کیا۔ یہ دیکھ کر کہ اپنے شہر میں عزت سے رہ رہی ہے۔پھر اگر چھ بچوں کے ساتھ بار بار شفٹ ہونا پڑے تو اس سے مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ اپنے گھر میں ہی رہے تو اچھا ہے۔ چنانچہ ساری عمر کھاریاں میں ہی پڑھاتی رہیں۔ سب کی آپاجی کہلائیں۔ بچے تو استاد ہونے کی وجہ سے کہتے تھے، بڑے عزت کی وجہ سے نام نہیں لیتے تھے۔ سب ہی آپاجی کہتے۔
آپ کو انگریزی نہیں آتی تھی، مگر اردو، فارسی اچھی طرح جانتی تھیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران اگر کوئی غلطی کرتا تواکثر زبانی ہی درستی کردیتیں۔حدیث پڑھنے کا بھی شوق تھا۔ اکثر لجنہ کے اجلاسوں میں عورتوں کی فرمائش ہوتی کہ آپاجی کا درسِ حدیث رکھا جائے۔ اسی طرح محلے میں کوئی وفات ہوجاتی تو عورتوں کی توجہ قرآن وحدیث کی طرف مبذول کرلیتیں تاکہ جہالت میں واویلانہ کریں۔
غیبت سے سخت نفرت تھی۔ اگر کوئی عورت آ کر کسی کے متعلق بات شروع کرتی تو آپ موضوع بدل دیتیں اور دوسری باتوں میں لگالیتیں۔
بہت شروع شروع کی بات ہے، جب ہم ابھی سکول میں پڑھتے تھے، تب مسجد میں رمضان کے مہینہ میں عورتوں کے لیے باجماعت تراویح کا انتظام نہ تھا۔ محلہ کی عورتوں نے تجویز پیش کی کہ ہم سب ایک گھر میں اکٹھی ہو جایا کریں گی اور آپاجی خواتین کو نماز تراویح پڑھا دیا کریں۔ چنانچہ ہمارے محلہ میں حاجی احمد ایاز صاحب کا صحن سب سے بڑا تھا، بلکہ انہوں نے باغ لگا رکھا تھا۔ ایاز باغ میں سب عورتیں جمع ہو جاتیں اور امی ان کو نماز تراویح پڑھاتیں۔ انہیں قرآنِ مجید کا کافی حصہ حفظ تھا۔ آہستہ آہستہ دوسرے محلوں کی عورتوں نے آنا شروع کردیا۔ گلیوں میں ابھی بجلی کی سہولت نہ تھی، اس لیے اندھیرا ہوتا۔ ہر کوئی اپنے ہاتھ میں ٹارچ یا لالٹین لیے نماز کے لیے بھاگی آتی۔ بہت روح پرور سماں ہوتا تھا۔
بچوں کی تعلیم و تربیت
اپنے بچوں کی تربیت اور نیکی کی تعلیم کے لیے حتی المقدور کوشاں رہیں۔ باوجود مالی تنگی کے سب بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔اس وقت کھاریاں میں زنانہ کالج نہیں تھا۔ میٹرک کے بعد ہمیں بیرون شہر کالج میں پڑھنے کے لیے ہوسٹل بھیجا گیا۔ جس پر بعض رشتہ داروں نے اعتراض کیا کہ لڑکیوں کو دوسرے شہر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں تک شہر میں رہ کر پڑھ لیا ہے کافی ہے۔ لیکن آپ نہ کسی کے رعب میں آئیں نہ پرواہ کی بلکہ کہا مجھے اپنی بچیوں پر اعتماد ہے۔ بہت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔اس نیک مثال کا ایسا اثر پڑا کہ کئی گھرانوں سے لڑکیاں کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہروں میں جاتی رہیں۔
جوانی میں خاوند کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بچوں کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آن پڑی تو اس ذمہ داری کو ایسے احسن طریق سے نبھایاکہ گاؤں والے ان کی مثال دیتے تھے۔ بلکہ غیر از جماعت بھی ان کی اخلاقی خوبیوں کا اعتراف کرتے تھے۔ اپنے اوقات کو اس طرح تقسیم کیا ہوا تھا کہ حتی الوسع کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۔ سکول سے واپس آتیں تو عصر کے وقت احمدی اور غیر احمدی عورتیں قرآن پڑھنے آجاتیں۔ کھاریاں کی بے شمار عورتوں اور بچیوں نے آپ سے قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھا۔اس طرح انہوں نے انہیں دنیاوی علم بھی پڑھایا اور دین کا علم بھی پڑھایا۔
گھریلو مصروفیات کے باوجود عبادت سے کبھی غافل نہیں ہوئیں۔ ملازمت کے دوران بھی ظہر کی نماز سکول میں پڑھتیں۔ اس با ت کا خاص خیال رکھتیں کہ نماز وقت پر پڑھی جائے۔ میرے پاس ہالینڈ آئیں تو ہمیں ہر وقت نمازیں جمع کرتے دیکھا تو کہنے لگیں، میں دیکھتی ہوں کہ آپ نماز کو ڈیوٹی سمجھ کر سر سے بوجھ اتارتے ہو جبکہ عبادت کے متعلق حکم ہے کہ اس کو سنوار کر ادا کیا جائے۔میں یہ جانتی ہوں یہاں کی زندگی بہت مصروف ہے، لیکن اگر اس بات پر توجہ نہ دی تو تمہاری اولادیں عبادت سے دور جا پڑیں گی۔
میرے تصور میں اب بھی وہ صحبتیں زندہ ہیں، جب نور کے تڑکے امی ہمیں جگاتیں، وہ کومل آواز آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ اٹھو لڑکیو جلدی کرو نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے، سورج طلوع ہونے کو ہے۔ ہمیں شروع سے ہی عبادت کا پابند بنایا، اُن کی تربیت کا یہ فیض میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہے۔ طبعاً سادہ مزاج تھیں مگر نہایت نفیس طبیعت پائی تھی۔
اکثر کہا کرتی تھیں کہ مجھے اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں مشکل پیش نہیں آئی۔ میرے بچوں نے مجھے تعلیمی،اخلاقی اور تربیتی امور میں کبھی مایوس نہیں کیا۔ لیکن جب رشتوں کا وقت آیا تو سوچتی تھیں کس سے مشورہ کروں ؟ کون ایسا ہو جس کے دل میں میری اولاد کے لیے درد ہو؟ کہیں مجھ سے غلط فیصلہ نہ ہو جائے۔
دعاگو وجود
مجھے یاد ہے، جب میرے شوہر ظفر (مرحوم) کا دل کا بائی پاس ہوناتھا۔ امی جان نے دعاؤں میں دن رات ایک کردیے۔ کہا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرمان ہے کہ حقیقی دعا اُس وقت ہوتی ہے جب مانگنے والا اپنے اوپر ایک موت وارد کر لے۔ سو میں نے کئی موتیں اپنے اوپر وارد کر کے ظفر کی زندگی کے لیے دعا کی ہے۔ اللہ ضرور سنے گا۔
جب انہیں ظفر کے کامیاب آپریشن کی اطلاع ملی تو شکرانے کے طور پر دو نفل روزانہ تازندگی پڑھنے کا عہد کیا۔ اور دیگر نوافل کے علاوہ یہ دو نفل بھی پڑھتی رہیں۔ اس وجود کو ہم کہاں ڈھونڈیں! یہ سوچ کر دل میں ہوک اٹھتی ہے کہ وہ دعاگو اٹھنے والےہاتھ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے ہیں اور ہماری راہ تکنے والی آنکھیں وا نہیں ہو سکتیں۔
ہر ماں اپنی اولاد کے لیے ایثار و محبت کا پیکر ہوتی ہے۔ وہ ایسی مضبوط دیوار ہوتی ہے جو ہر وار سہ کر بھی اولاد کے لیے پناہ گاہ بن جاتی ہے۔ ایسا سائبان ہوتی ہے جو زمانے کی جھلسا دینے والی دھوپ سےمحفوظ کر کے سکون کی گھنی چھاؤں مہیا کرے۔ ہر مشکل کے وقت ان کو دعا کے لیے کہہ کر ہم ہر فکر سے آزاد ہو جاتے۔ ان شعروں کا مطلب اب سمجھ میں آیا ہے:
خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا
عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی
میں تری خدمت کے قابل جب ہؤا تُو چل بسی
خدا کرے کہ ان کی نیکیوں کے چراغ ان کی اولاد کے ہاتھوں جلتےرہیں۔ امی ہمیشہ دعا کرتیں کہ اللہ مجھے چلتے پھرتےلے جائے، کسی کا محتاج نہ کرے۔ سو اللہ نے ان کی دعا سن لی ۔آپ کی وفات ۲۹؍ اگست ۱۹۸۷ء کو بعمر ۶۸؍ سال ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔
اے رحیم وکریم خدا! تُو میری ماں کو اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام سے نوازنا اور ان کے اعمال کی بہترین جزا عطا فرمانا۔ ان پر اپنی رحمت و بخشش کا سایہ رکھنا۔ آمین